مجسمہ عمل وکردار، مولانا عطاءالمومن (رحمہ اللہ)

ناپائیدار دنیا میں نہ کوئی ٹہر سکا، نہ ٹہرے گا، چل چلاو کا سلسلہ جاری ھے، ھمارے عظیم بھائی، بیشمار خوبیوں کے مالک اور پہاڑ سے زیادہ مضبوط ایمان رکھنے والے مولانا عطاءالمومن رحمہ اللہ بھی داغ مفارقت دے گئے،

حیدرآباد سے آکر راولپنڈی میں مقیم ھوئے، دینی گھرانے سے تعلق تھا، سب بھائی خطیب ھیں،ڈاکٹر عبدالرقیب حال مقیم امریکہ حیدرآباد کی مرکزی مسجد کے مہتمم اور بہت سارے دینی ودعوتی منصوبوں کے روح رواں تھے،

میں اور مولانا عطاءالمومن 16 یا 17 برس سعودی ویزا سیکشن میں ایک ساتھ کام کرتے رھے، رفاقت کا یہ دور بڑا مثالی تھا، اکثرو بیشتر اکٹھے دفتر آتے جاتے، مولانا کے تقوی وتدین کے سب معترف تھے، سعودی رفقاء بھی بیحد احترام کرتے، وقت پر نماز کے لیے مسجد میں آنا اور اذان کہنا مولانا نے اپنے ذمہ لے رکھا تھا، اس معاملہ میں کسی افسر کی پرواہ نہ کرتے، بڑی ایمانداری سے اپنا کام کرتے،

ایک سیکشن انچارج عبدالرحیم الطلحی بڑا عجیب مزاج رکھتا تھا، سارا عملہ سہم کر رھتا، مگر مولانا عطاءالمومن بڑے دھڑلے سے اس سے بات کرتے اور وہ بھی ان کے ساتھ کھل کر دوستانہ ماحول میں بات کرتا، اپنے کام میں ایمانداری کا یہ عالم تھا کہ ایک فل پاور شخصیت کی ڈگری تصدیق کے لیے آئی تو انہوں نے انکار کر دیا، قونصلر صاحب نے کہا کہ تصدیق کردیں مگر انہوں نے کہا کہ آپ لکھ کر آرڈر کریں اور ذمہ داری خود قبول کریں وگرنہ میں تصدیق نہیں کر سکتا، اور بتلایا کہ اس میں ایک تکنیکی مسئلہ ھے، ان کی ملازمت خطرے میں پڑ سکتی تھی مگر اس کی پرواہ کیے بغیر انہوں نے اصول کے مطابق اسے ڈیل کیا۔

بڑا لطیف اور نفیس مزاج تھا، ادب سے بڑا شغف تھا، گفتگو ناپ تول کر کرتے، صاف گوئی میں اپنی مثال آپ تھے، ان کا امتیازی وصف کتاب وسنت پر سختی سے عمل کرنا تھا،کوئی مصلحت آرے نہ آتی، توحید وسنت میں حضرت مولانا سید بدیع الدین راشدی رحمہ اللہ کے طرز عمل پر تھے،بے خوف ھو کر سنتوں کو اپناتے، بعض دفعہ اعتراضات کا سامنا کرنا پڑتا مگر وہ قطعا اس کی پرواہ نہ کرتے، تصویر کشی سے بڑا اجتناب کرتے، جب کیمرے والے موبائل آئے تو کسی نے مذاق میں ان کی تصویر بنا لی، انہوں نے کہا کہ میں تصویر کا قائل نہیں، میری تصویر بن نہیں سکتی، وھی ھوا کہ جس موبائل سے تصویر بنائی گئی تھی وہ خراب ھو گیا، یہ ان کی کرامت تھی۔

