شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ تعالی ہمارے استاذ گرامی ہیں، آپ شیخ الشیوخ اور استاذ الاساتذہ ہیں ۔ حدیث اور علوم الحدیث آپ کا میدان ہے گو کہ دیگر بھی کئی علوم میں طاق ہیں ۔ ہمیں آپ سے نزھة النظر شرح نخبة الفکر از حافظ ابن حجر العسقلانی پڑھنے کی سعادت ملی ہے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ کس قدر محنت اور جان فشانی کے ساتھ اس ادھیڑ عمری میں بھی مطالعہ کتب علوم و فنون کا شغف جاری رکھے ہوئے ہیں۔ علم اور اہل علم کے انتہائی قدر دان ہیں اور انتہائی متواضع اور منکسر المزاج انسان ہیں، آپ نے انتہائی حلیم طبیعت پائی ہے ۔ کلاس میں پڑھاتے ہوئے روزانہ بیسوں اہل علم کا تذکرہ ہوتا رہتا تھا تو علمی اختلاف کے باوصف ہمیشہ ان کے لیے دعا گو اور کلماتِ ترحم کا ترانہ زبان پر جاری رہتا تھا ۔ آپ کے بہت سے لیکچرز اور دروس سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر موجود ہیں کوئی بھی تھوڑی سی کاوش کر کے آپ کے لب و لہجہ اور منہج کا تتبع کر سکتا ہے۔ بیسیوں کتب کے آپ مصنف ، مولف اور محقق ہیں ان سے بھی آپ کے کام و مزاج سے آگہی حاصل کی جا سکتی ہے۔

آپ اسلاف امت مرحومہ کے منہج کے موافق علمی و عملی زندگی گزار رہے ہیں ۔ درس و تدریس اور تحریر و تالیف سے آپ کی زندگی عبارت ہے ۔ واللہ العظیم اپنے بارے میں کلمات تعلی کو بھی برداشت نہیں کیا کرتے ہیں ۔ ایسی نستعلق شخصیت کے متعلق کوئی ناہنجار یاوہ گوئی کرتا ہے تو خود اپنی ہی عاقبت کی بربادی کا ساماں کر رہا ہے۔

یہاں آپ کے طرز تدریس کے حوالہ سے کچھ عرض کرنا بھی مناسب رہے گا جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ نہ ایک منجھے ہوئے استاذ ہیں بلکہ استاذ گر ہیں ۔ ایک طرف جہاں آپ خود بار ہا زیر تدریس کتاب کو پڑھانے کے با وجود ہر بار تازہ مطالعہ کی عادت کے حامل ہیں وہیں آپ چاہتے ہیں کہ زیر تعلیم و تربیت علماء کے اندر بھی علم و تحقیق کی جوت جگائی جائے ۔ کتاب خوانی کے ساتھ ساتھ زیر بحث مسئلہ کی تفہیم کے بعد اس کی مزید توضیح کے لیے اسلاف و اخلاف کی کتب کی مراجعت کے لیے طلبہ سے لائبریری میں موجود مصادر و مراجع تلاش کرواتے ہیں ، ان کے صفحات اور مجلدات کی نشاندھی کروا کر نوٹ کرواتے ہیں تا کہ طلبہ شام کے اوقات میں خود بالتفصیل دیکھ لیں ، گاہے گاہے اس مسئلہ کے بارے میں طلبہ سے دریافت بھی کرتے رہتے ہیں تا کہ ان کے فہم کا اندازہ ہو سکے ۔ اس سارے سلسلہ میں طلبہ کی خیر خواہی کا جذبہ عروج پر رہتا ہے۔

آپ کی ایک اور خصوصیت موجود اور گزر جانے والے اہل علم کی قدر دانی ہے ، اہل علم کا تذکرہ بلا تفریق ہمیشہ عزت و احترام سے کیا کرتے ہیں بطور خاص اپنے شیوخ اور اساتذہ کا تذکرہ جانفزا اس انداز میں کیا کرتے ہیں کہ علم و اہل علم کی قدر سامعین محفل بھی محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتے ہیں ۔ آپ کی اصل مصروفیت کا موقع و مقام تو ادارہ علوم اثریہ، منٹگمری بازار، فیصل آباد ہے لیکن آپ عرصہ دراز سے شیخ مکرم حافظ محمد شریف صاحب کے قائم کردہ ادارہ تخصص مر کز التربیہ الاسلامیہ ، گلستان کالونی ، فیصل آباد میں بھی تدریسی ذمہ داریاں ادا فرماتے ہیں ۔ یہ ایک ایسا موقر ادارہ ہے جس میں ان اہل علم کو داخلہ ملتا ہے جو درس نظامی کی تکمیل کر چکے ہوں اور تخصص فی علوم الحدیث و علوم التفسیر کا ذوق رکھتے ہوں۔ اس ادارہ میں آپ سے فیض تربیت پانے والے علماء اور محققین کی تعداد اگر چہ چند صد ہی ہے لیکن اطراف و اکناف کے تعلیمی اداروں کی رونق ہیں۔

اہل علم کی قدر دانی کے متعلق ایک واقعہ ذہن میں آ رہا ہے، دیوبندی مکتبہ فکر کے معروف عالم دین شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ تعالیٰ گوجرانوالہ والے ، جو کہ مولانا زاھد الراشدی صاحب کے والد محترم اور محترم ڈاکٹر عمار خان ناصر صاحب کے دادا جان تھے ، کی وفات کی خبر ملی تو بوجوہ آپ کے جنازہ میں شریک نہ ہو سکے تھے لیکن اس دور کے آپ کے تلامذہ سے معلوم ہوا کہ آپ اس پر مغموم ہوئے اور ان کے لیے دعائے مغفرت فرمائی اور ساتھ ہی فرمایا کہ مولانا صاحب علم شخصیت تھے ۔ یاد رہے کہ ان دونوں شخصیات کے درمیان قلمی بحوث کا سلسلہ تا دیر جاری رہا تھا حتی کہ شیخ اثری صاحب نے ان کے مقابل فاتحہ خلف الامام کے مسئلہ پر ایک ضخیم کتاب بھی مرتب کی تھی۔