سوال (3648)
جمعہ سے پہلے چار رکعت نماز پڑھنا صحیح سند کے ساتھ نبی علیہ السلام اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے قولاً و فعلاً ثابت ہے اور یہی جمہور کا مسلک ہے، اس کو بدعت کہنا غلط ہے، ذیل میں چند احادیث و آثار پیش کئے جاتے ہیں۔
(۱) ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور علیہ السلام جمعہ سے پہلے چار رکعت نماز پڑھتے تھے۔
عن ابن عباس کان النبي صلی الله عليه وسلم یرکع قبل الجمعه أربعاً لایفصل فی شيء منهن،
(ابن ماجہ، رقم: ۱۱۲۹) حافظ ابوزرعہ عراقی نے فرمایا اس حدیث کے متن (کان النبي یرکع الخ ) کو ابو الحسن خلعی نے اپنی کتاب فوائد میں جید اور عمدہ سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔ والمتن المذکور رواہ أبوالحسن الخلعی فی فوائدہ باسناد جید، (طرح التثریب: ۳/۴۱، ط:المصریة القدیمة) نیز حافظ زین الدین عراقی نے بھی اس کی سند کو جید قرار دیا (فیض القدیر شرح جامع الصغیر (۵/۲۱۶، ط: التجاریة)
(۲) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ:
کان رسول الله صلی الله عليه وسلم یصلی قبل الجمعة أربعاً وبعدها أربعاً یجعل التسلیم فی آخرهن رکعة، (معجم اوسط: ۲/۱۷۲، ط: قاہرة۔ معجم ابن الاعرابی (۲/۴۴۸)
حضور علیہ السلام جمعہ سے پہلے چار رکعت اور جمعہ کے بعد چار رکعت ایک سلام سے پڑھتے تھے، ان احادیث کے علاوہ ایک حدیث حضرت ابوہریرہ سے شرح مشکل الاثار (۱۰/۲۹۸، ط: الرسالہ) اور ایک حدیث معجم اوسط (۴/۱۹۶) میں ابن مسعود سے مروی ہے۔
(۳) اتباع سنت میں مشہور صحابی حضرت عبداللہ بن عمر جمعہ سے پہلے چار رکعت پڑھتے تھے۔
عن عبد الله بن عمر أنه کان یصلی قبل الجمعه أربعاً لایفصل بینهن بسلام ثم بعد الجمعه رکعتین ثم أربعاً،
(طحاوی شریف: ۱/۳۳۵، ط: عالم الکتب)۔
(۴) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم اور صحابہ میں بلند پایہ کے فقیہ حضرت عبداللہ بن مسعود بھی جمعہ سے پہلے چار رکعت پڑھتے تھے (طحاوی: ۱/۳۳۵) اور لوگوں کو جمعہ سے پہلے چار رکعت پڑھنے کا حکم فرماتے تھے۔
عن أبي عبد الرحمن السلمی قال کان ابن مسعود یأمرنا أن نصلي قبل الجمعه أربعاً حتی جاء نا علی فأمرنا أن نصلی بعدها رکعتین ثم أربعاً، (مصنف عبد الرزاق: ۳/۲۴۷، ط: اسلامی) اس حدیث کی سند صحیح ہے (وروایة لابن حجر: ۱/۲۱۷، ط: المعرفة)۔
(۵) مشہور تابعی حضرت عمرو بن سعید بن العاص فرماتے ہیں کہ صحابہ جمعہ سے پہلے چار رکعت پڑھتے تھے۔
کنت أری أصحاب رسول الله صلی الله عليه وسلم فإذا ازالت الشمس یوم الجمعة قاموا فصلوا أربعاً، (التمہید لما فی الموٴطا من المعانی والاسانید: ۴/۲۶)۔
(۶) حافظ ابن رجب فرماتے ہیں کہ جمعہ سے پہلے چار رکعت پڑھنا جمہور کا مسلک ہے۔
وقد اختلف فی الصلاة قبل الجمعه هل هي من السنن الرواتب․․․ ام هي مستحبة مرغب فيها کالصلاة قبل العصر وأکثر العلماء علی أنها سنة راتبة․․․ (فتح الباری شرح البخاری لابن رجب: ۸/۳۳۳، ط: مدینة منورہ)
نیز غیر مقلدین علماء کے نزدیک بھی جمعہ سے پہلے چار رکعت بطور نفل پڑھنا جائز ہے۔ چنانچہ غیر مقلدین عالم شمس الحق عظیم آبادی لکھتے ہیں کہ:
والحاصل أن الصلاة قبل الجمعة مرغب فيها عموماً وخصوصاً، (عون المعبود: ۳/۳۳۵، ط: العلمیة)
آپ حق پر قائم رہیں اور ذیل کی کتابوں کا مطالعہ کریں:
جواب درکار ہے۔
جواب
جمعہ سے پہلے چار رکعات نماز پڑھنے کو سنت کہنے والوں کے دلائل کا علمی جائزہ اور اس بارے میں راجح مسئلہ کی توضیح:
جمعہ سے پہلے چار رکعت نماز پڑھنا صحیح سند کے ساتھ نبی علیہ السلام اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے قولاً و فعلاً ثابت ہے اور یہی جمہور کا مسلک ہے، اس کو بدعت کہنا غلط ہے، ذیل میں چند احادیث و آثار پیش کئے جاتے ہیں۔
(۱) ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور علیہ السلام جمعہ سے پہلے چار رکعت نماز پڑھتے تھے۔
عن ابن عباس کان النبي صلی الله عليه وسلم یرکع قبل الجمعه أربعاً لایفصل فی شيء منهن، (ابن ماجہ، رقم: ۱۱۲۹)
حافظ ابوزرعہ عراقی نے فرمایا اس حدیث کے متن (کان النبي یرکع الخ ) کو ابو الحسن خلعی نے اپنی کتاب فوائد میں جید اور عمدہ سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔
والمتن المذکور رواہ أبوالحسن الخلعی فی فوائدہ باسناد جید، (طرح التثریب: ۳/۴۱، ط: المصریة القدیمة)
نیز حافظ زین الدین عراقی نے بھی اس کی سند کو جید قرار دیا (فیض القدیر شرح جامع الصغیر (۵/۲۱۶، ط: التجاریة)۔
(۲) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
کان رسول الله صلی الله عليه وسلم یصلی قبل الجمعة أربعاً وبعدها أربعاً یجعل التسلیم فی آخرهن رکعة، (معجم اوسط: ۲/۱۷۲، ط: قاہرة۔ معجم ابن الاعرابی (۲/۴۴۸)
حضور علیہ السلام جمعہ سے پہلے چار رکعت اور جمعہ کے بعد چار رکعت ایک سلام سے پڑھتے تھے، ان احادیث کے علاوہ ایک حدیث حضرت ابوہریرہ سے شرح مشکل الاثار (۱۰/۲۹۸، ط: الرسالہ) اور ایک حدیث معجم اوسط (۴/۱۹۶) میں ابن مسعود سے مروی ہے۔
(۳) اتباع سنت میں مشہور صحابی حضرت عبداللہ بن عمر جمعہ سے پہلے چار رکعت پڑھتے تھے.
