سوال (591)

ایک فیملی جو پاکستان سے انگلینڈ شفٹ ہوئی ہے وہاں قسطوں پر گھر لینا چاہتے ہیں ۔ایک قیمت طے کے کرنے بعد قسطوں پر چیز مل جاتی ہے۔
لیکن اگر وہ قسطیں دو سال میں مکمل نہ ہوں تو وہاں کی پالیسی کے مطابق گورنمنٹ ریٹ بڑھا دیتی ہے اور پھر اگلے دو سال اسی ریٹ کے مطابق قسطیں ادا کرنا ہونگی کیا یہ جائز ہے؟

جواب

قسطوں کے کاروبار میں دو رائے ہیں، لیکن ہمارے علماء و مشایخ کے نزدیک قسطوں کا کاروبار دو شرطوں کے ساتھ جائز ہے:
1۔ خرید و فروخت کے وقت چیز کی قیمت طے شدہ ہو۔
2۔ قسط کی تاخیر پر جرمانہ وغیرہ نہ دینا پڑے۔
ان دو چیزوں کا خیال رکھا جائے تو پھر قسطوں کا کاروبار جائز ہے، ورنہ نہیں۔
اوپر بیان کردہ صورت میں دو سال بعد جو ریٹ بڑھایا جاتا ہے، یہ سود کی ہی ایک صورت ہے۔ کیونکہ قسطوں میں کسی بھی عذر سے اضافہ کرنا یا جرمانہ وغیرہ عائد کرنا یہ سود ہی شمار ہوتا ہے۔
بینک سے قسطوں میں خرید و فروخت کرنے میں یہ قباحت بھی ہوتی ہے کہ وہ سود سے بچنے کا اہتمام نہیں کرتے!
بیرون ملک سے اس قسم کے بہت سوال آتے ہیں، بعض سائلین تو یہاں تک عذر پیش کرنے لگتے ہیں کہ یہاں ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں، حتی کہ یہاں تک بھی کہا جاتا ہے کہ ہمارے علمائے کرام کہتے ہیں کہ یہ اضطراری اور مجبوری کی حالت ہے، لہذا یہ جائز ہے۔ حالانکہ بالکل درست بات نہیں ہے، جیسا کہ کئی ایک واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ ایسی کوئی مجبوری نہیں ہوتی، ہم وہاں رہ کر سودی معاملات سے بچنا چاہیں تو بچ سکتے ہیں!
بہر صورت یہ بڑی عجیب بات ہے، جب علمائے کرام دیارِ غیر سفر کرنے والوں کو روکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہاں اسلامی احکامات پر عمل پیرا ہونے میں مشکل ہے، تو جانے والے کہتے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہے، وہاں بہت مسلمان رہتے ہیں، وہاں ایسا کوئی مسئلہ نہیں، لیکن جب وہاں چلے جاتے ہیں تو پھر اضطرار وغیرہ کی کیفیتیں بیان کرکے رخصت تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں!

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