جب قونصلیٹ ایف ایٹ سے ایمبیسی میں شفٹ ھوا تو سارا عملہ چھپ چھپا کر ایک کمرے میں نماز پڑھتا، اجتماعی نماز کا سلسلہ نہ تھا، مولانا نے اسی الطلحی صاحب سے بات کی کہ اتنی بڑی ایمبیسی میں نماز کی جگہ نہیں رکھی گئی؟ ھم باجماعت نماز کہاں پڑھا کریں، طلحی صاحب خود کبھی کبھی نماز پڑھتے تھے مگر مولانا کے تقوی وتدین سے بہت متاثر تھے، انہوں نے ایمبیسی کے وسط میں مین ھال کی طرف اشارہ کیا کہ یہاں نماز پڑھا کریں، اگلے دن ھم نے اس جگہ کو نماز کے لیے مختص کر لیا، اذان ھوئی اور ایمبیسی کا سارا عملہ با جماعت نماز پڑھنے لگا، اور آج تک اسی جگہ پر نماز پڑھی جا رھی ھے، یہ بھی ان کا صدقہ جاریہ ھے ان شاءاللہ۔

30 سال سے زائد عرصہ انہوں نے بلا معاوضہ جامعہ مسجد القدس خیابان میں خطابت کا فرئضہ سرانجام دیا، خطبے کے لیے بہت تیاری کرتے، قونصلیٹ میں موضوع پر تبادلہ خیال کرتے، جمعہ کے دن حدیث کی کتاب بھی ساتھ لے کر آتے اور فراغت کے وقت مطالعہ فرماتے، قران مجید کی تلاوت بہت ٹہر ٹہر کر کرتے، خطبہ بڑا موثر اور جامع ھوتا، گویا زبان سے نہیں بلکہ دل سے باتیں کر رھے ھیں،

اللہ تعالی ان کی حسنات کو شرف قبولیت سے نوازے،خطاوں سے تجاوز فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔

