شیخ محمد لطفی صباغ بھی چل بسے
(ولادت: 1930، وفات: 27 اکتوبر 2017ء)
ابھی دو دن پہلے کی بات ہے ، ڈاکٹر عاصم قریوتی صاحب نے ایک ٹویٹ کیا کہ ’ کئی ایک علماء کی عالمانہ شان کا احساس تبھی ہوتا ہے ، جب وہ وفات پا جاتے ہیں ‘ میرے ذہن میں فورا شیخ صالح سدلان کی وفات کی خبر گردش کرنا شروع ہوگئی ، ہم نے ان کے متعلق تبھی گوگل کو حرکت دی ، جب ان کی وفات کی خبر سامنے آئی ، لیکن یہ احساس نہ ہوا کہ ابھی پتہ نہیں کتنے ہی ایسے ہیرے جواہرات ہوں گے ، جن کے متعلق جاننے کا شوق ہمیں تبھی پیدا ہوگا ، جب وہ سپرد خاک کردیے جائیں گے ، وہی ہوا ، اس بات کو شاید ابھی چوبیس گھنٹے نہ گزرے ہوں گے کہ ڈاکٹر محمد لطفی صباغ کی وفات کی خبر گردش کرنے لگی ، اور یاد آیا کہ ہاں علم وفن کا ایک ستارہ اس نام سے بھی جگمگاتا رہا ہے ، تقریبا تین سال پہلے جب ہم نے کلیۃ الحدیث کے آخری سال میں ’ الوضع و الوضاعون ‘ کا سبق پڑھا ، تو اس سلسلے میں جنہوں نے کتابیں تحقیق و تألیف فرمائیں ، ان میں مرحوم ڈاکٹر صاحب کا نام نامی بھی آیا ، کیونکہ ابن الجوزی ، ابن تیمیہ ، سیوطی وغیرہ بزرگوں کی ’ واعظین و داستان گوؤں ‘ سے متعلق لکھی ہوئی کتب کی تحقیق موصوف نے ہی فرمائی تھی ، بلکہ آپ نے خود بھی ’ داستان گوؤں کی تاریخ ، اور حدیث نبوی پر ان کے اثرات ‘ کے عنوان سے ایک رسالہ تالیف فرمایا ۔
موصوف کی وفات کی خبر بعض عربی اخبارات میں اس سرخی کےساتھ چھپی : ’ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بلاغی پہلووں پر سب سے پہلے پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر محمد لطفی صباغ وفات پاگئے ‘ آپ کا یہ رسالہ ” التصوير الفني في الحديث النبوي ” کے عنوان سے مطبوع ہے ۔
ڈاکٹر ابو لطفی محمد لطفی صباغ 1930 کو دمشق میں پیدا ہوئے ، قرآن و حدیث اور متعلقہ علوم و فنون کی تعلیم وہیں سے حاصل کی ، آپ کے اساتذہ میں شام کے معروف قاری بلکہ شیخ القراء شیخ کُریِّم راجح ، شیخ حسن حبنکہ ، اور شیخ عبد الوہاب التونسی کے علاوہ شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ وغیرہم کا ذکر ملتا ہے ۔ آپ تقریبا چار دہائیوں سے علوم قرآن و حدیث کی تعلیم و تدریس سے منسلک تھے ، دمشق سے ہجرت کرکے ریاض سعودی عرب تشریف لے آئے اور جامعۃ ملک سعود کے کلیۃ التربیہ میں استاذ کے فرائض سرانجام دے رہے تھے ، علوم عالیہ و آلیہ میں بھرپور مہارت رکھتے تھے ، کہ آپ کی تصنیفات و تالیفات اس پر بہترین شاہد ہیں۔
معروف ادیب و نثر نگار علامہ طنطاوی کی شخصیت سے کون واقف نہیں ، گرچہ وہ آپ کے استاذ تھے ، لیکن آپ کے متعلق ان کی رائے پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ، فرماتے ہیں : ’ محمد لطفی ان تین شہ سواروں میں سے ایک ہیں ، جو کل کمسن تلامذہ تھے ، جبکہ آج میں ہی نہیں بلکہ لوگ انہیں کبار اساتذہ میں شمار کرتے ہیں ۔ عصام عطار ، زہیر شاویش ، لطفی صباغ ، تین نام ذکر کرنے کے بعد موصوف کے متعلق فرماتے ہیں : ’ استاذ صباغ کی فضیلت ان کے لسان و قلم سے جھلکتی ہے ، ان کے معارف و تلامذہ ان کے علم کے گواہ ہیں ، اس شخص میں کثرتِ اطلاع ، حسنِ تقریر ، زبان و بیان پر گرفت جیسی خوبیاں مجتمع دکھائی دیتی ہیں ، یہ میڈیا میں بہترین مقرر ، یونیورسٹی میں کامیاب استاد ، مسجد میں نمایاں مقام اور اسلامی ندوات میں بہترین رائے اور پہچان رکھنے والے ہیں ، مستقل مزاجی سے دعوت الی اللہ میں مصروف ہیں ، نوجوانوں کو علمی مسائل سمجھانے کا فن خوب رکھتے ہیں ، عصام اور زہیر کی طرح یہ بھی سلیم العقیدہ اور سلفی المشرب ہیں ، اللہ تعالی انہیں توفیق و تقویت سے نوازے ، اور ایسے رجال کار میں اضافہ فرمائے ۔‘
شیخ لطفی کی تصنیف و تحقیق کردہ کتابوں کی تعداد تقریبا چالیس کے قریب ہے ، جن میں ’ انسان قرآن کریم کی روشنی میں ‘ ، ’ ابتعاث كے خطرات ‘ ، ’ امام ابوداود اور ان کی کتاب السنن ‘ ، ’ طبیب کے اخلاق ‘ ، ’ ختنے کا شرعی حکم ‘، ’ اجنبی سے خلوت کی حرمت ‘ ، ’ ایہا المسلمون ( داعیان دین کو نصیحت ) ، ’ سعید بن عاص ، بطلِ معرکہ ، کاتبِ مصحف ‘ ، ’ حدیث نبوی ، مصطلحات ، بلاغت ، کتابیں ‘ اور ’ قرآنی توجیہات اور امت کی تربیت ‘ جیسی علمی ، تحقیقی ، فکری اور تربیتی کتابیں شامل ہیں ۔
ریڈیو ، ٹیلویژن ، عالمی کانفرنسوں اور علمی ندوات میں شرکت ، اسی طرح سعودی دار الافتاء کی جانب سے حجاج و معتمرین کے لیے رہنمائی کی ذمہ داری کی شکل میں آپ نے جو کاوشیں سر انجام دیں ، وہ اس سے علاوہ ہیں ۔
شیخ کی قدر و منزلت کا اس بات سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ’ ملک فیصل ایوارڈ ‘ وغیرہ میں آپ نگران اور تحکیم کمیٹی میں شامل تھے ۔
علم و فضل سے بھرپور زندگی گزار کر آپ بروز جمعہ 27 اکتوبر بوقت فجر خالق حقیقی سے جا ملے ۔
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ان کی بشری لغزشوں سے در گزر کرتے ہوئے ، ان کی مخلصانہ کوشش و کاوشوں کو شرف قبولیت سے نوازے ، اعلی علیین میں جگہ عطا فرمائے ، اور ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم اہل علم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، اپنے لیے ذخیرہ آخرت بنا سکیں۔