عن عبد الله بن عمر أنه کان یصلی قبل الجمعه أربعاً لایفصل بینهن بسلام ثم بعد الجمعه رکعتین ثم أربعاً (طحاوی شریف: ۱/۳۳۵، ط: عالم الکتب)۔
(۴) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم اور صحابہ میں بلند پایہ کے فقیہ حضرت عبداللہ بن مسعود بھی جمعہ سے پہلے چار رکعت پڑھتے تھے (طحاوی: ۱/۳۳۵) اور لوگوں کو جمعہ سے پہلے چار رکعت پڑھنے کا حکم فرماتے تھے۔
عن أبي عبد الرحمن السلمی قال کان ابن مسعود یأمرنا أن نصلي قبل الجمعه أربعاً حتی جاء نا علی فأمرنا أن نصلی بعدها رکعتین ثم أربعاً، (مصنف عبد الرزاق: ۳/۲۴۷، ط: اسلامی)
اس حدیث کی سند صحیح ہے (وروایة لابن حجر: ۱/۲۱۷، ط: المعرفة)۔
(۵) مشہور تابعی حضرت عمرو بن سعید بن العاص فرماتے ہیں کہ صحابہ جمعہ سے پہلے چار رکعت پڑھتے تھے۔
کنت أری أصحاب رسول الله صلی الله عليه وسلم فإذا ازالت الشمس یوم الجمعة قاموا فصلوا أربعاً، (التمہید لما فی الموٴطا من المعانی والاسانید: ۴/۲۶)۔
(۶) حافظ ابن رجب فرماتے ہیں کہ جمعہ سے پہلے چار رکعت پڑھنا جمہور کا مسلک ہے۔
وقد اختلف فی الصلاة قبل الجمعه هل هي من السنن الرواتب ․․․ ام هي مستحبة مرغب فيها کالصلاة قبل العصر وأکثر العلماء علی أنها سنة راتبة ․․․․ (فتح الباری شرح البخاری لابن رجب: ۸/۳۳۳، ط: مدینة منورہ)
نیز غیر مقلدین علماء کے نزدیک بھی جمعہ سے پہلے چار رکعت بطور نفل پڑھنا جائز ہے۔ چنانچہ غیر مقلدین عالم شمس الحق عظیم آبادی لکھتے ہیں کہ:
والحاصل أن الصلاة قبل الجمعة مرغب فيها عموماً وخصوصاً، (عون المعبود: ۳/۳۳۵، ط: العلمیة)
آپ حق پر قائم رہیں اور ذیل کی کتابوں کا مطالعہ کریں:
صاحب تحریر نے صاف جھوٹ وفریب سے کام لیا ہے اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم پر افترا باندھا ہے۔
ان صاحب کے دلائل کا جائزہ ملاحظہ کریں:
(1) ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻳﺰﻳﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺭﺑﻪ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺑﻘﻴﺔ، ﻋﻦ ﻣﺒﺸﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﻴﺪ، ﻋﻦ ﺣﺠﺎﺝ ﺑﻦ ﺃﺭﻃﺎﺓ، ﻋﻦ ﻋﻄﻴﺔ اﻟﻌﻮﻓﻲ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ، ﻗﺎﻝ: ﻛﺎﻥ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﻳﺮﻛﻊ ﻗﺒﻞ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﺃﺭﺑﻌﺎ، ﻻ ﻳﻔﺼﻞ ﻓﻲ ﺷﻲء ﻣﻨﻬﻦ، سنن ابن ماجه: (1129)، المعجم الكبير للطبراني :(12674) سنده ضعيف جدا
ائمہ محدثین کے نزدیک کے نزدیک یہ روایت سخت ضعیف ہے ملاحظہ کریں:
علامہ زیلعی حنفی لکھتے ہیں:
ﻭﺳﻨﺪﻩ ﻭاﻩ ﺟﺪا، ﻓﻤﺒﺸﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﻴﺪ ﻣﻌﺪﻭﺩ ﻓﻲ اﻟﻮﺿﺎﻋﻴﻦ، ﻭﺣﺠﺎﺝ. ﻭﻋﻄﻴﺔ ﺿﻌﻴﻔﺎﻥ،
نصب الراية: 2/ 206
حافظ بوصیری کہتے ہیں:
ﻫﺬا ﺇﺳﻨﺎﺩ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺑﺎﻟﻀﻌﻔﺎء ﻋﻄﻴﺔ ﻣﺘﻔﻖ ﻋﻠﻰ ﺗﻀﻌﻴﻔﻪ ﻭﺣﺠﺎﺝ ﻣﺪﻟﺲ ﻭﻣﺒﺸﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﻴﺪ ﻛﺬاﺏ ﻭﺑﻘﻴﺔ ﻫﻮ اﺑﻦ اﻟﻮﻟﻴﺪ ﻳﺪﻟﺲ ﺑﺘﺪﻟﻴﺲ اﻟﺘﺴﻮﻳﺔ ﻟﻜﻦ ﺭﻭﻯ ﺃﺑﻮ ﺩاﻭﺩ ﻓﻲ ﺳﻨﻨﻪ ﻭاﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ ﻓﻲ ﺻﺤﻴﺤﻪ ﻣﻦ ﻃﺮﻳﻖ ﻧﺎﻓﻊ ﻗﺎﻝ ﻛﺎﻥ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﻳﻄﻴﻞ اﻟﺼﻼﺓ ﻗﺒﻞ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﻭﻳﺼﻠﻲ ﺑﻌﺪﻫﺎ ﺭﻛﻌﺘﻴﻦ ﻓﻲ ﺑﻴﺘﻪ ﻭﻳﺤﺪﺙ ﺃﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻛﺎﻥ ﻳﻔﻌﻞ ﺫﻟﻚ، (مصباح الزجاجة في زوائد ابن ماجة:1/ 136 )
حافظ نووی کہتے ہیں:
ﺭﻭاﻩ اﺑﻦ ﻣﺎﺟﺔ ﺑﺈﺳﻨﺎﺩ ﺿﻌﻴﻒ ﺟﺪا، (خلاصة الأحكام: 1851)
اور کہا:
ﺭﻭاﻩ اﺑﻦ ﻣﺎﺟﻪ. ﻭﻫﻮ ﺣﺪﻳﺚ ﺑﺎﻃﻞ اﺟﺘﻤﻊ ﻓﻴﻪ ﻫﺆﻻء اﻷﺭﺑﻌﺔ، ﻭﻫﻢ ﺿﻌﻔﺎء، ﻭﻣﺒﺸﺮ ﻭﺿﺎﻉ ﺻﺎﺣﺐ ﺃﺑﺎﻃﻴﻞ، (خلاصة الأحكام: 2872)
اور کہا:
ﻓﻼ ﻳﺼﺢ اﻻﺣﺘﺠﺎﺝ ﺑﻪ ﻷﻧﻪ ﺿﻌﻴﻒ ﺟﺪا ﻟﻴﺲ ﺑﺸﺊ، (المجموع شرح المهذب:4/ 10)
محدث البانی رحمه الله تعالى کا اس روایت اور عراقی کے کلام پر جو نقد وتوضیح ہے اسے ملاحظہ کریں :
ﻭﻛﺄﻧﻪ ﻟﻤﺎ ﺳﺒﻖ ﺫﻛﺮﻩ ﺣﻜﻢ ﺑﻌﺾ اﻷﺋﻤﺔ ﻋﻠﻰ ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ ﺑﺎﻟﺒﻄﻼﻥ، ﻓﻘﺎﻝ اﻟﺤﺎﻓﻆ اﺑﻦ ﺣﺠﺮ ﻓﻲ ” ﻓﺘﺢ اﻟﺒﺎﺭﻱ ” (2/341): ﺳﻨﺪﻩ ﻭاﻩ؛ ﻗﺎﻝ اﻟﻨﻮﻭﻱ ﻓﻲ اﻟﺨﻼﺻﺔ: ﺇﻧﻪ ﺣﺪﻳﺚ ﺑﺎﻃﻞ.
ﻭﻗﺎﻝ اﺑﻦ اﻟﻘﻴﻢ ﻓﻲ” ﺯاﺩ اﻟﻤﻌﺎﺩ ” (1/170):
ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻓﻴﻪ ﻋﺪﺓ ﺑﻼﻳﺎ، ﺛﻢ ﺃﻃﺎﻝ ﻓﻲ ﺑﻴﺎﻥ ﺫﻟﻚ ﺑﻤﺎ ﺧﻼﺻﺘﻪ ﻣﺎ ﻧﻘﻠﻨﺎﻩ ﻋﻦ اﻟﺒﻮﺻﻴﺮﻱ ﻣﻦ اﻟﻌﻠﻞ اﻷﺭﺑﻊ، ﻭﻣﻦ اﻟﻌﺠﻴﺐ ﺃﻥ ﻳﺨﻔﻰ ﺫﻟﻚ ﻋﻠﻰ اﻟﺤﺎﻓﻆ اﻟﻬﻴﺜﻤﻲ، ﻓﺈﻧﻪ ﻗﺎﻝ ﻓﻲ “اﻟﻤﺠﻤﻊ” (2/195) :
ﺭﻭاﻩ اﻟﻄﺒﺮاﻧﻲ ﻓﻲ “اﻟﻜﺒﻴﺮ”، ﻭﻓﻴﻪ اﻟﺤﺠﺎﺝ ﺑﻦ ﺃﺭﻃﺎﺓ ﻭﻋﻄﻴﺔ اﻟﻌﻮﻓﻲ ﻭﻛﻼﻫﻤﺎ ﻓﻴﻪ ﻛﻼﻡ، ﻓﻔﺎﺗﻪ ﺫﻛﺮ اﻟﻌﻠﺘﻴﻦ اﻷﺧﺮﻳﻴﻦ، ﻻ ﺳﻴﻤﺎ اﻟﺘﻲ ﺳﺒﺒﻬﺎ ﻣﺒﺸﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻜﺬاﺏ اﻟﻮﺿﺎﻉ، ﺛﻢ ﺗﻠﻄﻒ ﺟﺪا ﻓﻲ ﺗﻀﻌﻴﻒ اﻟﺤﺠﺎﺝ ﻭﻋﻄﻴﺔ، ﻓﺄﻭﻫﻢ ﺃﻥ اﻟﻀﻌﻒ ﻓﻲ ﺇﺳﻨﺎﺩ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻳﺴﻴﺮ، ﻭﻟﻴﺲ ﺑﺸﺪﻳﺪ، ﻓﻜﺎﻥ ﻣﻦ ﻧﺘﺎﺋﺞ ﺫﻟﻚ ﺃﻥ ﺟﺎء ﻣﻦ ﺑﻌﺪﻩ ﺻﺎﺣﺐ “ﺟﻤﻊ اﻟﻔﻮاﺋﺪ” ﻓﻠﺨﺺ ﻛﻼﻡ اﻟﻬﻴﺜﻤﻲ ﺑﻘﻮﻟﻪ ﻓﻴﻪ، (1/268) :
ﻟﻠﻜﺒﻴﺮ ﺑﻠﻴﻦ!، ﻓﺄﻓﺼﺢ ﺑﺬﻟﻚ ﻋﻤﺎ ﻳﺪﻝ ﻋﻠﻴﻪ ﻛﻼﻡ اﻟﻬﻴﺜﻤﻲ ﻣﻤﺎ ﺃﺷﺮﻧﺎ ﺇﻟﻴﻪ ﻣﻦ اﻟﻀﻌﻒ اﻟﻴﺴﻴﺮ، ﻭﺫﻟﻚ ﺧﻄﺄ ﻣﻨﻪ ﺟﺮ ﺇﻟﻰ ﺧﻄﺄ ﺃﻭﺿﺢ ﺑﺴﺒﺐ اﻟﺘﻘﻠﻴﺪ، ﻭﻋﺪﻡ اﻟﺮﺟﻮﻉ ﻓﻲ اﻟﺘﺤﻘﻴﻖ ﺇﻟﻰ اﻷﺻﻮﻝ، ﻭﺇﻟﻰ ﺃﻗﻮاﻝ اﻷﺋﻤﺔ اﻟﻔﺤﻮﻝ، ﻭاﻟﻠﻪ اﻟﻤﺴﺘﻌﺎﻥ.
