دین چار امور پر مشتمل ہے
1) عقیدہ: جو باقی تین کی بنیاد ہے
2) عبادت: جو بندے کو اللہ کے ساتھ جوڑ دیتی ہے
3) معاملات: جو بندے کو بندے کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں
4) اخلاقیات: جو بندہ کے اللہ اور اس کی مخلوق کے ساتھ جڑنے کے آداب کا نام ہے۔
عقیدہ
جس کا جیسا ہے غلط صحیح سے قطع نظر ، کوئی عقیدہ انسان کو بدتہذیبی ظلم جھوٹ فراڈ دھوکہ مال جمع کرنا نہیں سکھاتا ہندو ازم ہو یا عیسائیت یا یہودیت یا سکھ مت یا کوئی بھی عقیدہ ہو۔
عبادت
ہم سب کا زور عبادات پر ہے کہ اللہ کو راضی کر لیں خواہ اس کی مخلوق کی ایسی تیسی پھیر دیں بس عبادات سیٹ ہونی چاہیے نماز پہلی صف میں داڑھی مکمل حاجی صاحب یا الحاج صاحب ، پنج وقتہ نماز ۔۔۔۔ صرف اللہ کو راضی کرنا بالکل ٹھیک ہے لیکن کیا اللہ کو راضی کرتے ہوئے مخلوق کو ناراض کرنا دھوکہ دینا فراڈ کرنا جھوٹ بولنا جائز ہو جاتا ہے ؟
معاملات
میں ہم بہت زیادہ متساھل بلکہ مجرمانہ رویوں کے حامل ہیں۔ مسلمان ملک میں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں اکثریت دوسرے مسلمانوں کو چونا لگانے میں مصروف ہے بس دنیا جمع کر لی جائے۔ رمضان عید تہوار پر کاروباری طبقہ کی جانب سے وہ سپیشل لوٹ مار کا سیزن شروع کیا جاتا ہے کہ شیطان بھی شرمسار ہوتا ہو گا کہ یہاں میری ضرورت نہیں۔ ہر چیز کی قیمت دگنی سہ گنی چار گنی نہیں جناب یہ آپ کی خوش فہمی ہے دس گنا بیس گنا تک قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں ابھی عید الاضحی آنے کو ہے دیکھ لیجیے گا اہم اور مطلوبہ اشیاء کی قیمتیں آپ دیکھیے گا آسمان تک نہ پہنچیں تو بات کیجیے گا دھنیا پودینہ جیسی مسکین چیز جو سبزی فروش کو سبزیوں کے ساتھ مفت دینی چاہیے وہ سو سو روپے کے چند پتے دے رہے ہوتے ہیں۔ ٹماٹر چار سو روپے کلو، پیاز تین سو روپے کلو۔
پھر ہم اللہ سے امن و سلامتی کے طلبگار بھی ہیں، رزق کی فراوانی بھی مانگتے ہیں سب کچھ مانگنا چاہتے ہیں مانگتے ہیں لیکن خود کسی کو یہ نہیں دینا چاہتے۔
میں پچھلے پندرہ سال سے اے سی ٹیکنیشن تلاش کر رہا ہوں جو آتا ہے پہلی مرتبہ انسانوں والا کام پھر اس کا چونا لگانے والا سیشن سٹارٹ ہو جاتا ہے۔
مجھے خود امن چاہیے لیکن میں اللہ کی مخلوق کو اپنے ہاتھ اور زبان سے امن و سلامتی نہیں دینا چاہتا۔ بس اتنی سی کہانی ہے میری۔
میرے ایک دوست ہیں جو پرنٹنگ کی فیلڈ سے وابستہ ہیں وہ ایمانداری کی حد تک بے وقوف اور احمق ہے کوئی کام خراب ہو جائے تو گاھک کو خود بتا دیتا ہے کہ یہ غلطی ہو گئی کئی مرتبہ نقصان بھی ہوا اپنی جیب سے بھر کر جاب پوری کی لیکن پھر اللہ نے دوسری جگہوں سے اتنا کچھ عطا کیا کہ وہ خود حیران ہوتا ہے کہ ایسا کیوں۔
یقین کریں میرے پاس معاملات کے حوالے سے حیران کن حد تک ایمان دارانہ مثالیں موجود ہیں جنہوں نے عقیدہ کو معاملات میں شامل کیا تو اللہ نے انہیں دنیا میں ہی وہ کچھ عطا کیا ناقابل یقین ۔۔۔۔۔۔۔
ٹریفک سگنلز کی کھلم۔کھلا خلاف ورزی، راستے کے حقوق کی تو ویسے ہم نے تباہی مچا رکھی ہے۔ جس دین کی بنیاد طہارت پر ہے اس دین کے ماننے والوں نے دیواروں پر دیواریں اپنے مذہبی سیاسی اشتہارات سے گندی کر رکھی ہیں، کچرے کے ڈھیر،
کس کس بات پر بات کی جائے۔
اخلاقیات
رہی بات اخلاقیات کی تو اس کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں اس کی ضرورت صرف دوسروں کو بھاشن دینے کی حد تک ہے بس باقی کھلی چھٹی ہے۔ کیا سیاست کیا تجارت ہر جگہ ہم منافقانہ رویوں کے حامل ہیں۔ معاشرتی رویوں کی بات کروں تو اگر بیگم کی حکمرانی ہے تو بیگم کے بہن بھائی والدین شوہر کے لیے اپنے بہن بھائی اور والدین سے زیادہ اہم ہیں اگر شوہر کی چلتی ہے تو بیگم کے بہن بھائی اور والدین کی کوئی حیثیت نہیں۔ پڑوسیوں کے حقوق تو بالکل نہیں ہیں۔ بہنوں بیٹیوں کا جو حشر ہم کرتے ہیں الحفیظ والامان ۔ سب ایسے نہیں لیکن اکثریت اسی رویے کی حامل ہے جو میں اوپر لکھ رہا ہوں۔
کسی نے صرف عقیدے کو پکڑ رکھا ہے
کسی نے سارا زور عبادات پر لگا دیا ہے
کسی کے معاملات ہیرے سونے جیسے ہیں
اخلاقیات پر افراط و تفریط کا شکار ہیں
کیا یہ آیت ہمیں ڈراتی نہیں ہے
اے ایمان والو !
سلامتی میں پورے پورے داخل ہو جاو
شاہ فیض الابرار صدیقی