سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فضائل (قسط:1)

اسلام کے دوسرے خلیفہ،مرادِ رسول، امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ⁦
نام:-عمر بن خطاب
لقب:- فاروق
کنیت:- ابو حفص
آپ کا لقب و کنیت دونوں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عطا کردہ ہیں۔
شجرۂ نسب:- سیدنا عمر بن خطاب بن نفیل بن عبد العزّٰی بن ریاح بن عبد اللہ بن قرط بن زراح بن عدی بن کعب بن لوّیٰ بن فہربن مالک۔
🔘 جبکہ والدہ کا نام خنتمہ تھا جو عرب کے مشہور سردار ہشام بن مغیرہ کی بیٹی اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی چچا زاد بہن تھیں۔
🔮 آپ کا نسب نویں پشت میں کعب پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جا ملتا ہے۔ کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مرہ کی اولاد میں سے ہیں، جبکہ عمر عدی کی اولاد میں سے ہیں۔۔
۔۔ [الفاروق علامہ شبلی نعمانی]
حضرت عمر کاخاندان ایام جاہلیت سے نہایت ممتاز تھا، آپ کے جد اعلیٰ عدی عرب کے باہمی منازعات میں ثالث مقرر ہواکرتے تھے اورقریش کو کسی قبیلہ کے ساتھ کوئی ملکی معاملہ پیش آجاتا تو سفیر بن کر جایا کرتے تھے اور یہ دونوں منصب عدی کے خاندان میں نسل درنسل چلے آ رہے تھے،
ددھیال کی طرح عمرننھیال کی طرف سے بھی نہایت معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے، آپ کی والدہ ختمہ، ہاشم بن مغیرہ کی بیٹی تھیں اور مغیرہ اس درجہ کے آدمی تھے کہ جب قریش کسی قبیلہ سے نبرد آزمائی کے لیے جاتے تھے تو فوج کا اہتمام ان ہی کے متعلق ہوتا تھا۔
[عقدالفرید باب فضائل العرب]
عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے باپ اور ان کے دادا تینوں انساب کے بہت بڑے ماہر تھے۔۔
[کتاب البیان والتبین صفحہ 117] “
حضرت عمر بہادر،قوی، اور مضبوط پہلوانی جسم کے حامل تھے۔
“آپ عکاظ کے دنگل میں کشتی لڑا کرتے تھے۔
[علامہ بلاذری کی کتاب الاشراف]
💠قبول اسلام:- حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ قریش کے سربرآوردہ سرداروں میں شامل اور رعب و دبدبہ والی شخصیت تھے اسی لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش تھی کہ عمر اسلام قبول کرلیں اس سے مسلمانوں کو ایک مضبوط حمایت حاصل ہوگی۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے۔

“اللهم اعز الاسلام باحب هذين الرجلين اليك بابي جهل او بعمر بن الخطاب.”

اے اللہ ان دونوں یعنی ابو جہل اور عمر بن خطاب (رضی اللہ تعالی عنہ) میں سے جو تجھے محبوب ہو اس کے ذریعے اسلام کو قوت دے. (سنن الترمذی٣٦٨١)
مسند احمد کی روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں
“فکان احبهما الى الله عمر بن الخطاب”
(مسند احمد٩٥/٢)
سنن کبرٰی للبیہقی کی اور مستدرک حاکم کی روایت کے الفاظ “اللهم اعز الاسلام بعمر بن الخطاب خاصة”
اے اللہ خاص عمر بن خطاب کے ذریعے سے اسلام کو عزت و قوت عطا فرما۔۔۔۔(سیرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ از حافظ سیف اللہ خالد)

گزشتہ سے پیوستہ (قسط:2)