ﻭﺃﻣﺎ ﻗﻮﻝ اﻟﻤﻨﺎﻭﻱ ﻓﻲ “ﻓﻴﺾ اﻟﻘﺪﻳﺮ” ﺑﻌﺪ ﺃﻥ ﻧﻘﻞ ﻋﻦ اﻟﺤﺎﻓﻈﻴﻦ اﻟﻌﺮاﻗﻲ ﻭاﺑﻦ ﺣﺠﺮ ﺃﻧﻬﻤﺎ ﻗﺎﻻ ﻓﻲ ﺣﺪﻳﺚ اﺑﻦ ﻣﺎﺟﻪ: ﺳﻨﺪﻩ ﺿﻌﻴﻒ ﺟﺪا، ﻭﺑﻌﺪ ﺃﻥ ﺑﻴﻦ ﻭﺟﻪ ﺫﻟﻚ ﺑﻨﺤﻮ ﻣﺎ ﺳﺒﻖ، ﻗﺎﻝ ﻣﺘﻌﻘﺒﺎ ﻋﻠﻰ اﻟﺴﻴﻮﻃﻲ: ﻗﺪ ﺃﺳﺎء اﻟﺘﺼﺮﻑ ﺣﻴﺚ ﻋﺪﻝ ﻟﻬﺬا اﻟﻄﺮﻳﻖ اﻟﻤﻌﻠﻮﻝ، ﻭاﻗﺘﺼﺮ ﻋﻠﻴﻪ، ﻣﻊ ﻭﺭﻭﺩﻩ ﻣﻦ ﻃﺮﻳﻖ ﻣﻘﺒﻮﻝ، ﻓﻘﺪ ﺭﻭاﻩ اﻟﺨﻠﻌﻲ ﻓﻲ ﻓﻮاﺋﺪﻩ ﻣﻦ ﺣﺪﻳﺚ ﻋﻠﻲ ﻛﺮﻡ اﻟﻠﻪ ﻭﺟﻬﻪ، ﻗﺎﻝ اﻟﺤﺎﻓﻆ اﻟﺰﻳﻦ اﻟﻌﺮاﻗﻲ: ﺇﺳﻨﺎﺩﻩ ﺟﻴﺪ.
ﻓﺄﻗﻮﻝ: ﺇﻧﻨﻲ ﻓﻲ ﺷﻚ ﻣﻦ ﺛﺒﻮﺕ ﺫﻟﻚ ﻋﻦ ﻋﻠﻲ، ﻭﺇﻥ ﻛﺎﻥ اﻟﻌﺮاﻗﻲ ﻗﺪ ﺗﺎﺑﻌﻪ ﻋﻠﻰ
ﻫﺬا اﻟﻘﻮﻝ ﺗﻠﻤﻴﺬﻩ اﻟﺒﻮﺻﻴﺮﻱ، ﻭﻗﺪ ﻭﺟﺪﺕ ﻓﻲ ﻛﻼﻡ ﻫﺬا ﻣﺎ ﻓﺘﺢ اﻟﻄﺮﻳﻖ ﻋﻠﻲ ﻟﺘﺤﻘﻴﻖ ﺷﻜﻲ اﻟﻤﺸﺎﺭ ﺇﻟﻴﻪ، ﻓﻘﺪ ﻗﺎﻝ ﻓﻲ ” اﻟﺰﻭاﺋﺪ ” (ﻗ 72/1) ﺑﻌﺪ ﺃﻥ ﺃﻋﻞ ﺇﺳﻨﺎﺩ اﺑﻦ ﻣﺎﺟﻪ ﻋﻠﻰ ﻣﺎ ﻧﻘﻠﺘﻪ ﻋﻨﻪ:
ﺭﻭاﻩ ﺃﺑﻮ اﻟﺤﺴﻦ اﻟﺨﻠﻌﻲ ﻓﻲ ” ﻓﻮاﺋﺪﻩ ” ﺑﺈﺳﻨﺎﺩ ﺟﻴﺪ، ﻣﻦ ﻃﺮﻳﻖ ﺃﺑﻲ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﻋﻦ ﻋﺎﺻﻢ ﻋﻦ ﻋﻠﻲ ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﻭﻫﻜﺬا ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺯﺭﻋﺔ ﻓﻲ ” ﺷﺮﺡ اﻟﺘﻘﺮﻳﺐ ” (3/42)، ﻭاﻟﻈﺎﻫﺮ ﺃﻥ اﻟﺒﻮﺻﻴﺮﻱ ﻧﻘﻠﻪ ﻋﻨﻪ.
ﻗﻠﺖ: ﻭاﻟﻤﻌﺮﻭﻑ ﻣﻦ ﻫﺬﻩ اﻟﻄﺮﻳﻖ ﻋﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻠﻔﻆ:
“ﻛﺎﻥ ﻳﺼﻠﻲ ﻗﺒﻞ اﻟﻈﻬﺮ ﺃﺭﺑﻊ ﺭﻛﻌﺎﺕ”، ﻫﻜﺬا ﺃﺧﺮﺟﻪ ﺃﺣﻤﺪ ﻭﻏﻴﺮﻩ، ﻓﻬﻮ اﻟﻤﺤﻔﻮﻅ ﻭاﻟﻠﻪ ﺃﻋﻠﻢ.
ﻭﻟﺌﻦ ﺻﺢ ﻣﺎ ﻋﻨﺪ اﻟﺨﻠﻌﻲ ﻓﻬﻮ ﻣﺤﻤﻮﻝ ﻋﻠﻰ ﻣﺎ ﻗﺒﻞ اﻷﺫاﻥ ﻭﺻﻌﻮﺩ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻋﻠﻰ اﻟﻤﻨﺒﺮ ﻟﻔﻘﺪاﻥ اﻟﻤﺤﻞ ﻛﻤﺎ ﺗﻘﺪﻡ ﺑﻴﺎﻧﻪ، ﻭاﻟﻠﻪ ﻭﻟﻲ اﻟﺘﻮﻓﻴﻖ.
