طب اور صحت سے متعلق ایک بہترین اردو نظم اور اس کی نسبت کے حوالے سے وضاحت
جہاں تک کام چلتا ہو غذا سے
وہاں تک چاہیے بچنا دوا سے
اگر خوں کم بنے، بلغم زیادہ
تو کھا گاجر، چنے ، شلغم زیادہ
جگر کے بل پہ ہے انسان جیتا
اگر ضعف جگر ہے کھا پپیتا
جگر میں ہو اگر گرمی کا احساس
مربّہ آملہ کھا یا انناس
اگر ہوتی ہے معدہ میں گرانی
تو پی لی سونف یا ادرک کا پانی
تھکن سے ہوں اگر عضلات ڈھیلے
تو فوراََ دودھ گرما گرم پی لے
جو دکھتا ہو گلا نزلے کے مارے
تو کر نمکین پانی کے غرارے
اگر ہو درد سے دانتوں کے بے کل
تو انگلی سے مسوڑوں پر نمک مَل
جو طاقت میں کمی ہوتی ہو محسوس
تو مصری کی ڈلی ملتان کی چوس
شفا چاہیے اگر کھانسی سے جلدی
تو پی لے دودھ میں تھوڑی سی ہلدی
اگر کانوں میں تکلیف ہووے
تو سرسوں کا تیل پھائے سے نچوڑے
اگر آنکھوں میں پڑ جاتے ہوں جالے
تو دکھنی مرچ گھی کے ساتھ کھا لے
تپ دق سے اگر چاہیے رہائی
بدل پانی کے گّنا چوس بھائی
دمہ میں یہ غذا بے شک ہے اچھی
کھٹائی چھوڑ کھا دریا کی مچھی
اگر تجھ کو لگے جاڑے میں سردی
تو استعمال کر انڈے کی زردی
جو بد ہضمی میں تو چاہے افاقہ
تو دو اِک وقت کا کر لے تو فاقہ
ایک وضاحت
یہ نظم سوشل میڈیا کے ذریعے غلط طور پر حکیم حافظ محمد سعید دہلوی ثم کراچوی رحمۃ اللہ علیہ سابق گورنر سندھ و بانی ہمدرد یونی ورسٹی کی طرف منسوب کی جا رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکیم محمد سعید اردو کے بڑے اور زود نویس نثر نگار تھے لیکن ہماری معلومات کے مطابق وہ شاعر نہیں تھے۔
یہ جناب نظم اسد ملتانی کی ہے، جو پہلے پہل رسالہ نمک دان لاہور میں 1955 میں چھپی تھی۔ اس کے بعد اسد ملتانی کے کلیات میں بھی شامل کی گئی ہے۔
برصغیر کے نامور معالج اور ممتاز طبیب حکیم انقلاب ڈاکٹر دوست محمد صاحب ملتانی رحمۃ اللہ علیہ(م 1972) نے اپنی کتاب “تحقیقات علاج بالغذا” میں اس نظم کو درج کر کے شہرت بخشی ہے۔
حکیم مدثر محمد خاں (تفہیمِ طب)