سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللّٰہ عنہ کی سیرت کا مختصر تعارف
✍️دفاعِ صحابہؓ کا مشن جاری رہے گا۔ان شاءاللہ 7 اقساط میں سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللّٰہ عنہ کی سیرت کا تذکرہ۔
(قسط نمبر: 1)
نام: عبداللہ
اسلام سے پہلے آپ کا نام عبدالکعبہ تھا قبول اسلام کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا نام عبداللہ رکھا۔
ولادت: عام الفیل کے اڑھائی سال بعد 574ء
وفات: 23جمادی الثانی 13ھ بمطابق 23 اگست634ء
کنیت: ابوبکر ۔۔۔ابو کا معنیٰ والا اور بکر کا معنی “اولیت” یعنی اولیت والا.. پہلے نمبر پر آنے والا
♦️ اسلام قبول کرنے میں پہلا
♦️ مال خرچ کرنے میں پہلا
♦️ اسلام کے لئے مار کھانے میں پہلا
الغرض اسلام کے لیے ہر کام میں اولیت کی وجہ سے آپ کو ابوبکر کہا جاتا ہے
📚سیرت حلبیہ(علی بن برہان الدین الحلبی1044ھ) میں ہے کہ “کُنِيَ بِاَبِی بَکْرٍ لِاِبْتِکَارِهِ الْخِصَالِ الْحَمِيْدَةِ”
’آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوبکر اس لئے ہے کہ آپ شروع ہی سے خصائل حمیدہ رکھتے تھے‘‘۔
لقب: صدیق اور عتیق
آپ اسلام میں سب سے پہلے عتیق کے لقب سے ملقب کئے گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“انت عتیق من النار” تم جہنم سے آزاد ہو (ابن حبان)۔
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا کی روایت من اراد ان ینظر الیٰ عتیق من النار فالینظر الی ابی بکر ۔۔۔جو دوزخ سے آزاد شخص کو دیکھنا چاہے وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دیکھ لے (المعجم الاوسط)
دوسرا لقب: صدیق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یا ابا بکر ان اللہ قد سمٌاک صدیق (الاصابہ)
اے ابوبکر بے شک اللہ رب العزت نے تمہارا نام “صدیق” رکھا
واقعہ معراج کی تصدیق کی وجہ سے آپ کو صدیق کا لقب عطا کیا گیا۔
ولدیت: ابو قحافہ عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب
ابو قحافہ فتح مکہ کے روز اسلام لائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت عزت و تکریم کی آپ نے خلافتِ فاروقی میں وفات پائی۔
والدہ: ام الخیر سلمٰی بنت صخر بن عامر بن کعب
آپ ابو قحافہ کے چچا کی بیٹی ہیں۔ ابتدائے اسلام میں ہی مشرف بہ اسلام ہوئیں (الاصابہ)
سلسلہ نسب: عبداللہ (ابوبکر) بن عثمان (ابو قحافہ) بن عامر بن عمرو بن کعب بن تیم بن مرہ بن کعب
چھٹی پشت میں مرہ بن کعب پر آپ کا سلسلہ نسب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملتا ہے۔
♦️محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب
ازواج: 1. قتیلہ بنت عبدالعزیٰ
عبداللہ بن ابی بکر اور سیدہ اسماء بنت ابی بکر
رضی اللّٰہ عنھما کی والدہ
2. ام رومان بنت عامر
عبد الرحمن بن ابی بکر اور سیدہ عائشہ رضی اللّٰہ
عنھما کی والدہ
3. اسماء بنت عمیس
محمد بن ابی بکر کی والدہ (جنگ موتہ میں حضرت جعفر بن ابی طالب سب کی شہادت کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کے نکاح میں آئیں)۔
4۔حبیبہ بنت خارجہ
ام کلثوم بنت ابی بکر (رضی اللّٰہ عنہ) کی والدہ،
📚امام المغازی موسیٰ بن عقبہ رح فرماتے ہیں۔
“ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کے علاوہ تمام صحابہ کرام میں سے کوئی ایسا نہیں جس کی مسلسل چار پشتیں شرفِ صحابیت سے بہرہ مند ہوں یہ شرف صرف آلِ ابوبکر (رضی اللّٰہ عنہ)کو حاصل ہے۔
♦️سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ۔۔۔۔خود صحابی
♦️والد ابو قحافہ۔۔۔۔۔صحابی
♦️والدہ ام الخیر سلمٰی۔۔۔۔صحابیہ
♦️بیٹی سیدہ اسماء۔۔۔۔۔صحابیہ
♦️ نواسہ عبداللّٰہ بن زبیر۔۔۔۔۔صحابی
♦️بیٹا عبدالرحمٰن بن ابی بکر۔۔۔۔صحابی
♦️پوتا محمد بن عبدالرحمٰن۔۔۔۔۔صحابی رضوان اللہ علیہم اجمعین۔ (طبرانی کبیر:ج1ص54)
ذالک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء
؎ایں سعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
(قسط نمبر: 2)
👈دور جاہلیت میں بھی سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا شمار قریش کے اشراف و معزز لوگوں میں ہوتا تھا اور ظہورِ اسلام کے بعد بھی ان کا یہی مقام ومرتبہ قائم رہا۔
آپ “خیارھم فی الجاھلیۃ اور خیارھم فی الاسلام” کے عظیم درجہ پر فائز ہیں آپ فطرتاً اخلاقِ حمیدہ سے متصف تھے۔