ﻭﻛﺘﺎﺏ اﻟﺨﻠﻌﻲ اﻟﻤﺬﻛﻮﺭ ﻣﻨﻪ ﺃﺟﺰاء ﻣﺨﻄﻮﻃﺔ ﻓﻲ اﻟﻤﻜﺘﺒﺔ اﻟﻈﺎﻫﺮﻳﺔ، ﻭﻟﻴﺲ ﻓﻲ ﺷﻲء ﻣﻨﻬﺎ ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻟﻨﻨﻈﺮ ﻓﻲ ﺇﺳﻨﺎﺩﻩ، ﺛﻢ ﻭﻗﻔﺖ ﻋﻠﻴﻪ ﻋﻨﺪ ﻏﻴﺮﻩ، ﻓﺘﺄﻛﺪﺕ ﻣﻤﺎ ﺫﻫﺒﺖ ﺇﻟﻴﻪ ﻫﻨﺎ ﺃﻧﻪ ﻏﻴﺮ ﻣﻌﺮﻭﻑ، ﻓﺎﻧﻈﺮ اﻟﺤﺪﻳﺚ اﻵﺗﻲ ﺑﺮﻗﻢ، (5290) ﺇﻥ ﺷﺎء اﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ، ﻭﻗﺪ ﺭﻭﻱ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻋﻦ اﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﺃﻳﻀﺎ، ﻭﺳﻨﺪﻩ ﺿﻌﻴﻒ ﻣﻨﻜﺮ، ﻛﻤﺎ ﻳﺄﺗﻲ ﺑﻴﺎﻧﻪ ﺑﻠﻔﻆ:” ﻛﺎﻥ ﻳﺼﻠﻲ ﻗﺒﻞ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﺃﺭﺑﻌﺎ…”ﺭﻗﻢ، (1016)
الضعيفة :(1001)
تو یہ روایت کئ علل کے سبب سخت ضعیف ہے میں یہاں ان روات پر تفصیل ذکر نہیں کروں گا جو ائمہ محدثین واہل علم نے ضعف بتا دیا وہی کافی ہے۔
(2) ﻧﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻦ ﻧﺼﺮ ﺃﺑﻮ ﺟﻌﻔﺮ، ﻧﺎ ﺧﻠﻴﻔﺔ، ﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ اﻟﺴﻬﻤﻲ، ﻧﺎ ﺣﺼﻴﻦ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺇﺳﺤﺎﻕ، ﻋﻦ ﻋﺎﺻﻢ ﺑﻦ ﺿﻤﺮﺓ، ﻋﻦ ﻋﻠﻲ ﻗﺎﻝ: ﻛﺎﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﺼﻠﻲ ﻗﺒﻞ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﺃﺭﺑﻌﺎ، ﻭﺑﻌﺪﻫﺎ ﺃﺭﺑﻌﺎ ﻳﺠﻌﻞ اﻟﺘﺴﻠﻴﻢ ﻓﻲ ﺁﺧﺮﻫﻦ ﺭﻛﻌﺔ،
(معجم ابن الأعرابی :(874) سنده ضعيف )
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﻗﺎﻝ: ﻧﺎ ﺷﺒﺎﺏ اﻟﻌﺼﻔﺮﻱ ﻗﺎﻝ: ﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ اﻟﺴﻬﻤﻲ ﻗﺎﻝ: ﻧﺎ ﺣﺼﻴﻦ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ اﻟﺴﻠﻤﻲ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺇﺳﺤﺎﻕ، ﻋﻦ ﻋﺎﺻﻢ ﺑﻦ ﺿﻤﺮﺓ، ﻋﻦ ﻋﻠﻲ ﻗﺎﻝ: ﻛﺎﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﺼﻠﻲ ﻗﺒﻞ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﺃﺭﺑﻌﺎ، ﻭﺑﻌﺪﻫﺎ ﺃﺭﺑﻌﺎ، ﻳﺠﻌﻞ اﻟﺘﺴﻠﻴﻢ ﻓﻲ ﺁﺧﺮﻫﻦ ﺭﻛﻌﺔ،
ﻟﻢ ﻳﺮﻭ ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﺇﻻ ﺣﺼﻴﻦ، ﻭﻻ ﺭﻭاﻩ ﻋﻦ ﺣﺼﻴﻦ ﺇﻻ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ اﻟﺴﻬﻤﻲ،(المعجم الأوسط للطبراني: (1617)سنده ضعيف )
حافظ ابن حجر نے کہا:
ﻓﻴﻪ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ اﻟﺴﻬﻤﻰ ﻭﻫﻮ ﺿﻌﻴﻒ ﻋﻨﺪ اﻟﺒﺨﺎﺭﻯ ﻭﻏﻴﺮﻩ، ﻭﻗﺎﻝ اﻷﺛﺮﻡ ﺇﻧﻪ ﺣﺪﻳﺚ ﻭاﻩ، ﻭﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﻣﺜﻠﻪ ﻭﺯاﺩ ” ﻻ ﻳﻔﺼﻞ ﻓﻰ ﺷﻰء ﻣﻨﻬﻦ “، ﺃﺧﺮﺟﻪ اﺑﻦ ﻣﺎﺟﻪ ﺑﺴﻨﺪ ﻭاﻩ، ﻗﺎﻝ اﻟﻨﻮﻭﻯ ﻓﻰ اﻟﺨﻼﺻﺔ: ﺇﻧﻪ ﺣﺪﻳﺚ ﺑﺎﻃﻞ، ﻭﻋﻦ اﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﻋﻨﺪ اﻟﻄﺒﺮاﻧﻰ ﺃﻳﻀﺎ ﻣﺜﻠﻪ ﻭﻓﻰ ﺇﺳﻨﺎﺩﻩ ﺿﻌﻒ ﻭاﻧﻘﻄﺎﻉ ﻭﺭﻭاﻩ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺯاﻕ ﻋﻦ اﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﻣﻮﻗﻮﻓﺎ ﻭﻫﻮ اﻟﺼﻮاﺏ، فتح الباری :2/ 426
امام أثرم نے کہا:
ﻭﺭﻭﻯ ﺷﻴﺦ ﺑﺼﺮﻱ ﻳﻘﺎﻝ ﻟﻪ: ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ اﻟﺴﻬﻤﻲ ﻋﻦ ﺣﺼﻴﻦ ﻋﻦ ﻋﺎﺻﻢ ﺑﻦ ﺿﻤﺮﺓ ﻋﻦ ﻋﻠﻲ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﺃﻥ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻛﺎﻥ ﻳﺼﻠﻲ ﺑﻌﺪ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﺃﺭﺑﻊ ﺭﻛﻌﺎﺕ ﻓﻴﺴﻠﻢ ﻓﻲ ﺁﺧﺮﻫﻦ.
ﻭﻫﺬا ﺣﺪﻳﺚ ﻭاﻩ، ﻷﻥ ﻫﺬا اﻟﺸﻴﺦ اﻟﺴﻬﻤﻲ ﻟﻴﺲ ﺑﺎﻟﻤﻌﺮﻭﻑ ﺑﺎﻟﻌﻠﻢ، ﻭﻷﻥ ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻗﺪ ﺭﻭاﻩ ﺷﻌﺒﺔ ﻭﺟﻤﺎﻋﺔ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﻓﻠﻢ ﻳﺬﻛﺮﻭا ﻫﺬا ﻓﻴﻪ. (ناسخ الحديث ومنسوخه:ص:21 )
مثلا:
ﺣﺪﺛﻨﺎ بندار، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﻋﺎﻣﺮ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺳﻔﻴﺎﻥ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺇﺳﺤﺎﻕ، ﻋﻦ ﻋﺎﺻﻢ ﺑﻦ ﺿﻤﺮﺓ، ﻋﻦ ﻋﻠﻲ، ﻗﺎﻝ: ﻛﺎﻥ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﺼﻠﻲ ﻗﺒﻞ اﻟﻈﻬﺮ ﺃﺭﺑﻌﺎ ﻭﺑﻌﺪﻫﺎ ﺭﻛﻌﺘﻴﻦ،
سنن ترمذى:(424)
ﺣﺪﺛﻨﺎ بندار، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﻋﺎﻣﺮ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺳﻔﻴﺎﻥ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺇﺳﺤﺎﻕ، ﻋﻦ ﻋﺎﺻﻢ ﺑﻦ ﺿﻤﺮﺓ، ﻋﻦ ﻋﻠﻲ، ﻗﺎﻝ: ﻛﺎﻥ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﺼﻠﻲ ﻗﺒﻞ اﻟﻌﺼﺮ ﺃﺭﺑﻊ ﺭﻛﻌﺎﺕ ﻳﻔﺼﻞ ﺑﻴﻨﻬﻦ ﺑﺎﻟﺘﺴﻠﻴﻢ ﻋﻠﻰ اﻟﻤﻼﺋﻜﺔ اﻟﻤﻘﺮﺑﻴﻦ، ﻭﻣﻦ ﺗﺒﻌﻬﻢ ﻣﻦ اﻟﻤﺴﻠﻤﻴﻦ ﻭاﻟﻤﺆﻣﻨﻴﻦ،(سنن ترمذی: 429)
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﺑﻦ ﻏﻴﻼﻥ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻭﻫﺐ ﺑﻦ ﺟﺮﻳﺮ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺷﻌﺒﺔ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺇﺳﺤﺎﻕ، ﻋﻦ ﻋﺎﺻﻢ ﺑﻦ ﺿﻤﺮﺓ، ﻗﺎﻝ: ﺳﺄﻟﻨﺎ ﻋﻠﻴﺎ ﻋﻦ ﺻﻼﺓ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻣﻦ اﻟﻨﻬﺎﺭ؟ ﻓﻘﺎﻝ: ﺇﻧﻜﻢ ﻻ ﺗﻄﻴﻘﻮﻥ ﺫاﻙ، ﻓﻘﻠﻨﺎ: ﻣﻦ ﺃﻃﺎﻕ ﺫاﻙ ﻣﻨﺎ، ﻓﻘﺎﻝ: ﻛﺎﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺇﺫا ﻛﺎﻧﺖ اﻟﺸﻤﺲ ﻣﻦ ﻫﺎﻫﻨﺎ ﻛﻬﻴﺌﺘﻬﺎ ﻣﻦ ﻫﺎﻫﻨﺎ ﻋﻨﺪ اﻟﻌﺼﺮ ﺻﻠﻰ ﺭﻛﻌﺘﻴﻦ، ﻭﺇﺫا ﻛﺎﻧﺖ اﻟﺸﻤﺲ ﻣﻦ ﻫﺎﻫﻨﺎ ﻛﻬﻴﺌﺘﻬﺎ ﻣﻦ ﻫﺎﻫﻨﺎ ﻋﻨﺪ اﻟﻈﻬﺮ ﺻﻠﻰ ﺃﺭﺑﻌﺎ، ﻭﺻﻠﻰ ﺃﺭﺑﻌﺎ ﻗﺒﻞ اﻟﻈﻬﺮ ﻭﺑﻌﺪﻫﺎ ﺭﻛﻌﺘﻴﻦ، ﻭﻗﺒﻞ اﻟﻌﺼﺮ ﺃﺭﺑﻌﺎ، ﻳﻔﺼﻞ ﺑﻴﻦ ﻛﻞ ﺭﻛﻌﺘﻴﻦ ﺑﺎﻟﺘﺴﻠﻴﻢ ﻋﻠﻰ اﻟﻤﻼﺋﻜﺔ اﻟﻤﻘﺮﺑﻴﻦ، ﻭاﻟﻨﺒﻴﻴﻦ، ﻭاﻟﻤﺮﺳﻠﻴﻦ، ﻭﻣﻦ ﺗﺒﻌﻬﻢ ﻣﻦ اﻟﻤﺆﻣﻨﻴﻦ، ﻭاﻟﻤﺴﻠﻤﻴﻦ، (سنن ترمذی : 598)