مسند ابن حنبل میں ایک روایت خود عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
فرماتے ہیں کہ ایک شب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چھیڑنے نکلا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑھ کر مسجد حرام میں داخل ہو گئے اورنماز شروع کردی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۂ الحاقہ تلاوت فرمائی، میں کھڑا سنتارہا اورقرآن کے نظم واسلوب سے حیرت میں تھا، دل میں کہا: جیسا قریش کہا کرتے ہیں، خدا کی قسم یہ شاعر ہے.
ابھی یہ خیال آیا ہی تھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی:

“اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍo وَّمَا ھُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍoقَلِیْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ‎ “

“یہ ایک بزرگ قاصد کا کلام ہے اور یہ کسی شاعر کا کلام نہیں، تم بہت کم ایمان رکھتے ہو۔”
میں نے کہا یہ تو کاہن ہے، میرے دل کی بات جان گیا ہے، اس کے بعد ہی یہ آیت پڑھی:

“وَلَا بِقَوْلِ کَاہِنٍoقَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَoتَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ‎ “

“یہ کاہن کا کلام بھی نہیں تم بہت کم نصیحت پکڑتے ہو، یہ تو جہانوں کے پروردگار کی طرف سے اترا ہے”۔
آپ نے یہ سورۃ آخر تک تلاوت فرمائی اور اس کو سن کر اسلام میرے دل میں پوری طرح گھر کرگیا۔
[مسند ابن حنبل ج1 : 17]
اس کے علاوہ صحیح بخاری میں خود عمرکی زبانی یہ روایت ہے کہ بعثت سے کچھ پہلے یا اس کے بعد ہی وہ ایک بت خانہ میں سوتے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک بت پر ایک قربانی چڑھائی گئی اور اس کے اندرسے آواز آئی، اے جلیج ایک فصیح البیان کہتا ہے: لاَ اِلٰہَ اِلاَّاللہ، اس آواز کا سننا تھا کہ لوگ بھاگ کھڑے ہوئے ؛لیکن میں کھڑا رہا کہ دیکھوں اس کے بعد کیا ہوتا ہے کہ پھر وہی آواز آئی، اس واقعہ پر تھوڑے ہی دن گذرے تھے کہ لوگوں میں چرچا ہوا کہ یہ نبی ہیں۔۔ (باب بنیان الکعبہ باب اسلام عمر ؓ)
🔮اپنی فطرت سلیمہ کی بنا پر عمر ؓ کو اسلام سے ہمدردی پیدا ہوئی؛چنانچہ ان کی ہمشیرہ اور بہنوئی سعید بن زید نے اسلام قبول کیا تو اگرچہ وہ مسلمان نہیں ہوئے تھے تاہم لوگوں کو اسلام پر قائم رہنے کی تاکید کیا کرتے تھے؛چنانچہ سعید بن زید نے اس واقعہ کو ایک موقع پر بیان کیا ہے۔” کان عمر بن الخطاب ؓ یقیم علی الاسلام اناواختہ ومااسلم “یعنی عمرمجھ کو اوراپنی بہن کو اسلام پر مضبوط کرتے تھے حالانکہ وہ خود نہیں اسلام لاتے تھے”۔ [ سیرالصحابہ 326]
👈 نوٹ:- حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے کے ضمن میں حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو شہید کرنے کے ارادے سے نکلنا،بہن اور بہنوئی پر تشدد کرنا وغیرہ۔۔۔ سنداً ثابت نہیں۔ (بحوالہ مشہور واقعات کی حقیقت از ابو عبدالرحمان الفوزی ص28_33)

شانِ سیدنا عمر ؓ فاروق (قسط:3)