🌷 ایام جاہلیت میں بھی عفت، پارسائی، رحمدلی، راست بازی، دیانتداری، فیاضی، مفلسوں اور بے نواوں کی دستگیری، قرابت داروں کا خیال اور مہمان نوازی۔۔۔۔الغرض تمام اوصافِ حمیدہ ان میں پہلے سے موجود تھے۔
شراب نوشی،بت پرستی اور دیگر رزائل سے زمانۂ جاہلیت میں بھی بیزار اور کنارہ کش تھے۔
ضیافت، مہمان نوازی اور جود و سخا میں امتیازی حیثیت کے مالک تھے۔
🌷جب کفار کے مظالم سے تنگ آکر آپ حبشہ کی طرف ہجرت کی نیت سے نکلے تو راستے میں ابن الدغنہ سے ملاقات ہوئی جو قبیلہ قارہ کا سردار تھا اس نے کہا،
“فان مثلک یا ابابکر لا یَخرج ولا یُخرج انک تکسب،
المعدوم وتصل الرحم وتحمل الکل وتقری الضیف وتعین،
علیٰ نوائب الحق”
“اے ابوبکر تجھ جیسے لوگ نہ ازخود نکلتے ہیں اور نہ نکالے جاتے ہیں تم لوگوں کو وہ چیز مہیا کرتے ہو جو ان کے پاس نہیں ہوتی، تم صلہ رحمی کرتے ہو، لوگوں کے بوجھ اٹھاتے ہو، مہمان نوازی کرتے ہو اور جھگڑوں میں حق (والوں )کی مدد کرتے ہو”
پھر کہنے لگا “میں تمہیں پناہ دیتا ہوں تم واپس لوٹ جاؤ”
ابن الدغنہ نے شام کو سردارانِ قریش کے پاس جا کر انہیں بھی سمجھایا اور یہی باتیں ان کے سامنے رکھیں۔
👈 (الفضل ما شھدت بہ الاعداء۔۔ فضیلت تو وہ ہے کہ دشمن بھی گواہی دینے پر مجبور ہوں)۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ الاصابہ میں فرماتے ہیں۔
“سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے عظیم ترین مناصب میں سے ابن الدغنہ کا یہ قول ہے۔
یہاں ابن الدغنہ نے ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے وہی اوصاف بیان کیے ہیں جو ام المؤمنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا نے بعثت کے وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کیے تھے یہ غایت درجہ کی مدح ہے”
1. محروم کو عطا کرنا۔
2. صلہ رحمی کرنا۔
3. لوگوں کے بوجھ اٹھانا۔
4. مہمان نوازی کرنا۔
5. حق کی مدد کرنا۔
🌷 حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ وہ عظیم ہستی ہیں جنہیں قیامت کے دن جنت کے آٹھوں دروازوں سے بلایا جائے گا (بخاری)۔
🌷حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ اور دیگر علماء نے احادیث کی روشنی میں جنت کے آٹھ دروازوں کے درج ذیل نام لکھےہیں:
1: بَابِ الصَّلاَةِ: نمازیوں کے لئے ۔
2: بَابُ الجِهَادِ: مجاہدین کےلئے۔
3: بَابُ الرَّيَّانِ:روزے داروں کےلئے۔
4: بَابُ الصَّدَقَةِ :صدقہ خیرات کرنے والوں کےلئے۔
5: بَابُ الْحَجّ:حج کرنے والوں کےلئے۔
6: الْبَابُ الْأَيْمَنُ: اللہ تعالی پر کامل توکل کرنے والوں کےلئے۔
7: بَابُ الْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ: غصے کو دبانے والوں اور لوگوں کو معاف کرنے والوں کےلئے۔
8: بَابُ الذِّكْرِ: ذاکرین کے لئے۔
یا بَابَ الْعِلْمِ :علم حاصل کرنے والوں کے لئے۔
(فتح الباری:7/28،ط،دارالکتب السلفیہ)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔۔۔۔
کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت کیلئے دروازے ہیں جو کوئی نمازی ہو گا وہ نماز والے دروازے سے بلایا جائے گا۔
اور جو کوئی مجاہد ہو گا وہ جہاد کے دروازے سے بلایا جائے گا۔
اور جو کوئی صدقہ و خیرات کرنے والا ہو گا اسے خیرات والے دروازے سے بلایا جائے گا۔
اور جو کوئی روزے دار ہو گا اسے باب الریان سے بلایا جائے گا۔
🌷یہ بات سن کر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا۔ جو کوئی ایک ہی دروازے سے بلایا جائے اس کو تمام دروازوں سے بلائے جانے کی ضرورت تو نہیں ہو گی لیکن یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا بھی کوئی ہو گا جو سب دروازوں سے بلایا جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں مجھے امید ہے کہ تو ہی ایسے لوگوں میں ہو گا یعنی تجھے بھی آٹھوں دروازوں سے بلایا جائے گا۔ ( صحیح بخاری:1764، مسلم :1705)
♦️ کون ابوبکر ؓ ۔۔۔۔۔ بالغ مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے۔
♦️ سب سے پہلے اسلام کیلئے مار کھانے والے۔
♦️ سب سے پہلے اپنا مال راہ خدا میں خرچ کرنے والے۔
♦️ تمام غزوات میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک۔
♦️ مسجد نبوی کی پہلی اینٹ رکھنے والے۔
