سوال

کیا ٹھیکے پر لی گئی زمین کی ہر فصل پر عشر واجب ہے؟ زمیندار حضرات زمین سے ایک سال میں تین فصلیں: دھان (مونجی) آلو اور مکئی لیتے ہیں، اور عشر صرف ایک فصل کا دیتے ہیں۔عذر یہ پیش کرتے ہیں کہ ٹھیکہ بہت زیادہ ہے اور اسی طرح فصل پراخراجات بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

زکوۃ بہت اہم مسئلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو رزق دیا ہے،اس میں سےزکوۃ  اہتمام کے ساتھ ادا کرنی چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ ہم اس میں کوتاہی کرتےرہیں، اور قیامت والے دن یہی مال ہمارے لیے وبالِ جان بن جائے۔ قرآن مجید میں اللہ سبحانہ وتعالی نےارشادفرمایاہے:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ[سورۃ البقرہ: 267]

’اے ایمان والو جو ہم نے تم کو پاکیزہ رزق دیا ہے۔اس سے خرچ کرو اور اس چیز سے جو ہم نے زمین سے پیدا کیا ہے‘۔

اس لئے زمین سے جتنی بھی پیداوار ہوگی اس کا  عشر دیا جائے گا۔ دوسری جگہ پر قرآن  کریم میں ہے:

“وَهُوَ الَّذِيْٓ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ وَّغَيْرَ مَعْرُوْشٰتٍ وَّالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا اُکُلُهُ وَالزَّيْتُوْنَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَّغَيْرَ مُتَشَابِهٍ کُلُوْا مِنْ ثَمَرِهِٓ اِذَآ اَثْمَرَ وَاٰتُوْا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِٓ وَلَا تُسْرِفُوْا اِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ”. [الانعام:141]

اور وہی ہے جس نے برداشتہ اور غیر برداشتہ (یعنی بیلوں کے ذریعے اوپر چڑھائے گئے اور بغیر اوپر چڑھائے گئے) باغات پیدا فرمائے اور کھجور (کے درخت) اور زراعت جس کے پھل گوناگوں ہیں اور زیتون اور انار (جو شکل میں) ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور (ذائقہ میں) جداگانہ ہیں (بھی پیدا کیے)۔ جب (یہ درخت) پھل لائیں تو تم ان کے پھل کھایا (بھی) کرو اور اس (کھیتی اور پھل) کے کٹنے کے دن اس کا (اﷲ کی طرف سے مقرر کردہ) حق (بھی) ادا کر دیا کرو اور فضول خرچی نہ کیا کرو، بے شک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

اور احادیث مبارکہ میں فصل سے عشر نکالنے کا طریقہ بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ جو زمینیں بارش یا چشمے سے سیراب ہوتی ہیں ان کی کل پیداوار سے دسواں حصہ نکالنے کا حکم ہے اور خود سیراب کی جانے والی زمینوں کی کل پیداوار سے بیسواں حصہ نکالنے کا حکم ہے۔

سیدناسالم بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہ نے اپنے والد ماجد سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

“فِيمَا سَقَتِ السَّمَاءُ وَالْعُيُونُ أَوْ کَانَ عَثَرِيًّا الْعُشْرُ وَمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ الْعُشْرِ”. [بخاری: 1412، ابو داود: 1596]

جس فصل کو آسمان یا چشمے سیراب کریں یا خود بخود سیراب ہو اس میں عُشر (دسواں حصہ) ہے اور جس کو کنوئیں سے پانی دیا جائے اس میں نصف عُشر (بیسواں) ہے۔

اب شریعت نے  جو کم ازکم نصاب مقرر کیا ہے، ہمارے اعتبار سے اس کی مقدار 16 من ہے۔

یعنی پیداوار اگر سولہ من کو پہنچ جاتی ہے، تو پھر اگر بارانی زمین ہے تو اس میں سے دسواں حصہ دیا جائے گا، اور اگر اس  پر خود محنت کرکے سیراب کرنا پڑتا ہے، تو بیسواں حصہ دیا جائے گا۔ لیکن معافی کسی صورت نہیں ہے۔ خواہ وہ چاول کی شکل میں ہو، کپاس کی شکل میں ہو، یا آلو وغیرہ کی شکل میں ہو ۔ اور یہ بھی ہر فصل کے لحاظ سے ہے، جتنی دفعہ فصل اٹھائیں گے، اس میں سے عشر ادا کرنا ضروری ہے۔ سال میں ایک دفعہ عشر دے دینا کافی نہیں ہے۔

ٹھیکے کی زمین پر جو اخراجات آتے ہیں وہ اپنی جگہ پر لیکن  شرعی احکامات پر عمل کرنا بہت ضروری ہے۔یہ بہانہ بنانا غلط ہے کہ ٹھیکے کی زمین پر اخراجات بہت زیادہ آتے ہیں ۔اگر اخراجات آتے ہیں تو نفع بھی تو کماتے ہیں۔  اللہ تعالی کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ اللہ تعالی پہلے دس حصے رزق دیتا ہے، پھر ان میں سے ایک یا آدھے کا مطالبہ کرتا ہے۔ سوچیں اگر اللہ تعالی ہمیں ایک بھی حصہ نہ دے تو پھر ہمارا کیا بنےگا؟

لہذا اس عشر اور زکاۃ کو بوجھ نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ یہ سراسر اللہ کی برکت و رحمت کا ذریعہ ہوتا ہے۔ اسے خوشی خوشی ادا کرنا چاہیے، اور حیلے بہانوں سے گریز کرنا چاہیے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