آج کل کیلوری یا کیلوریز کا لفظ سننے کو عام ہے۔ خصوصاََ وہ افراد جو صحت اور غذا کے متعلق تجسس اور دلچسپی  رکھتے ہیں یا اس بارے میں متفکر ہیں انہیں یہ لفط اچھی طرح یاد ہے اور اس کا مطلب اور مفہوم بھی سمجھتے ہیں۔

کیلوری کیا ہے

 کیلوری دراصل توانائی کی ایک اکائی ہے، جو اکثر کھانے کی اشیا کے غذائی پیمانے کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ یہ اصطلاح لاطینی لفظ ‘کیلر’ سے آئی ہے، جس کا مطلب گرمی ہے اور یہ ایک صدی سے زیادہ عرصے سے مستعمل ہے۔

توانائی کا باعث

ہم جو بھی چیز کھاتے ہیں اس میں موجود  کیلریز ہمارے جسم کو توانائی فراہم کرتی ہے۔ غذا سے نکلنے والی حرارت  یا توانائی جسم کی ضرورت کے مطابق جزو بدن بنتی ہے اور اضافی کیلوریز فیٹ یا موٹاپے کی صورت جسم میں جمع  ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ جسم کے اندر موجود کیلوریز اس وقت زیادہ صرف ہوتی ہے جب زیاد مشقت والا کام کیاجاتا ہے۔اور اگر جسم مشقت والا کام نہ کرے یا سھل پسندی کو اپنی عادت پنا لیا جائے تو کیلوریز کم خرچ ہوتی ہے باقی جسم کے اندر سٹور ہوتی رہتی ہے۔ 

کیلوریز کی غذائی تقسیم

کیلوریز کس غذا میں کتنی ہے اس کو بھی ماپا اور تولا گیا ہے۔مختلف کھانوں کی کیلوریز کا شمار مختلف ہوتا ہے کیونکہ آپ کے جسم کو جن تین مرکزی غذائی اجزاء کی ضرورت ہوتی ہے- وہ کاربوہائیڈریٹس، پروٹین اور چکنائی ہیں۔ ان تینوں میں کیلوریز کی ایک جیسی مقدار نہیں ہوتی ہے۔
عموما میٹھے اور گھی والی چیزون میں کیلوریز زیادہ ہوتی ہیں۔اسی طرح فاسٹ فوڈز اور جنک فوڈز میں بھی کیلوریز بہت زیادہ مقدار میں پائی جاتی ہے۔ اسی لیے ان غذاؤں کا کثرت سے استعمال موٹاپے کی وجہ بنتا ہے۔ اسی لیے بڑھے ہوئے وزن کو کم کرنے کے لیے کیلوریز کا حساب کتاب رکھنا بہت اہم ہوتا ہے۔

ہمیں کتنی کیلوریز کی ضرورت

ایک عام جوان انسان کو یومیہ کتنی کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے اس بارے میں لیگ آف نیشنز نے غذائیت سے متعلق اپنی سٹڈیز پیش کی ہے۔ اس نے1935ء میں عالمی سطح پر ایک معیاری درجہ بندی قائم کی جس کی رو سے ایک بالغ شخص کے لیے روزانہ 2500 کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے۔  اسی طرح ایک جوان عورت کو ایک دن میں 2100 کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے۔

ماہرین کے مطابق ہر انسان کی کیلوری ضرورت الگ الگ ہوتی ہے، جو لوگ محنت مزدوری یا جسمانی مشقت زیادہ کرتے ہیں اُنہیں زیادہ کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے بنسبت اُن لوگوں کے جو دفاتر میں بیٹھ کر کام کرتے ہیں یا فارغ رہتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق ہر غذا میں کیلوریز یا حراروں کی تعداد بھی مختلف ہوتی ہے، مثلاً گھی تیل اور چکنائی میں سب غذاؤں سے زیادہ حرارے ہوتے ہیں، اگر جسم کو ضرورت کے مطابق حرارے میسر نہ آئیں تو وہ جسمانی پٹھوں ( Tissues) سے حرارت حاصل کرنا شروع کر دیتا ہے جس سے بافتوں پر برا اثر پڑنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔

خواتین کو کم کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے، اگر وہ محنت و مشقت والا کام نہیں کرتیں  تو 2100 اور اگر زیادہ کام کرتی ہے تو 3000 کیلوریز لینا ہوں گی۔ تین سال کے  بچے کو 1200 کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے۔

اسی طرح جسم کو کیلوریز کے ساتھ پروٹین کی ضرورت بھی ہوتی ہے جو کہ دودھ ، انڈے گوشت اور مچھلی وغیرہ سے ملتی ہے۔ دیگر غذائیں مثلاً گیہوں، مٹر، لوبیا، ماش، مونگ، مسور وغیرہ بھی پروٹین سے بھرپور ہوتی ہیں۔

موٹاپہ کم کرنے میں  کیلوریز کا کردار

جو افراد موٹاپے کا شکار ہیں اور وہ اپنا وزن کم کرنا چاہیتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ کم کیلوریز لیں، مثلا ایک متحرک شخص کو اگر یومیہ  3000 ہزار کیلوریز درکار ہیں تو وہ 1800 یا 2000 کیلوریز لے۔

اگر موٹاپے کو ختم کرنا ہے تو اس بنیادی سے اصول پر چلنا ہوگا۔ ایک طرف  کم کیلوریز والی غذا لی جائے۔ دوسری طرف  محنت، مشقت اور بھاگ دوڑ اور مشقت سے زیادہ کیلوریز کو جلایا جائے یا صرف کیا جائے۔ جب ایسا ہوگا تو جسم اپنی مطلوبہ کیلوریز خوراک سے لے گا اور اضافی کیلوریز جو اس مشینری کو جلانے کے لیے مطلوب ہوگی جسم میں موجود چربی سے حاصل کرے گا۔ اس طرح جسم میں موجود اضافی چربی جسم کا ایندھن بن جائے گی۔ موٹاپے کا خاتمہ ہوگا۔