♦️ سفر ہجرت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم وسلم کے ساتھی۔
♦️ جس نے سانپ کے ڈنگ برداشت کیے مگر آقا کو بے آرام نہیں ہونے دیا۔
♦️ جس کی ایڑی پر آقا کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے خود لعاب لگایا۔
♦️ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو منہ مانگی قیمت دے کر آزاد کروانے والا،
♦️ جسے جنت کی بشارت دی گئی۔
♦️ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں 17 نمازیں مصلّٰے نبوی پر پڑھانے والے۔
♦️ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مصلّے کا وارث۔
♦️ جو آقا کے ساتھ روضہ میں محوِ استراحت ہے۔
👈 عشرہ مبشرہ یعنی وہ 10 صحابہ جنہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی ان میں سے پانچ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی دعوت۔
پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔
1حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ
2حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ
3حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ
4 حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ
5 حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالی عنہ
(قسط نمبر: 3)
(شانِ صدیق رضی اللّٰہ عنہ قرآن میں)
حضرت ابوبکر صدیق ق رضی اللہ تعالی عنہ آفتاب نبوت کے ان درخشاں و تاباں ستاروں میں سے ایک ہیں جن کی وفائیں بھی باکمال تھی جو محبت اور جانثاری میں اپنی مثال آپ تھے۔
سفر ہجرت میں بے مثال رفاقت پر اللہ تعالی نے قرآن میں ثانی اثنین ( دو میں دوسرا) کا لقب دیا
آپ واحد شخص ہیں جن کے شرف صحابیت پر قرآنی شہادت “اذ تقول لصاحبہ” عیاں ہے
امام حسن بن فضل رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا جو شخص حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی صحابیت کا انکار کرے وہ نص قرآنی کا منکر ہو کر کافر ہوا (تفسیر بغوی. تفسیر مظہری)۔
آپ کی بے مثال قربانی پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے “لا تحزن” غم نہ کر کہہ کر تسلی اور اعزاز بخشا
🌷”لا تخف” اور “لا تحزن” میں فرق اہل علم جانتے ہیں۔
لا تخف وہاں استعمال ہوتا ہے جہاں اپنی جان کو خطرہ ہو ۔۔۔ اور
“لا تحزن” وہاں استعمال ہوتا ہے جہاں دوسرے کی جان کو خطرہ ہو اور اس کی فکر دامن گیر ہو
1- ثانی اثنین اذ ھما فی الغار اذ یقول لصاحبہ لا تحزن ان اللّٰہ معنا فانزل اللہ سکینته علیه
🌷 اذ یقول لصاحبہ میں صاحب سے مراد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں مفسرقرآن سیدنا نا ابن عباس اس رضی اللہ تعالی عنہ کا یہی قول ہے۔
🌷ان اللّٰہ معنا۔۔ بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے ہے کہ قرآن شریف میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو وہی معیت شامل ہے جسے خود نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے لفظ معنا ارشاد فرما کر ظاہر فرما دیا۔
🌷اے ابوبکر جس طرح اللہ کی معیت میرے ساتھ ہے۔۔۔
🌷اسی طرح اللہ تعالیٰ کی معیت تیرے ساتھ ہے۔
فرعونی لشکر قریب آنے پر موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا۔
ان معی ربی۔۔۔۔بیشک میرا رب میرے ساتھ ہے۔
اپنی معیت کی نسبت میں کسی کو شامل نہیں کیا۔
👈مگر یہاں سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کی رفاقت پر سرکار دوعالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا کمال اعتماد اور رفعت شان آشکارا ہوتی ہے کہ اللہ کی معیت کی نسبت میں ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کو بھی برابر شامل فرمایا:
🌷فانزل اللہ سکینته علیه۔
سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں یہ تسکین حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ پر نازل ہوئی کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تو سکینت ہمیشہ ہی رہی ہے۔۔۔۔۔(ازالۃ الخفاء 2/10)
اس آیت مبارکہ میں آپ رضی اللّٰہ عنہ کے لئے پانچ اعزازات بیان کئے گئے ہیں۔
👈ثانی اثنین اذ ھما فی الغار۔۔۔غار میں دو،
👈اذ یقول لصاحبہ۔۔۔۔جب اپنے “ساتھی” سے کہا۔
👈لا تحزن۔۔۔۔۔غم نہ کر،
👈ان اللّٰہ معنا۔۔۔۔اللٌٰہ “ہمارے”ساتھ ہے۔
👈فانزل اللہ سکینته علیه۔۔اللٌٰہ نہ اس پر سکینت نازل کی