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﻤﺜﻨﻰ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺟﻌﻔﺮ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺷﻌﺒﺔ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺇﺳﺤﺎﻕ، ﻋﻦ ﻋﺎﺻﻢ ﺑﻦ ﺿﻤﺮﺓ، ﻋﻦ ﻋﻠﻲ، ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﺤﻮﻩ، (سنن ترمذی: 599)
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ ﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻳﺰﻳﺪ ﺑﻦ ﺯﺭﻳﻊ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺷﻌﺒﺔ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺇﺳﺤﺎﻕ، ﻋﻦ ﻋﺎﺻﻢ ﺑﻦ ﺿﻤﺮﺓ ﻗﺎﻝ: ﺳﺄﻟﻨﺎ ﻋﻠﻴﺎ ﻋﻦ ﺻﻼﺓ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ۔۔۔ (سنن نسائی : 874)
تو امام أثرم نے اس کی حالت کے ساتھ مزید یہ بتایا کہ ابو اسحاق سے اس روایت کو شعبہ، ڈفیون وغیرہ نے بیان کیا ہے مگر وہ یہ الفاظ ذکر نہیں کرتے ہیں تو گویا یہ الفاظ غیر محفوظ ومنکر ہیں۔
تحفة المحتاج میں ہے۔
ﻭﺃﻋﻠﻪ بمحمد ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ اﻟﺴﻬﻤﻲ ﻭﻗﺎﻝ ﺃﻧﻪ ﻏﻴﺮ ﻣﻌﺮﻭﻑ
ﺗﺤﻔﺔ اﻟﻤﺤﺘﺎﺝ ﺇﻟﻰ ﺃﺩﻟﺔ اﻟﻤﻨﻬﺎﺝ:1/ 397
امام بخاری نے کہا:
ﻭﻻ ﻳﺘﺎﺑﻊ ﻋﻠﻴﻪ، (التاريخ الكبير للبخارى: 1/ 162)
ﺣﺪﺛﻨﻲ ﺁﺩﻡ، ﻗﺎﻝ: ﺳﻤﻌﺖ اﻟﺒﺨﺎﺭﻱ، ﻗﺎﻝ: ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ اﻟﺴﻬﻤﻲ اﻟﺒﺼﺮﻱ اﻟﺒﺎﻫﻠﻲ ﻻ ﻳﺘﺎﺑﻊ ﻋﻠﻰ ﺭﻭاﻳﺘﻪ، (الضعفاء الكبير للعقيلى: 4/ 101)
یعنی یہ ایسا کمزور راوی ہے جس کی روایت پر متابعت کسی بھی ثقہ حافظ نے نہیں کی ہے۔
امام ابو حاتم الرازی نے کہا:
ﻟﻴﺲ ﺑﻤﺸﻬﻮﺭ، (الجرح والتعديل :7/ 326 )
اس روایت کے غیر محفوظ ہونے پر ایک قرینہ یہ ہے کہ حصین بن عبدالرحمن سے محمد بن عبدالرحمن جیسے کمزور وغیر ضابط راوی کے علاوہ ان کے ثقہ وحافظ تلامذہ اسے بیان نہیں کرتے ہیں۔
اور اس سند میں أبو اسحاق السبیعی مدلس ومختلط راوی ہیں سماع کی صراحت نہیں کی ہے۔
(3)سیدنا ابن عمر رضی الله عنہ بھی ان رکعات کو سننے راتبہ سمجھ کر نہیں بلکہ نفل کے طور پر پڑھتے تھے جو کبھی چار تو کبھی اس سے زیادہ ہوتے تھے۔
ملاحظہ کریں:
حدثنا معاذ بن معاذ عن ابن عون عن نافع قال: كان ابن عمر يهجر يوم الجمعة فيطيل الصلاة قبل أن يخرج الإمام،
سیدنا عبدالله بن عمر رضی الله عنہ جمعہ کے دن جلدی تشریف لے آتے اور امام کے نکلنے سے پہلے خوب لمبی نماز پڑھتے تھے۔ (مصنف ابن أبي شيبة: 5431)
اس میں قیام اور رکعات کی کثرت دونوں موجود ہیں کیونکہ اسی روایت کے دوسرے طریق میں فيصلي ركعات کا ذکر ہے جو جمع کا صیغہ ہے تو کبھی چار پڑ لیتے اور کبھی چار سے زیادہ۔
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻔﺎﻥ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻭﻫﻴﺐ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﻳﻮﺏ، ﻋﻦ ﻧﺎﻓﻊ، ﺃﻥ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﻛﺎﻥ ﻳﻐﺪﻭ ﺇﻟﻰ اﻟﻤﺴﺠﺪ ﻳﻮﻡ اﻟﺠﻤﻌﺔ، ﻓﻴﺼﻠﻲ ﺭﻛﻌﺎﺕ ﻳﻄﻴﻞ ﻓﻴﻬﻦ اﻟﻘﻴﺎﻡ، ﻓﺈﺫا اﻧﺼﺮﻑ اﻹﻣﺎﻡ ﺭﺟﻊ ﺇﻟﻰ ﺑﻴﺘﻪ ﻓﺼﻠﻰ ﺭﻛﻌﺘﻴﻦ، ﻭﻗﺎﻝ: ﻫﻜﺬا ﻛﺎﻥ ﻳﻔﻌﻞ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، (مسند أحمد بن حنبل: (5807) صحيح )
اسی جگہ مسند أحمد کے محققین لکھتے ہیں:
ﻭﺃﺧﺮﺟﻪ ﺃﺑﻮ ﺩاﻭﺩ (1128)، ﻭاﺑﻦ ﺧﺰﻳﻤﺔ (1836)، ﻭاﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ (2476)، ﻭاﻟﺒﻴﻬﻘﻲ ﻓﻲ”اﻟﺴﻨﻦ” 3/240 ﻣﻦ ﻃﺮﻳﻖ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ اﺑﻦ ﻋﻠﻴﺔ، ﻋﻦ ﺃﻳﻮﺏ، ﺑﻬﺬا اﻹﺳﻨﺎﺩ. ﻭﻟﻔﻈﻪ ﻋﻨﺪ ﺃﺑﻲ ﺩاﻭﺩ: ﻛﺎﻥ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﻳﻄﻴﻞ اﻟﺼﻼﺓ ﻗﺒﻞ اﻟﺠﻤﻌﺔ.
ﻗﺎﻝ اﻟﺤﺎﻓﻆ ﻓﻲ”اﻟﻔﺘﺢ”2/426: اﺣﺘﺞ ﺑﻪ اﻟﻨﻮﻭﻱ ﻓﻲ”اﻟﺨﻼﺻﺔ”ﻋﻠﻰ ﺇﺛﺒﺎﺕ ﺳﻨﺔ اﻟﺠﻤﻌﺔ اﻟﺘﻲ قبلها، ﻭﺗﻌﻘﺐ ﺑﺄﻥ ﻗﻮﻟﻪ:”ﻭﻛﺎﻥ ﻳﻔﻌﻞ ﺫﻟﻚ”ﻋﺎﺋﺪ ﻋﻠﻰ ﻗﻮﻟﻪ: “ﻭﻳﺼﻠﻲ ﺑﻌﺪ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﺭﻛﻌﺘﻴﻦ ﻓﻲ ﺑﻴﺘﻪ”، ﺛﻢ ﻗﺎﻝ:”ﻛﺎﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﺼﻨﻊ ﺫﻟﻚ” ﺃﺧﺮﺟﻪ ﻣﺴﻠﻢ، [ ﺳﻴﺄﺗﻲ ﺑﺮﻭاﻳﺔ ﺭﻗﻢ (6056) ]
اور آخر پر لکھتے ہیں۔
ﻭﺃﻗﻮﻯ ﻣﺎ ﻳﺘﻤﺴﻚ ﺑﻪ ﻓﻲ ﻣﺸﺮﻭﻋﻴﺔ ﺭﻛﻌﺘﻴﻦ ﻗﺒﻞ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﻋﻤﻮﻡ ﻣﺎ ﺻﺤﺤﻪ اﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ ﻣﻦ ﺣﺪﻳﺚ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ اﻟﺰﺑﻴﺮ، ﻣﺮﻓﻮﻋﺎ:”ﻣﺎ ﻣﻦ ﺻﻼﺓ ﻣﻔﺮﻭﺿﺔ ﺇﻻ ﻭﺑﻴﻦ ﻳﺪﻳﻬﺎ ﺭﻛﻌﺘﺎﻥ”، ﻭﻣﺜﻠﻪ ﺣﺪﻳﺚ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻣﻐﻔﻞ اﻟﻤﺎﺿﻲ ﻓﻲ ﻭﻗﺖ اﻟﻤﻐﺮﺏ:”ﺑﻴﻦ ﻛﻞ ﺃﺫاﻧﻴﻦ ﺻﻼﺓ،
مسند أحمد بن حنبل: تحت (5807)
محدث البانی رحمه الله تعالى لکھتے ہیں:
ﻭﺻﻼﺗﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺑﻴﻦ اﻷﺫاﻥ ﻭاﻹﻗﺎﻣﺔ ﻳﻮﻡ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﻣﺘﻌﺬﺭ؛ ﻷﻧﻪ ﻛﺎﻥ ﺑﻴﻨﻬﻤﺎ اﻟﺨﻄﺒﺔ، ﻓﻼ ﺻﻼﺓ ﺣﻴﻨﺌﺬ ﺑﻴﻨﻬﻤﺎ، ﻧﻌﻢ ﺑﻌﺪ ﺇﺣﺪاﺙ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﻟﻷﺫاﻥ ﻋﻠﻰ اﻟﺰﻭﺭاء، ﻳﻤﻜﻦ ﺃﻥ ﻳﺼﻠﻲ ﺳﻨﺔ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﻗﺒﻞ ﺧﺮﻭﺝ اﻹﻣﺎﻡ ﻟﻠﺨﻄﺒﺔ.
