سید الاستغفار اور چند نکات

آج الحمدللہ فضیلۃ الشیخ علامہ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ نے جامع مسجد رحمٰن اسراء ولیج میں “سید الاستغفار” کی فضیلت میں درس دیا ہے۔ چند نکات مندرجہ ذیل ہیں۔

“اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي، ‏‏‏‏‏‏لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، ‏‏‏‏‏‏خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، ‏‏‏‏‏‏أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، ‏‏‏‏‏‏أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْت”

(1) : “انت ربی” اللہ تعالیٰ کے لیے واحد کا صیغہ استعمال کرنا ادب ہے۔ تمام احادیث میں واحد کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ خود جمع کا صیغہ استعمال کرتا ہے تو اس میں اللہ تعالی کی شان ہے، وہاں جمع تعدد کے لیے نہیں ہے، بلکہ تکریم کے لیے ہے۔

(2) : “انت ربی” جملہ اسمیہ ہے، جملہ اسمیہ کے دو جز مبتدا و خبر ہوتے ہیں، مبتدا معرفہ اور خبر نکرہ ہوتی ہے، یہاں دونوں معرفہ ہے، یہاں ترجمہ حصر کا ہوگا، تو ہی میرا رب ہے، اور کوئی رب نہیں ہے۔ رب خالق ہوتا ہے وہ مالک ہوتا ہے اس کا ہی تصرف ہوتا ہے، خالق ہی معبود ہوتا ہے، اللہ کے علاؤہ کوئی اور خالق ہے تو دنیا میں دیکھائیں۔ “انت ربی” میں اس عقیدہ کی وضاحت ہے، اگر آپ نے کسی اور کو پکارا ہے، تو اللہ تعالیٰ کو رب مانا ہی نہیں ہے۔

(3) : لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ: یہ انت ربی کی تفصیل ہے، اس میں بھی حصر ہے کہ تیرے علاؤہ کوئی معبود نہیں ہے۔ یہ استغفار اور قبولیت دعا کے لیے بنیاد ہے۔

(4) : خَلَقْتَنِي: یہ اقرار ہے کہ تونے مجھے پیدا کیا ہے یہ اقرار بڑا ہے، جس کی ایک مثال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خالق ہونے کا وسیلہ چیونٹی نے دیا تھا تو فورا دعا قبول ہوگئی تھی۔

(5) : وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ: میں آپ کے احکام پر قائم ہوں جس قدر طاقت ہے، یہ اقرار ہے، تیرے عہد کی مخالفت نہ کروں گا جتنی مجھے طاقت ہے۔ جو فرائض سے ہٹ کر کمی کوتاہی ہے، اس کی شریعت میں اجازت ہے۔

(6) : أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِي: یہ توحید کا بہت بڑا باب ہے، یہ حق شکر ہے، شکر کی صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اقرار کرنا۔ عقیدہ یہ ہے کہ تمام نعمتیں اللہ تعالیٰ کی ہیں۔
شکر کے درجات۔
(1) : زبان سے اقرار: الحمد للّٰہ
(2) : دل میں بھی اقرار ہو۔
(3) : اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنا۔
گناہ کا بھی اقرار کرتا ہوں، تیری طرف سے نعمتیں ہیں اور میرے طرف سے گناہ ہیں۔

(7) : فَاغْفِرْ لِي فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْت: اے اللہ اگر تیری اتنی نعمتیں ہیں تو ایک اور نعمت دے دے معاف کردے، اور یہ عقیدہ ہے کہ تیرے علاوہ کوئی گناہوں کو معاف نہیں کرتا ہے۔

تحریر: افضل ظہیر جمالی

یہ کس قدر بد نصیب لوگ ہیں

وہ لوگ کس قدر بد بخت ٹھرے ہیں، ان لوگوں نے کتنے لوگوں کے گناہوں کو اپنے سر پر اٹھایا ہے، جنہوں نے اپنی تحریر و تقریر اور تالیف و تصنیف کے ذریعے امت کے درمیان اصحاب محمد کے بغض کو فروغ دیا ہے، جنہوں نے اصحاب محمد کو امت کے درمیان مجروح و مطعون ٹھرانے کے لیے رات دن کی کوششیں کی ہیں، اصحاب محمد کے درمیان تفریق کرکے امت کو منتشر کیا ہے، اصحاب محمد کے دامن کو ظلم و جبر سے داغ دار کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ امت کا اعتماد ان سے اٹھ جائے، جو ان کے ناپاک دلوں کے اندر غلیظ افکار و خیالات تھے، ان کو لکھ کر امت کے درمیان پھیلا کر اپنے ناپاک عزائم کو تکمیل دینے کی کوشش کی ہے، آج بھی سوشل میڈیا پر جو لوگ اصحاب محمد کے خلاف بولتے ہیں، وہ بھی ان کے نوالوں کی جگالی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی تمام کوششوں کو اور ان کی جماعت کو غارت کردے، جو اصحاب محمد کے خلاف امت کو ابھار کر ان کو مطعون ٹھرانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔

سوشل میڈیا میں کئی فالوورز کے بھوکے اور تشہیر کے بھوکے جن کو کوئی اور کام ہاتھ نہیں آیا تو انھوں نے اصحاب محمد کے خلاف بول کر تشہیر حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔

یاد رکھیں لوگ چلے جاتے ہیں، مٹی کے کئی ڈھیروں کے نیچے آجاتے ہیں، ہڈیاں بن کر گل سڑ جاتے ہیں، لیکن ان کے ناپاک عزائم اور ارادے جن کو انہوں نے تصنیف و تقریر کا رنگ دیا تھا وہ باقی رہتے ہیں، جن کے عوض تاقیامت گناہوں کا ایک بھاری سلسلہ اٹھاتے ہیں، ان کے نامے اعمال سیاہ ہوتے جاتے ہیں۔

اس لیے خدارا لکھتے ہوئے، بولتے ہوئے یہ لحاظ رکھنا چاہیے کہ میں کیا لکھ رہا ہوں، کیا بول رہا ہوں، میری تحریر و تقریر کے ذریعے امت کو کیا پیغام جا رہا ہے، کیا میں امت کے انتشار کا سبب بن رہا ہوں یا اتحاد کا سبب بن رہا ہوں، میں کتنے لوگوں کی گمراہی کا سبب بنا ہوں یا میں کتنے لوگوں کی ہدایت کا سبب بنا ہوں، میں نے کتنے گناہ اپنے سر پر لیے ہوئے ہیں یا کتنا ثواب کما چکا ہوں۔ ہر شخص کو یہی سوچنا چاہیے۔
فاعتبروا یا اولی الابصار!

(افضل ظہیر جمالی)

یہ بھی پڑھیں: سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور خلفائے ثلاثہ