🌷سیدنا عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ سفر ہجرت کی رات کے بارے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ پر رشک کیا کرتے تھے
ایک دفعہ حضرت عمر فاروق ؓ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ سے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ میری زندگی کی تمام نیکیاں لے لیں اور اس کے بدلہ میں مجھے اپنی زندگی کی صرف دو نیکیاں دے دیں۔ ایک رات کی نیکی اور ایک دن کی نیکی۔ رات کی وہ نیکی جب آپ ہجرت کے وقت، غار ثور میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور دن کی وہ نیکی جب آپ تحفظ ختم نبوت کے سلسلہ میں منکرین ختم نبوت کے خلاف جہاد کے لیے یمامہ کی طرف لشکر اسلام روانہ کر رہے تھے۔
🌷 جب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللّٰہ عنہ کو منہ مانگی قیمت دے کر آزاد کروایا تو
لوگوں نے بات کی کہ بلال کے خاندان کا ابوبکر صدیق کے خاندان پر کوئی بڑا احسان ہے جس کا بدلہ چکانے کے لئے ابوبکر رض نے ایسا کیا ہے ان کی باتوں کے جواب میں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
2-وسَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَىۙ• الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَهٗ یَتَزَكّٰىۚ• وَ مَا لِاَحَدٍ عِنْدَهٗ مِنْ نِّعْمَةٍ تُجْزٰۤىۙ• اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْاَعْلٰىۚ• وَ لَسَوْفَ یَرْضٰى۠•*
ترجمہ: اورعن قریب سب سے بڑے پرہیزگارکو اس آگ سے دور رکھا جائے گا۔ جو اپنا مال دیتا ہے تاکہ اسے پاکیزگی ملے۔
اور کسی کا اس پر کچھ احسان نہیں جس کا بدلہ دیا جانا ہو۔ صرف اپنے سب سے بلند شان والے رب کی رضا تلاش کرنے کے لیے ۔ اور بےشک قریب ہے کہ وہ خوش ہوجائے گا۔
ان آیات مقدسہ میں اللہ تعالیٰ نے جس شخصیت کو “اتقی” فرمایا،اس کے چار اوصاف ذکر فرمائے۔
1-“وہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پر اپنا مال لٹاتا ہے۔”
2-“اس پرکسی کا ایسا احسان نہیں،جس کا بدلہ دیا جائے۔”
3-اسے اس سے صرف رضائے الہی مطلوب ہے۔
4-اسے رب کی رضا حاصل ہوگی۔”
یہ سارے اوصاف جس شخصیت پر صادق آتےہیں
باجماع مفسرین وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔*
امام رازی رحمۃاللہ علیہ تفسیر رازی میں فرماتے ہیں:
*أجمع المفسرون منا على أن المراد منه ابوبكر رضي الله عنه.*
اہل سنت کے مفسرین کا اجماع ہے کہ *”اتقی”* سے مراد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔
(التفسیر الکبیر،ج:31،ص:205)
معالم التنزیل میں ہے:
*الاتقى يعنى ابابكر الصديق في قول الجميع.*
اتقی سے بالاتفاق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ مراد ہیں۔ (تفسیر معالم التنزیل،ج:8)
؎امام ابن جوزی فرماتے ہیں :اہل سنت کا اجماع ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔اور اس میں صراحت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق امت میں سب سے اتقی ہیں۔
(الصواعق المحرقہ،ص98)
3- والذی جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہ اُولٰئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ۔ (الزمر:٣٣)
” اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جنہوں نے انکی تصدیق کی، یہی ڈر والے ہیں”۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حق لیکر آنے والے سے مراد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تصدیق کرنے والے سے مراد حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ دیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے بھی یہی مروی ہے۔ (تفسیرکبیر، تفسیر مظہری، ازالۃ الخفاء ج٢:٢٢٥)
(قسط نمبر: 4)
4۔ وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبّہ جَنَّتٰنِ (الرحمٰن:٤٦)
”اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے،اسکے لیے دو جنتیں ہیں”
ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے روایت کی ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں نازل ہوئی۔ (تفسیرمظہری، تفسیر درمنثور)
5۔ وَلاَ یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ یُّؤْتُوْا اُولِی الْقُرْبٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَالْمُہٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا۔