ﻗﻠﺖ: ﻭﻟﻜﻨﻪ ﻟﻢ ﻳﺮﺩ ﺇﻃﻼﻗﺎ ﺃﻧﻪ ﻛﺎﻥ ﺑﻴﻦ ﺃﺫاﻥ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﻭاﻟﺨﻄﺒﺔ ﻭﻗﺖ ﻟﺼﻼﺓ ﺃﺭﺑﻊ ﺭﻛﻌﺎﺕ ﺳﻨﺔ اﻟﺠﻤﻌﺔ اﻟﻤﺰﻋﻮﻣﺔ، ﻭﻻ ﻭﺭﺩ ﺃﻳﻀﺎ ﺃﻧﻬﻢ ﻛﺎﻧﻮا ﻳﺼﻠﻮﻧﻬﺎ ﻓﻲ ﻋﻬﺪﻩ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ، ﻓﺒﻄﻞ اﻻﺣﺘﻤﺎﻝ اﻟﻤﺬﻛﻮﺭ، ﻋﻠﻰ ﺃﻧﻪ ﻟﻮﺛﺒﺖ ﻭﺟﻮﺩ ﻣﺜﻞ ﻫﺬا اﻟﻮﻗﺖ، ﻟﻢ ﻳﺪﻝ ﺫﻟﻚ ﻋﻠﻰ ﺟﻮاﺯ ﺇﺣﺪاﺙ ﻋﺒﺎﺩﺓ ﻟﻢ ﺗﻜﻦ ﻓﻲ ﻋﻬﺪﻩ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﺑﺨﻼﻑ ﺇﺣﺪاﺙ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﻟﻷﺫاﻥ، ﻓﺈﻧﻪ ﻛﺎﻥ ﻣﻦ ﺑﺎﺏ اﻟﻤﺼﺎﻟﺢ اﻟﻤﺮﺳﻠﺔ، ﻛﻤﺎ ﺣﻘﻘﺖ ﺫﻟﻚ ﻛﻠﻪ ﻓﻲ ﺭﺳﺎﻟﺘﻨﺎ اﻷﺟﻮﺑﺔ اﻟﻨﺎﻓﻌﺔ ﻋﻦ ﺃﺳﺌﻠﺔ ﻟﺠﻨﺔ ﻣﺴﺠﺪ اﻟﺠﺎﻣﻌﺔ، ﻓﻠﻴﺮاﺟﻌﻬﺎ ﻣﻦ ﺷﺎء، ﻓﺈﻥ ﻓﻴﻬﺎ ﺗﺤﻘﻴﻘﺎ ﻟﻜﺜﻴﺮ ﻣﻦ اﻟﻤﺴﺎﺋﻞ اﻟﻤﺘﻌﻠﻘﺔ ﺑﺼﻼﺓ اﻟﺠﻤﻌﺔ، (الضعيفة : 1001)
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻓﻬﺪ ﻗﺎﻝ: ﺛﻨﺎ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﻣﻌﺒﺪ ﻗﺎﻝ: ﺛﻨﺎ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻠﻪ ﻋﻦ ﺯﻳﺪ ﻋﻦ ﺟﺒﻠﺔ ﺑﻦ ﺳﺤﻴﻢ ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻬﻤﺎ ﺃﻧﻪ ﻛﺎﻥ ﻳﺼﻠﻲ ﻗﺒﻞ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﺃﺭﺑﻌﺎ ﻻ ﻳﻔﺼﻞ ﺑﻴﻨﻬﻦ ﺑﺴﻼﻡ ﺛﻢ ﺑﻌﺪ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﺭﻛﻌﺘﻴﻦ ﺛﻢ ﺃﺭﺑﻌﺎ، (شرح معاني الآثار:(1965) صحیح )
(4) ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﺘﺎ اﺑﻦ ﻓﻀﻴﻞ، ﻋﻦ ﺧﺼﻴﻒ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻋﺒﻴﺪﺓ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ، ﻗﺎﻝ: ﻛﺎﻥ ﻳﺼﻠﻲ ﻗﺒﻞ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﺃﺭﺑﻌﺎ مصنف ابن أبي شيبة:(5470)
خصیف الجزری صدوق ہونے کے باوجود سیئ الحفظ راوی ہے۔
اور ابو عبیدہ کے اپنے باپ سے سماع وعدم سماع اور روایت کے حکم بارے اہل علم میں اختلاف ہے فی الحال اس بحث کو ہم نہیں کھولتے ہیں۔
عبد الرزاق ﻋﻦ ﻣﻌﻤﺮ، ﻋﻦ ﻗﺘﺎﺩﺓ، ﺃﻥ اﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﻛﺎﻥ ﻳﺼﻠﻲ ﻗﺒﻞ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﺃﺭﺑﻊ ﺭﻛﻌﺎﺕ، ﻭﺑﻌﺪﻫﺎ ﺃﺭﺑﻊ ﺭﻛﻌﺎﺕ، ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺇﺳﺤﺎﻕ: ﻭﻛﺎﻥ ﻋﻠﻲ ﻳﺼﻠﻲ ﺑﻌﺪ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﺳﺖ ﺭﻛﻌﺎﺕ، ﻭﺑﻪ ﻳﺄﺧﺬ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺯاﻕ، (مصنف عبد الرزاق : 5524)سندہ ضعیف ومنقطع۔
قتادہ کا ابن مسعود رضی الله عنہ سے سماع نہیں ہے۔
اور معمر کی قتادہ سے روایت میں کلام ہے۔
عبد الرزاق ﻋﻦ اﻟﺜﻮﺭﻱ، ﻋﻦ ﻋﻄﺎء ﺑﻦ اﻟﺴﺎﺋﺐ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ اﻟﺴﻠﻤﻲ ﻗﺎﻝ: ﻛﺎﻥ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﻳﺄﻣﺮﻧﺎ ﺃﻥ ﻧﺼﻠﻲ ﻗﺒﻞ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﺃﺭﺑﻌﺎ، ﻭﺑﻌﺪﻫﺎ ﺃﺭﺑﻌﺎ، (مصنف عبد الرزاق: 5525)۔
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ، ﻗﺎﻝ: ﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ، ﻋﻦ ﺳﻔﻴﺎﻥ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﻲ ﻋﻄﺎء ﺑﻦ اﻟﺴﺎﺋﺐ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ اﻟﺴﻠﻤﻲ، ﻗﺎﻝ: ﻛﺎﻥ اﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﻳﺄﻣﺮﻧﺎ ﺃﻥ ﻧﺼﻠﻲ، ﻗﺒﻞ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﺃﺭﺑﻌﺎ، ﻭﺑﻌﺪﻫﺎ ﺃﺭﺑﻌﺎ
(الأوسط لابن المنذر:1880)۔
یہ طریق بظاہر حسن لذاتہ ہے مگر غیر محفوظ ہے کیونکہ أبو عبدالرحمن السلمی سے عطاء بن سائب سے زیادہ ثقہ راوی اسے قبل الجمعة کے الفاظ کے بغیر بیان کرتے ہیں اور وہ امام أبو اسحاق السبیعی ہیں اور اسرائیل ابو اسحاق السبیعی سے روایت میں أثبت وأحفظ ہیں اور صحبت خاص بھی رکھتے ہیں۔
اس لئے ابن مسعود رضی الله عنہ سے محفوظ روایت وہ ہے جس میں جمعہ کے بعد چار رکعات پڑھنا آیا ہے۔
ﻛﻤﺎ ﻗﺪ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺩاﻭﺩ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻳﻮﻧﺲ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺇﺳﺮاﺋﻴﻞ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺇﺳﺤﺎﻕ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ اﻟﺴﻠﻤﻲ، ﻗﺎﻝ: ” ﻗﺪﻡ ﻋﻠﻴﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ، ﻓﻜﺎﻥ ﻳﺼﻠﻲ ﺑﻌﺪ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﺃﺭﺑﻌﺎ، ﻓﻘﺪﻡ ﺑﻌﺪﻩ ﻋﻠﻲ، ﻓﻜﺎﻥ ﺇﺫا ﺻﻠﻰ اﻟﺠﻤﻌﺔ، ﺻﻠﻰ ﺑﻌﺪﻫﺎ ﺭﻛﻌﺘﻴﻦ ﻭﺃﺭﺑﻌﺎ، ﻓﺄﻋﺠﺒﻨﺎ ﻗﻮﻝ ﻋﻠﻲ ﻭاﺧﺘﺮﻧﺎﻩ ﻭﻣﺎ ﻗﺪ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻳﻮﻧﺲ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺳﻔﻴﺎﻥ، ﻋﻦ ﻋﻄﺎء ﺑﻦ اﻟﺴﺎﺋﺐ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ اﻟﺴﻠﻤﻲ، ﺛﻢ ﺫﻛﺮ ﻣﺜﻠﻪ، (شرح مشكل الآثار:10/ 303سنده صحيح )۔