ان دنوں مسلمان ان کفار کے خوف سے سے دار ارقم میں چھپ کر نماز پڑھا کرتے تھے۔کفار کی ایذارسانی کی وجہ سے کھلے عام بیت اللہ میں نماز پڑھنا ممکن نہیں تھا
جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اسلام قبول کرنے کے ارادے سے دارِ ارقم میں پہنچے تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر نزولِ وحی جاری تھا، چند لمحوں بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر ؓ سے فرمایا:’’ اے عمر! تم کس چیز کا انتظار کر رہے ہو؟ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم اسلام قبول کرو؟!۔‘‘ بس یہ سننا تھا کہ فوراًکلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ اصحابِ رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کی خوشی میں اس زور سے نعرۂ تکبیر بلند کیا کہ صحنِ کعبہ میں بیٹھے ہوئے کفار ومشرکین نے بھی سنا اور اس نعرے کی آواز سے وادیِ مکہ گونج اُٹھی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سینۂ مبارک پر دستِ اقدس رکھا اور دعا فرمائی:

اَللّٰھُمَّ اخْرُجْ مَافِيْ صَدْرِہٖ مِنْ غِلٍّ وَأَیِّدْ لَہٗ إِیْمَانًا۔‘‘ ۔۔۔

’’یا اللہ ۔!اس کے سینے میں جو کچھ میل کچیل ہو وہ دور کردے اور اس کے بدلے ایمان سے اس کا سینہ بھردے ۔‘‘ (مستدرک للحاکم)
مفسرِ قرآن سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ’’قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم :

لما أسلم أتاني جبرائیل، فقال: استبشر أھل السماء بإسلام عمرؓ ‘‘

یعنی حضور سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’جبرئیل ؑ میرے پاس آئے اور کہا کہ: آسمان والے عمر ؓ کے قبولِ اسلام پر خوشیاں منا رہے ہیں۔‘‘
(مستدرک للحاکم و طبقات ابن سعد)
چند ہی لمحوں بعدسیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: اے اللہ کے نبی! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اثبات میں جواب دیا، تو فرمانے لگے کہ: پھر چھپ کر عبادت کیوں کریں؟ چلیے خانہ کعبہ میں چل کر عبادت کرتے ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دو صفوں میں تقسیم کیا: ایک صف کے آگے سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ چل رہے تھے اور دوسری صف کے آگے مرادِ رسولؐ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ چل رہے تھے۔
مسلمان جب خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو کفارِ مکہ نے دیکھا، نظر پڑی حمزہ ؓ پر اور عمر ؓ پر تو بڑے غمگین ہوئے، لیکن کس میں جرأت تھی کہ کوئی بولتا؟! اس دن سے مسلمانوں کے لیے تبلیغِ دین میں آسانی پیدا ہوئی اور یہی وہ دن تھا جب اللہ کے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ:

’’إن اللّٰہ جعل الحق علٰی لسان عمرؓ وقلبہ وھو الفاروق فرّق اللّٰہ بہٖ بین الحق والباطل۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے سچ کو عمرؓ کے قلب ولسان پر جاری کردیا اور وہ فاروق ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ حق وباطل میں فرق کردیا ہے ۔‘‘
(طبقات ابن سعد)
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :

’’واللّٰہ ما استطعنا أن نصلّي عندالکعبۃ ظاھرین حتٰی أسلم عمرؓ‘‘۔۔۔

’’اللہ کی قسم ! ہم کعبہ کے پاس کھلے بندوں نماز نہیں پڑھ سکتے تھے، یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے۔‘‘ (مستدرک للحاکم،سیدنا عمر فاروق اعظم از محمد حسین ہیکل)
اسی طرح حضرت صہیب بن سنان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:جب عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو اسلام کو غلبہ نصیب ہوا، اور ہم کھلے بندوں اسلام کی دعوت دینے لگے اور ہم حلقہ بنا کر بیت اللہ میں بیٹھتے تھے، ہم بیت اللہ کا طواف کرنے لگے اور اب ہم پر اگر کوئی زیادتی کرتا تو ہم اس سے بدلہ لیتے تھے۔

✍️⁩ عبد الرحمان سعیدی

یہ بھی پڑھیں: ⁦ سیدنا عمر فاروق ؓ ایک اجمالی تعارفی خاکہ