” اور قسم نہ کھائیں وہ جو تم میں فضیلت والے اور گنجائش والے ہیں قرابت والوں اور مسکینوں اور اﷲ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دینے کی ، اور چاہیے کہ معاف کریں اور درگزرکریں۔ (النور:٢٢)
یہ آیت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں نازل ہوئی جب آپ نے ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانے والوں کے ساتھ موافقت کرنے پر اپنے خالہ زاد بھائی مسطح کی مالی مدد نہ کرنے کی قسم کھائی جو بہت نادار و مسکین بدری صحابی تھے۔ آپ نے اس آیت کے نزول پر اپنی قسم کا کفارہ دیا اور انکی مالی مدد جاری فرمائی۔
اس آیت سے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی علوشان ومرتبت ظاہر ہوئی کہ اﷲتعالیٰ نے آپکو اولوالفضل (فضیلت والا)فرمایا”۔(تفسیر مظہری).
6. ایک مرتبہ یہودی عالم فخاص نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا اے ابوبکر! کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ ہمارا رب ہمارے مالوں میں سے قرض مانگتا ہے، مالدار سے قرض وہی مانگتاہے جو فقیر ہو، اگر تم سچ کہتے ہو تو پھر اﷲتعالیٰ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ اسکی گستاخانہ گفتگو سن کر غضبناک ہوئے اور اسکے منہ پر زوردار تھپڑ مارا اور فرمایا ، اگر ہمارے اورتمہارے درمیان صلح کا معا ہدہ نہ ہوتا تو میں تیری گردن اڑا دیتا۔ فخاص نے بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جا کر سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی شکایت کی۔ آپ نے اسکی گستاخانہ گفتگو بیان کردی ۔ یہودی نے اس کا انکار کردیا تو اﷲتعالیٰ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی تصدیق کرتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی۔
لقَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّذِیْنَ قَالُوْا اِنَّ اللّٰہَ فَقِیْر” وَّ نَحْنُ اَغْنِیَاءَ۔ (اٰلِ عمران: ١٨١)
”بیشک اﷲنے سنا جنہوں نے کہا کہ اﷲمحتاج ہے اور ہم غنی”۔
7۔ وَاتَّبِعْ سَبِیْلَ مِنْ اَنَابَ اِلَیَّ ۔
” اور اسکی راہ چل جو میر ی طرف رجوع لایا”۔ (لقمٰن: ١٥)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا ارشاد ہے کہ یہ آیت سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں نازل ہوئی کیونکہ جب وہ اسلام لائے تو حضرت عثمان، طلحہ، زبیر ، سعد بن ابی وقاص، عبدالرحمٰن بن عوف ثنے انکی رہنمائی کے سبب اسلام قبول کیا۔
(تفسیر مظہری)
8۔ لَا یَسْتَوِیْ مِنْکُمْ مَنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ اُولٰئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْم بَعْدُ وَقَاتَلُوْا وَکُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْر (الحدید:١٠)
” تم میں برابر نہیں وہ جنہوں نے فتح مکہ سے قبل خرچ اور جہاد کیا، وہ مرتبہ میں ان سے بڑے ہیں جنہوں نے بعد فتح کے خرچ اور جہاد کیا اور ان سب سے اللہ جنت کا وعدہ فرما چکا ، اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے”
یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی کے حق میں نازل ہوئی کیونکہ آپ سب سے پہلے ایمان لائے اور سب سے پہلے اﷲ کی راہ میں مال خرچ کیا۔ (تفسیر بغوی)
قاضی ثناء اﷲ پانی پتی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں، یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ تمام صحابہ سے افضل اور صحابہ کرام تمام لوگوں سے افضل ہیں کیونکہ فضیلت کا دارومداراسلام قبول کرنے میں سبقت لے جانے، مال خرچ کرنے اورجہاد کرنے میں ہے۔ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ہے کہ جس نے اچھا طریقہ شروع کیا تو اسے اسکا اجر اور اس پر عمل کرنے والوں کا اجربھی ملے گا جبکہ عمل کرنے والوں کے اجر میں بھی کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ (صحیح مسلم),
علماء کا اس پر اجماع ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ سب سے پہلے اسلام لائے اور آپکے ہاتھ پر قریش کے معززین مسلمان ہوئے۔ راہ خدا میں مال خرچ کرنے والوں میں بھی سب سے آگے ہیں۔ کفار سے مصائب برداشت کرنے والوں میں بھی آپ سب سے پہلے ہیں۔ (تفسیر مظہری).
9- یاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰهُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّهُمْ وَ یُحِبُّوْنَهٗۤۙ-اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّةٍ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ٘-یُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآىٕمٍؕ-ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(۵۴)
اے ایمان والو! تم میں جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا تو عنقریب اللہ ایسی قوم لے آئے گا جن سے اللہ محبت فرماتا ہے اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں مسلمانوں پر نرم اور کافروں پر سخت ہیں ، اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے ۔ یہ (اچھی سیرت) اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا فرمادیتا ہے اوراللہ وسعت والا، علم والا ہے۔
مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ:تم میں جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا۔
رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعد کچھ لوگ مرتد ہو گئے تھے
فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰهُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّهُمْ: تو عنقریب اللہ ایسی قوم لے آئے گا جن سے اللہ محبت فرماتا ہے۔ ارشاد فرمایا کہ اے ایمان والو! تم میں سے اگر کچھ لوگ مرتد بھی ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ کے پاکیزہ صفت بندے پھر بھی موجود ہوں گے اوروہ عظیم صفات کے حامل ہوں گے۔ اس آیت میں ان کی چند صفات بیان فرمائی گئیں:
(1)…وہ اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں۔
(2)…وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں۔
(3)…مسلمانوں کے ساتھ نرمی و شفقت کا سلوک کرنے والے ہیں۔
(4)…کافروں سے سختی سے پیش آنے والے ہیں۔
(5)…راہِ خدا کے مجاہد ہیں۔
(6)…حق بیان کرنے میں کسی کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے بلکہ حق گو اور حق گوئی میں بیباک ہیں۔
🌷 یہ صفات جن حضرات کی ہیں وہ کون ہیں ، اس میں کئی اقوال ہیں۔
حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ، حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ عنہ اور امام حسن بصری نے کہا کہ یہ حضرات سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ اور ان کے وہ ساتھی ہیں جنہوں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد مرتد ہونے والوں اور زکوٰۃ کے منکروں سے جہاد کیا۔
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ نے مرتدین اور مانعین زکوٰۃ کے معاملہ میں کسی لومۃ لائم کی پرواہ کیے بغیر ثابت قدمی سے ان فتنوں کی سرکوبی کی
حتیٰ کہ فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں ابو بکر کی جان ہے، اگر مجھے جنگل کے درندے اٹھا کر لے جائیں تب بھی میں جیش اسامہ کو روانہ کر کے رہوں گا کہ اسے خود محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے روانہ ہونے کا حکم دیا تھا۔
“اگر مدینہ میں میرے سوا کوئی بھی متنفس باقی نہ رہے تو بھی حضور کے حکم کی تعمیل ہو کر رہے گی”۔
10: ومَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا (69) ذَلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللَّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ عَلِيمًا (70)
سورہ نساء 69۔70
اور جو اللّٰہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اُسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اللّٰہ نے فضل کیا یعنی انبیاءاور صدیق اور شہید اور نیک لوگ یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں۔
یہ اللّٰہ کا فضل ہے اور اللّٰہ کافی ہے جاننے والا,
اس آیت میں نبیوں کے بعدصدیقوں کا ذکر کیا گیا ہے.
امام قرطبی لکھتے ہیں.
اس آیت میں ابوبکر صدیق کی خلافت کی دلیل ہے کہ اللہ نے جب اپنے دوستوں کا ذکر کیا کتاب میں تو سب سے پہلے اعلیٰ درجے والوں کو بیان کیا جو کہ انبیاء ہیں اور پھر صدیقین کی تعریف کی ان دونوں کے درمیان کوئی درجہ نہیں رکھا۔۔۔(تفسیر قرطبی).