إبراهيم بن سليمان بن داود البرلسي حفاظ حدیث میں سے ہیں۔
إكمال الإكمال لابن نقطة:(878) 1/ 502 میں ہے۔
ﻭﻛﺎﻥ ﺛﻘﺔ ﻣﺘﻘﻨﺎ ﺣﺎﻓﻈﺎ ﻟﻠﺤﺪﻳﺚ،
حافظ ذہبی نے کہا:
اﻹﻣﺎﻡ، اﻟﺤﺎﻓﻆ، اﻟﻤﺘﻘﻦ، سير أعلام النبلاء :12/ 612 اور باقی سند صحیح ہے۔
ان کا تفصیل سے ترجمہ دیکھیے تاریخ دمشق: (407) 6/ 414تا416
اور اس سے متصل طریق: ﻭﻣﺎ ﻗﺪ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻳﻮﻧﺲ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺳﻔﻴﺎﻥ، ﻋﻦ ﻋﻄﺎء ﺑﻦ اﻟﺴﺎﺋﺐ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ اﻟﺴﻠﻤﻲ، ﺛﻢ ﺫﻛﺮ ﻣﺜﻠﻪ، پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ اصل روایت جمعہ کے بعد کی چار رکعات بارے ہی محفوظ ہے۔
بصورت دیگر اس کا تعلق نوافل کے ساتھ ہے وہ بلا قید کے چاہے کوئی دو،چار، چھ، آٹھ یا اس سے زیادہ پڑھ لے سو جائز ہے۔
فائدہ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺳﻌﻴﺪ اﻟﺮاﺯﻱ ﻗﺎﻝ: ﻧﺎ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﺧﺎﻟﺪ اﻟﺮﻗﻲ ﻗﺎﻝ: ﻧﺎ ﻋﺘﺎﺏ ﺑﻦ ﺑﺸﻴﺮ، ﻋﻦ ﺧﺼﻴﻒ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻋﺒﻴﺪﺓ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ، ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﺃﻧﻪ ﻛﺎﻥ ﻳﺼﻠﻲ ﻗﺒﻞ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﺃﺭﺑﻌﺎ، ﻭﺑﻌﺪﻫﺎ ﺃﺭﺑﻌﺎ،
ﻟﻢ ﻳﺮﻭ ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻋﻦ ﺧﺼﻴﻒ ﺇﻻ ﻋﺘﺎﺏ ﺑﻦ ﺑﺸﻴﺮ، المعجم الأوسط للطبراني :(3959)سنده ضعيف
خصیف الجزری صدوق سیئ الحفظ ،مضطرب الحدیث فی المسند راوی ہے۔
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ، ﻗﺎﻝ: ﺛﻨﺎ ﺳﻌﻴﺪ، ﻗﺎﻝ: ﺛﻨﺎ ﻋﺘﺎﺏ ﺑﻦ ﺑﺸﻴﺮ، ﻋﻦ ﺧﺼﻴﻒ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻋﺒﻴﺪﺓ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ: ﺃﻧﻪ ﻛﺎﻥ ﻳﺼﻠﻲ ﻗﺒﻞ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﺃﺭﺑﻊ ﺭﻛﻌﺎت،
الأوسط لابن المنذر :(1845) سندہ ضعیف
(6) حافظ ابن رجب کی جو مکمل بحث ہے جمعہ سے پہلے چار رکعات یا دو رکعت پڑھنے کے بارے اسے ادھورا پیش کیا گیا ہے صاحب انصاف شخص کو چاہیے ہے کہ وہ فتح الباری 8/ 327 تا 333 تک کا مطالعہ کرے اور حافظ ابن رجب یہ بھی لکھتے ہیں کہ اس بارے جو مرفوع روایات ہیں ان کی اسانید میں نظر ہے۔
رہا انہیں سنت راتبہ کہنا تو یہ محل نظر ہے۔
کیونکہ جمعہ سے پہلے رکعات کی تعداد شارع نے بیان اور مقرر نہیں کی ہے۔
بلکہ سلف صالحین کا اس بارے عمل مختلف ہے۔
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ، ﻗﺎﻝ: ﺛﻨﺎ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﻣﻨﺼﻮﺭ، ﻗﺎﻝ: ﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﻋﻮاﻧﺔ، ﻋﻦ سلم ﺑﻦ ﺑﺸﻴﺮ ﺑﻦ ﺣﺠﻞ اﻟﻌﻴﺸﻲ، ﻋﻦ ﻋﻜﺮﻣﺔ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ: ﺃﻧﻪ ﻛﺎﻥ ﻳﺼﻠﻲ ﻗﺒﻞ ﺃﻥ ﻳﺄﺗﻲ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﺛﻤﺎﻥ ﺭﻛﻌﺎﺕ، ﺛﻢ ﻳﺠﻠﺲ، ﻓﻼ ﻳﺼﻠﻲ ﺷﻴﺌﺎ، ﺣﺘﻰ ﻳﻨﺼﺮﻑ،
سیدنا ابن عباس رضی الله عنہ جمعہ سے پہلے آٹھ رکعات پڑھتے تھے پھر بیٹھ جاتے تو واپس لوٹنے تک کچھ نہیں پڑھتے تھے۔
الأوسط لابن المنذر :(1844) صحیح۔
سیدنا عبد الله بن عباس رضی الله عنہ کا یہ عمل بتاتا ہے کہ مرفوع روایت منکر و موضوع ہے اور یہ کہ جمعہ سے پہلے ہرگز سنت سمجھ کر مقرر کر کے رکعات پڑھنا ثابت نہیں ہے۔
سلم بن بشیر کے بارے امام یحیی بن معین نے کہا:
ﻟﻴﺲ ﺑﻪ ﺑﺄﺱ، (الجرح والتعديل :4/ 266 )
اس سے امام ابو عوانہ نے الصحیح میں روایت لی۔
سیدنا ابن عمر رضی الله عنہ جمعہ کے شروع ہونے سے پہلے طویل وقت تک نفل پڑھتے تھے۔
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺴﺪﺩ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ، ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﻳﻮﺏ، ﻋﻦ ﻧﺎﻓﻊ، ﻗﺎﻝ: ﻛﺎﻥ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﻳﻄﻴﻞ اﻟﺼﻼﺓ ﻗﺒﻞ اﻟﺠﻤﻌﺔ، ﻭﻳﺼﻠﻲ ﺑﻌﺪﻫﺎ ﺭﻛﻌﺘﻴﻦ ﻓﻲ ﺑﻴﺘﻪ، ﻭﻳﺤﺪﺙ ﺃﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻛﺎﻥ ﻳﻔﻌﻞ ﺫﻟﻚ، (سنن أبو داود : 1128صحيح )۔
تنبیہ: کان یفعل ذلك کا تعلق بعد والی رکعات کے ساتھ ہے کیونکہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے یہی ثابت ہے۔
حدثنا معاذ بن معاذ عن ابن عون عن نافع قال: كان ابن عمر يهجر يوم الجمعة فيطيل الصلاة قبل أن يخرج الإمام،
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ جمعہ کے دن جلدی تشریف لے آتے اور امام کے نکلنے سے پہلے خوب لمبی نماز پڑھتے تھے۔ مصنف ابن أبي شيبة :(5471) صحیح۔
