سوال (497)

ووٹ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اور کیا یہ شہادت یا امانت ہے؟

جواب

ووٹ اصل میں جس سسٹم کا حصہ ہے، اسے جمہوری نظام کہا جاتا ہے۔ جمہوریت سے متعلق علمائے کرام کا موقف معروف ہے عموما رائے یہی ہے کہ یہ شریعت کے متوازی ایک نظام ہے، لہذا اسے پروموٹ کرنا یا اس کی حمایت کرنا درست نہیں ہے۔ یہی حکم جمہوریت کے تمام متعلقات کے بارے میں بھی ہے، جن میں سے ایک ’ووٹ‘ ہے۔
لہذا اگر کوئی شخص شہادت یعنی گواہی اور امانت جیسی شرعی اصطلاحات کو لے کر ایک غیر شرعی سسٹم یا اس کے کسی پرزے پر فٹ کرتا ہے، تو یہ درست نہیں ہو گا۔
یہ تو ایسے ہی ہے کہ انسان اسلام کی دلیل دے کر کفر ثابت کرے۔ قرآن سے دلیل لے کر گرنتھ کی طرف بلائے!
اسی وجہ سے بعض اہل علم ووٹ کو شہادت یا امانت کہنے والوں کی سختی سے تردید کرتے ہیں، کیونکہ اس میں بنیادی طور پر یہ قباحت اور کج بحثی پائی جاتی ہے!
لیکن اگر کوئی اس بات کا اقرار کرے کہ جمہوریت اور ووٹنگ ایک غیر اسلامی نظام ہے، البتہ اضطرار اور مجبوری کے سبب اس میں حصہ لینے کی گنجائش بیان کی جائے، تو ایسی صورت میں اگر ’ووٹنگ’ یعنی ’ حق رائے دہی‘ اور ’انتخاب‘ میں احتیاط اور توجہ کی بات کی جائے، جیسا کہ شریعت میں گواہی یا امانت کی ادائیگی میں کی جاتی ہے، تو اس میں کوئی حرج محسوس نہیں ہوتا۔
کیونکہ بہرصورت جو شخص کسی کو ووٹ دیتا ہے وہ اس کے بارے میں گواہی دے رہا ہوتا ہے کہ یہ شخص ملک و قوم اور معاشرے کے لیے بہتر ہے، تو ظاہر یہ گواہی اگر اہل شخص کے بارے میں دی جائے تو یہ درست گواہی ہوگی اور اگر کسی نا اہل کے بارے میں دی جائے تو یہ شہادۃ الزور کہلائے گی۔
اس معنی میں اسے امانت یا شہادت کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اس کو ایسے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر کسی کے ووٹ اور حمایت سے کوئی غلط شخص یا چور اچکا اقتدار میں آ جاتا ہے تو کیا یہ ووٹر بھی اس کا ذمہ دار ہوگا یا نہیں؟
تو جس طرح ووٹ کا برا استعمال ہے، اسی طرح اس کا اچھا استعمال بھی ہو سکتا ہے!
البتہ یہ بات پہلے واضح کی جا چکی ہے کہ اگر کوئی شخص ووٹ ڈالنا درست ہی نہیں سمجھتا، تو آپ اسے کہیں کہ آپ امانت میں خیانت کر رہے ہیں یا شہادت کی ادائیگی میں کوتاہی کر رہے ہیں، تو یہ بالکل غلط ہے۔ کیونکہ اس شخص کے نزدیک تو جمہوریت کفر ہے، تو کیا کفر میں حصہ لینا امانت و دیانت کا تقاضا ہے؟ یا کسی کفریہ نظام کو سپورٹ کرنا شریعت کا تقاضا ہے؟

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