*امام بغوی حضرت عکرمہ کا قول نقل کرتے ہیں۔
حضرت عکرمہ کہتے ہیں: یہاں نبیوں سے مراد محمد ﷺ ہیں اور صدیقوں سے مراد ابوبکر ہیں شہیدوں سے مراد۔عمر، عثمان اور علی ہیں اور صالحین سے مراد سارے صحابہ ہیں۔۔یہ کتنے ہی اچھے ساتھی۔ یعنی سب ساتھی جنت میں ہوں گے۔
یہاں سے یہ بھی پتا کہ حضرت عکرمہ کے نزدیک سارے صحابی جنتی ہیں۔
تفسیر بغوی جلد 2 صفحہ 247
(قسط نمبر: 5)
((شانِ صدیق رضی اللّٰہ عنہ احادیث میں))
1: حضرت سلیمان بن یسار رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، اچھے خصائل تین سو ساٹھ ہیں۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ان میں سے مجھ میں کوئی خصلت موجود ہے؟ فرمایا، اے ابوبکر! مبارک ہو۔ تم میں وہ سب اچھی خصلتیں موجود ہیں۔
(الصواع المحرقۃ:١١٢، ابن عساکر)
2: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، میرے پاس جبریل آئے تو میرا ہاتھ پکڑا تاکہ مجھے جنت کا وہ دروازہ دکھائیں جس سے میری امت داخل ہوگی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی، یا رسول اﷲا! میں چاہتا ہوں کہ میں آپ کے ساتھ ہوتا ، تاکہ اس دروازے کو دیکھتا۔ رسول اﷲا نے فرمایا، اے ابوبکر! تم میری امت میں سب سے پہلے جنت میں داخل ہوگے۔ (ابوداؤد)
3: حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ انے فرمایا،میں وہ ہوں کہ زمین سب سے پہلے میرے اوپر سے شق ہو گی ، پھر ابوبکر سے، پھر عمر سے، پھر بقیع والوں کے پاس آؤں گا تو وہ میرے ساتھ اٹھائے جائیں گے۔ پھر میں اہلِ مکہ کا انتظار کروں گا ، یہاں تک کہ حرمین کے درمیان حشر کیا جائے گا۔
(ترمذی).
4: عن ابن عمر أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال لکل نبي رفيق و رفيقي في الجنة أبوبکر.
’’حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنھما سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر نبی کا ایک رفیق ہے پس جنت میں میرا رفیق ابو بکر ہے۔‘‘
5: حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ سے ارشاد فرمایا کہ تم غار میں میرے ساتھی تھے اور آخرت میں حوض کوثر پر بھی میرے ساتھی ہوگے۔ ( جامع ترمذی)
6: حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ ہرنبی کے دو وزیرہوتے ہیں۔ آسمان والوں میں سے (یعنی ملائکہ میں سے) اور دو وزیر ہوتے ہیں زمین میں بسنے والے انسانوں میں سے، تو آسمان والوں میں سے میرے وزیر جبرائیل و میکائیل ہیں اور زمین والوں میں سے میرے وزیر ابوبکرؓ و عمرؓ ہیں ۔ (جامع ترمذی)۔
7: حضرت جبیر بن مطعم ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کسی چیز کے معاملہ کے بارے میں حضور ﷺ سے گفتگو کی، آپؐ نے اس سے فرمایا کہ پھر (بعد میں کبھی) آنا، اس عورت نے عرض کیا کہ یہ بتلائیے کہ اگر میں آئندہ آؤں اور آپؐ کو نہ پاؤں ؟ حدیث کے راوی جبیر بن مطعم ؓ کہتے ہیں کہ غالباً اس عورت کا مطلب یہ تھا کہ اگر میں آئندہ آؤں اور حضور ؐ دنیا سے رحلت فرماچکے ہوں تو میں کیا کروں۔ تو آپ ؐ نے فرمایا کہ اگر تم مجھے نہ پاؤ تو ابوبکر ؓ کے پاس آجانا۔
(صحیح بخاری و صحیح مسلم)
8: حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کسی قوم (کسی ایسی جماعت اور گروہ) کے لئے جس میں ابوبکر ؓ موجود ہوں درست اور مناسب نہیں ہے۔ کہ ابوبکر ؓ کے سوا کوئی دوسرا شخص ان کا امام ہو۔ (جامع ترمذی)
9: حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن باہر تشریف لائے اور مسجد میں داخل ہوئے (اور آپؐ کے ساتھ ) ابوبکر ؓ و عمر ؓ بھی تھے، ایک ان دونوں میں سے آپ کے داہنی جانب اور دوسرے بائیں جانب اور آنحضرت ؐ ان دونوں کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے (اسی حال میں ) آپؐ نے ارشاد فرمایا۔ کہ ہم تینوں قیامت کے دن اسی طرح اٹھائے جائیں گے۔ (جامع ترمذی)