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﺼﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻮاﺭﺙ، ﻋﻦ ﻭﻫﺐ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻃﺎﻭﺱ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ، ﺃﻧﻪ ﻛﺎﻥ ﻻ ﻳﺄﺗﻲ اﻟﻤﺴﺠﺪ ﻳﻮﻡ اﻟﺠﻤﻌﺔ، ﺣﺘﻰ ﻳﺼﻠﻲ ﻓﻲ ﺑﻴﺘﻪ ﺭﻛﻌﺘﻴﻦ،
عبد الله بن طاؤس رحمه الله تعالى اپنے والد طاؤس رحمه الله تعالى کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ
آپ جمعہ کے دن گھر میں دو رکعتیں پڑھنے سے پہلے مسجد نہ آتے تھے۔
مصنف ابن أبي شيبة: (5475) صحیح۔
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﻧﺎ اﻟﻌﺒﺎﺱ ﺑﻦ اﻟﻮﻟﻴﺪ ﺑﻦ ﻣﺰﻳﺪ ﻗﺎﻝ ﺳﻤﻌﺖ ﻋﻘﺒﺔ ﻳﻌﻨﻲ اﺑﻦ ﻋﻠﻘﻤﺔ ﻳﻘﻮﻝ ﻟﻘﻴﺘﻪ ﻳﻌﻨﻲ اﻷﻭﺯاﻋﻲ ﻳﻮﻡ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﺭاﺋﺤﺎ ﺇﻟﻰ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﻋﻠﻰ ﺑﺎﺏ اﻟﻤﺴﺠﺪ ﻓﺴﻠﻤﺖ ﻋﻠﻴﻪ ﺛﻢ ﺩﺧﻞ ﻓﺎﺗﺒﻌﺘﻪ ﻓﺄﺣﺼﻴﺖ ﻋﻠﻴﻪ ﻗﺒﻞ ﺧﺮﻭﺝ اﻹﻣﺎﻡ ﺻﻼﺗﻪ ﺃﺭﺑﻌﺎ ﻭﺛﻼﺛﻴﻦ ﺭﻛﻌﺔ ﻛﺎﻥ ﻗﻴﺎﻣﻪ ﻭﺭﻛﻮﻋﻪ ﻭﺳﺠﻮﺩﻩ ﺣﺴﻨﺎ ﻛﻠﻪ تقدمة الجرح والتعديل: 1/ 218۔
اب اس أثر کو دیکھیں امام اوزاعی رحمه نے امام کے نکلنے سے پہلے چونتیس رکعات ادا کی ہیں امام صاحب کا عمل بھی بتاتا ہے کہ جمعہ سے پہلے کوئی مخصوص رکعات مقرر نہیں کی گئ ہیں۔
امام أحمد بن حنبل سے ان کے بیٹے ابو الفضل صالح پوچھتے ہیں:
ﻗﻠﺖ ﻗﺒﻞ اﻷﺫاﻥ ﻗﺎﻝ ﻛﺜﻴﺮ ﻭﻛﺎﻥ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﻳﻄﻴﻞ اﻟﺼﻼﺓ ﻳﻮﻡ اﻟﺠﻤﻌﺔ،
امام أحمد سے ان کے بیٹے صالح نے پوچھا تو فرمایا کثرت سے پڑھیں جائیں اور ابن عمر رضی الله عنہ جمعہ سے پہلے طویل وقت تک نفل پڑھتے تھے۔
مسائل الإمام أحمد رواية ابنه أبي الفضل صالح: 2/ 8(526) ﻛﻢ ﻳﺼﻠﻰ ﻗﺒﻞ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﻭﺑﻌﺪﻫﺎ،
امام ابن المنذر نے ایک روایت کے بعد کہا:
ﻗﻮﻟﻪ ﻓﻲ ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻭﺻﻠﻰ ﻣﺎ ﺷﺎء اﻟﻠﻪ ﺇﺑﺎﺣﺔ ﺃﻥ ﻳﺼﻠﻲ اﻟﻤﺮء ﻣﺎ ﺷﺎء ﻗﺒﻞ اﻟﺠﻤﻌﺔ،
الأوسط لابن المنذر :4/ 50
ان آثار سلف صالحین وتصریحات کا خلاصہ یہ ہے کہ جمعہ سے پہلے کوئی مخصوص رکعات مقرر نہیں کی گئی ہیں اور اس پر کوئی ایک روایت بھی ایسی موجود نہیں جو پایہ ثبوت کو پہنچتی ہو رہا بعض صحابہ کا عمل تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ جس کا جتنا دل چاہے وہ پڑھ لے مثلا اگر کوئی دو رکعتیں،چار رکعتیں ،چھ رکعتیں یا اس سے زائد پڑھتا ہے تو اس کا مطلب واضح ہے کہ اس نے اتنی ہی پڑھی ہیں جتنی اسے کے مقدر میں تھیں اور یہی رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی حدیث مبارک ہمیں درس دیتی ہے۔
اپنی طرف سے کسی عبادت کا یا اس کی رکعات کا وقت وتعین وتعدد مقرر کرنا شریعت سازی ہے اور جو ایسا کرے گا وہ صریح ظلم کر رہا ہے۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے قطعا جمعہ سے پہلے رکعات کی تعداد مقرر نہیں فرمائی ہے نہ ہی آپ کے عمل سے ایسا کچھ ثابت ہے بلکہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم سے جو ثابت ہے وہ یہ ہے۔
ﻋﻦ سلمان اﻟﻔﺎﺭﺳﻲ، ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻝﻟﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﻻ ﻳﻐﺘﺴﻞ ﺭﺟﻞ ﻳﻮﻡ اﻟﺠﻤﻌﺔ، ﻭﻳﺘﻄﻬﺮ ﻣﺎ اﺳﺘﻄﺎﻉ ﻣﻦ ﻃﻬﺮ، ﻭﻳﺪﻫﻦ ﻣﻦ ﺩﻫﻨﻪ، ﺃﻭ ﻳﻤﺲ ﻣﻦ ﻃﻴﺐ ﺑﻴﺘﻪ، ﺛﻢ ﻳﺨﺮﺝ ﻓﻼ ﻳﻔﺮﻕ ﺑﻴﻦ اﺛﻨﻴﻦ، ﺛﻢ ﻳﺼﻠﻲ ﻣﺎ ﻛﺘﺐ ﻟﻪ، ﺛﻢ ﻳﻨﺼﺖ ﺇﺫا ﺗﻜﻠﻢ اﻹﻣﺎم ﺇﻻ ﻏﻔﺮ ﻟﻪ ﻣﺎ ﺑﻴﻨﻪ ﻭﺑﻴﻦ اﻟﺠﻤﻌﺔ اﻷﺧﺮﻯ، صحيح البخارى: (883)
اس حدیث مبارک کے الفاظ: ﺛﻢ ﻳﺼﻠﻲ ﻣﺎ ﻛﺘﺐ ﻟﻪ،
پر غور کریں کہ امام کے خطبہ شروع کرنے سے پہلے تک کے وقت میں جتنی اس کے لئے نماز لکھی گئ ہے وہ پڑھے۔
اور صحیح مسلم کے الفاظ ہیں۔ ﺛﻢ ﺃﺗﻰ اﻟﺠﻤﻌﺔ، ﻓﺼﻠﻰ ﻣﺎ ﻗﺪﺭ ﻟﻪ، صحیح مسلم :(857)
اور مسند أحمد بن حنبل :(11768) سنده حسن لذاته کی ایک حدیث میں یہ الفاظ ہیں۔
ﺛﻢ ﺭﻛﻊ ﻣﺎ ﺷﺎء ﺃﻥ ﻳﺮﻛﻊ،
پھر جتنی رکعات چاہے پڑھے۔
امام ابن خزیمہ نے کہا:
ﺑﺎﺏ ﺇﺑﺎﺣﺔ ﻣﺎ ﺃﺭاﺩ اﻟﻤﺼﻠﻲ ﻣﻦ اﻟﺼﻼﺓ ﻗﺒﻞ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﻣﻦ ﻏﻴﺮ ﺣﻈﺮ ﺃﻥ ﻳﺼﻠﻲ ﻣﺎ ﺷﺎء، ﻭﺃﺭاﺩ ﻣﻦ ﻋﺪﺩ اﻟﺮﻛﻌﺎﺕ ﻭاﻟﺪﻟﻴﻞ ﻋﻠﻰ ﺃﻥ ﻛﻞ ﻣﺎ ﺻﻠﻰ ﻗﺒﻞ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﻓﺘﻄﻮﻉ ﻻ ﻓﺮﺽ ﻣﻨﻬﺎ ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ ﻓﻲ ﺧﺒﺮ ﺃﺑﻲ ﺳﻌﻴﺪ، ﻭﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ الله ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﻭﺻﻠﻰ ﻣﺎ ﻛﺘﺐ ﻟﻪ ، ﻭﻓﻲ ﺧﺒﺮ سلمان: ﻣﺎ ﻗﺪﺭ ﻟﻪ، ﻭﻓﻲ ﺧﺒﺮ ﺃﺑﻲ ﺃﻳﻮﺏ: ﻓﻴﺮﻛﻊ ﺇﻥ ﺑﺪا ﻟﻪ، صحيح ابن خزيمة:3/ 168
ﻭﻓﻴﻪ ﺃﻥ اﻟﺘﻨﻔﻞ ﻗﺒﻞ ﺧﺮﻭﺝ اﻹﻣﺎﻡ ﻳﻮﻡ اﻟﺠﻤﻌﺔ ﻣﺴﺘﺤﺐ ﻭﻫﻮ ﻣﺬﻫﺒﻨﺎ ﻭﻣﺬﻫﺐ اﻟﺠﻤﻬﻮﺭ ﻭﻓﻴﻪ ﺃﻥ اﻟﻨﻮاﻓﻞ اﻟﻤﻄﻠﻘﺔ ﻻ ﺣﺪ لها ﻟﻘﻮﻟﻪ ﺻﻠﻰ الله ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﺼﻠﻰ ﻣﺎ ﻗﺪﺭ ﻟﻪ،
شرح النووي على مسلم :6/ 146
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