سوال (598)

شب برات کے حوالہ سے لجنہ کا کوئی فتویٰ ہو تو وہ درکار ہے ؟

جواب

بلا شبہ رجب کا مہینہ ان حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جن کے متعلق فرمان باری تعالی ہے:

“إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللهَ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ : ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ” [التوبة: 36]

«بے شک مہینوں کی گفتی، اللہ کے نزدیک، اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہے، جس دن اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، ان میں سے چار حرمت والے ہیں۔ یہی سیدھا دین ہے۔ سو ان میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو»
قرآن و سنت میں رجب کے مہینے کی صرف یہی فضیلت ثابت ہے کہ یہ ایک حرمت والا مہینہ ہے اس لیے اس کے احترام کا تقاضا ہے کہ اس میں خصوصی طور پر گناہوں سے بچنے اور عبادات بجا لانے کی کوشش کرنی چاہئیے۔ اس سے بڑھ کر اس مہینے کی کوئی خاص فضیلت ثابت نہیں اور اس سلسلے میں جو کچھ بھی بیان کیا جاتا ہے وہ محض کذب و افترا ہے۔ لہذا اس مہینے کو کسی بھی نیک عمل اور عبادت کے لئے خاص کرنا بدعت ہے خواہ وہ صلوۃ الرغائب ہو ، شب معراج کی محافل و مجالس ہوں، کونڈوں کی رسم ہو یا کسی مخصوص دن کا روزہ ہو ، سب ناجائز اور غیر شرعی امور ہیں۔ اسلئے ان سے خود بھی بچنا چاہئے اور دوسروں کو بھی بچانے کی کوشش کرنی چاہئے اور صرف ایسے اعمال ہی اختیار کرنے چاہیں جو سنت نبوی سے ثابت ہوں کیونکہ کامیابی صرف سنت کی اتباع میں ہی ہے ۔