10: نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مجھ پر جس کسی کا احسان تھا میں نے اس کا بدلہ چُکا دیا ہے، مگر ابوبکر کے مجھ پر وہ احسانات ہیں جن کا بدلہ اللہ پاک اُنہیں روزِ قیامت عطا فرمائے گا۔
(ترمذی، ج5، ص374، حدیث: 3681)
11: نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے آخری ایام میں حکم ارشاد فرمایا: مسجد (نبوی) میں کسی کا دروازہ باقی نہ رہے، مگر ابوبکر کادروازہ بند نہ کیا جائے۔
(بخاری،ج 1،ص177)
1: ’’تاریخ الخلفاء‘‘ میں امام سیوطی رحمۃ اللّٰہ علیہ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کا یہ قول رقم فرماتے ہیں۔ کہ
ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ ہم سب کے سردار اور ہم سب سے بہتر۔ رسول اﷲﷺ کوہم سب سے زیادہ پیارے تھے۔
2: ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے آقا ومولیٰﷺ سے عرض کی آپ نے اپنی علالت کے ایام میں حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو امام بنایا تھا۔ حضورﷺ نے فرمایا:
نہیں! میں نے نہیں بنایا تھا بلکہ اﷲ تعالیٰ نے بنایا تھا۔
3: حسن بصری رح سے روایت ہے کہ علی رض نے ارشاد فرمایا: سرور دو عالم نے اپنی علالت کےدوران میں ابو بکر صدیق کو امامت کے لیے بلایا حالانکہ اس وقت میں بالکل تندرست تھا اور وہاں موجود تھا۔ حضور کے اس فیصلے سے ہم تمام صحابہ کرام سمجھ گئے کہ نبی کریم نے ابو بکر صدیق کو اپنا جانشین مقرر کیا ہے۔
4: حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کے سلسلے میں سب سے زیادہ اجروثواب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو ملے گا کیونکہ سب سے پہلے قرآن کریم کتاب کی صورت میں آپ ہی نے جمع کیا۔۔
5: حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا ارشاد ہے کہ اگر تمام اہلِ زمین کا ایمان ایک پلّہ میں اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا ایمان دوسرے پلّہ میں رکھ کروزن کیا جائے تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے ایمان کا پلّہ بھاری رہے گا۔ (تاریخ الخلفاء:١٢١، شعب الایمان للبیہقی)
6: عامر رح کہتے ہیں میں نے ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ سے سوال کیا سب سے پہلے اسلام لانے والے کون ہیں؟
آپ نے فرمایا کیا تم نے حسان بن ثابت رضی اللّٰہ عنہ کا یہ قول نہیں سنا؟
أذَا تَذَكَّرْتُ شَجْوًا مِنْ أَخِي ثِقَةٍ
فَاذْكُرْ أَخَاكَ أَبَا بَكْرٍ بِمَا فَعَلَا
خيْرَ الْبَرِّيَّةِ أَتْقَاهَا وَأَعْدَلَهَا
بَعْدَ النَّبِيِّ وَأَوْفَاهَا بِمَا حَمَلَا
والثَّانِيَ التَّالِيَ الْمَحْمُودَ مَشْهَدُهُ
وَأَوَّلَ النَّاسِ مِنْهُمْ صَدَّقَ الرُّسُلَا “
نبی کریمﷺ کے بعد سب سے افضل سب سے زیادہ پرہیز گار،سب سے زیادہ اپنی ذمہ داری نبھانے والا۔
نبی کریمﷺ کے پیچھے دوسرے نمبر پر تھا اس کی گواہی بڑی محمود تھی۔لوگوں میں رسول اللہ ﷺ کی سب سے زیادہ تصدیق کرنے والا تھا۔
7: ابو موسیٰ اشعری رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کہ علی رضی اللّٰہ عنہ نے مجھ سے فرمایا کہ میں تمہیں نبی کریم کے بعد سب سے افضل شخص کے بارے میں نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا: بتایئے۔ علی رض نے فرمایا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل ابو بکر صدیق رض ہیں۔ پھر ارشاد فرمایا: سیدنا ابو بکر رض کے بعد سیدنا عمر فاروق رض سب سے افضل ہیں۔
(جمع و ترتیب: عبدالرحمان سعیدی 30جنوبی سرگودھا)