تحریر: فضیلۃ الشیخ حافظ مقصود احمد حفظہ اللہ

عطاءالمومن حیدرابادی خطیب جامع مسجد قدس خیابان سر سید راولپنڈی رحمہ اللہ۔ سن 1980 میں جب پہلی مرتبہ شیخ العرب والعجم علامہ سید بدیع الدین شاہ صاحب راشدی رحمہ اللہ سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے سندھ گیا تو اس سال شیخ رحمہ اللہ کے ساتھ مختلف گوٹھوں؛ دیہاتوں اور شہروں میں جانے کا اتفاق ہوا اس دوران میں بہت سے لوگوں کے ساتھ تعارف ہواجن میں عطاء المومن اور ان کے چھوٹے بھائی عطاءالمحسن صاحبان سے تعارف ہوا اس کے بعد ملاقات اور رابطہ رہا جب دوبارہ سن 1987 میں علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ کی شہادت کے بعد شیخ محترم کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان دونوں بھائیوں سے ملاقات ہوئی ان دنوں موصوف جامع مسجد محمدی پکا قلعہ چوک اور عطاء المحسن صاحب (ایم بی بی ایس ڈاکٹر بن چکے تھے) اور لطیف اباد کی مسجد میں خطیب تھے میں نے بتایا کہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیےدوبارہ شیخ صاحب کی خدمت میں حاضر ہو گیاہوں لہذا مجھے خطابت کے لیے مسجد چاہیے انہوں نے کہا کہ سات مساجد ہیں جس میں مرضی اپ خطابت کریں تاخیر ہونے کی بنا پر جب مناظر دیوبندیت؛ محسن اہل حدیث محمد امین صفدر وکاڑوی صاحب نے نیو سعید اباد میں اہل حدیث کے خلاف تقریر کی اس کے جواب میں شیخ محترم نے جلسہ رکھا اور میرے اصرار پر مجھے صرف 20 منٹ ٹائم دیا گیا (اس سے پہلے گاؤں میں شیخ صاحب کی موجودگی میں پانچ منٹ سے زیادہ گفتگو نہ کر سکا اس لیے شیخ صاحب کا خیال تھا کہ یہ 10 منٹ بھی تقریر نہیں کر پائے گا )بہرحال اس موقع پر میں نے 22 منٹ تقریر کی تو شیخ محترم کومعلوم ہوا کہ میرے پاس دیوبندیت کے متعلق بہت زیادہ مواد موجود ہے اسی موقع پر نواب شاہ کی جماعت نے شیخ محترم سے میرے متعلق خطابت کی ڈیمانڈ کی شیخ صاحب نے مجھے نواب شاہ میں خطیب مقرر کر دیا جب حیدر آباد کی جماعت کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے اصرار شروع کر دیا کہ اپ حیدراباد ا جائیں میں اس پر ایگری نہ ہوا تو شیخ محترم سے گزارش کی گئی انہوں نے بھی انکار کر دیا اخر چھ ماہ بعد نواب شاہ کی جماعت نے ایک عالم کو امامت اور خطابت کے لیے مقرر کر لیا یوں میں نواب شاہ سے فارغ ہو گیا جب حیدراباد کی جماعت کو علم ہوا تو انہوں نے شیخ محترم سے رابطہ کیا شیخ صاحب نے حکم دیا تو میں نے مرکزی جامع مسجد محمدی پکا قلعہ چوک میں خطابت شروع کر دی تقریبا پانچ ماہ بعد دونوں بھائیوں نے دوران ملاقات کہا؛ ظاہری صاحب اپ نے تو ہماری خطابت ہی ختم کر دی ہم جتنی روایات بیان کرتے تھے اپ نے ان سب کو ضعیف منکر اور باطل قرار دے دیااور لوگوں کا ہم سے اعتماد بھی اٹھ گیا ۔ ۔ ۔ ۔ نہایت وضع دار؛ خوش اخلاق؛ ملنسار؛ مہمان نواز؛ مخلص؛ متقی پرہیزگار اور مسلمانوں کے ہمدرد تھے اس سب کے باوجود بردرز میں سے تھے (منہجی حضرات کے مطابق عالم نہیں تھے صاحب مطالعہ تھے) اللہ تعالی ان کی بخشش فرمائے جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور ان کی جہود و حسنات کو قبول و منظور فرمائے امین ثم امین ۔ ۔

ابو خزیمہ محمد حسین ظاہری

مولانا عطاء المؤمن رحمه اللّٰه.

جامع مسجد القدس خیابانِ سر سیّد راولپنڈی میں ہم ایک عرصہ فضیلة الشيخ ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر رحمه اللّٰه کی اقتداء میں نماز جمعہ ادا کرتے رہے۔ اچانک انھوں نے یہاں جمعہ پڑھانا چھوڑ دیا تو دل رنجیدہ ہوا کہ ایک علمی اور پُر تاثیر خطبے سے محروم ہو گئے ۔ بعد ازاں ایک دو خطیب آئے لیکن تشنگی برقرار رہی۔ ایک دن جمعہ کے لیے مسجد میں حاضر ہوئے تو آواز و انداز میں درد سا محسوس ہوا اور خطبہ سننے میں دلچسپی و دلجمعی پیدا ہوئی اور یہ خطیب ہمارے ممدوح مولانا عطاء المؤمن رحمه اللّٰه تھے جو توحید و سنت کے سلسلے میں بڑے غیور اور طبیعت کے اعتبار سے سنجیدہ ، کم گو اور باوقار شخصیت کے حامل تھے۔
ہم نے ایک لمبا عرصہ ان کی اقتداء میں بھی جمعہ ادا کیا اور انھیں لوگوں کا خیر خواہ ہی پایا ۔۔۔۔۔۔۔ انھیں زیادہ قریب سے جاننے کا موقع تب میسر آیا جب ان کے ساتھ چند سال سعودی ایمبسی میں کام کیا۔ اس دوران میں عموماً واپسی میرے ساتھ موٹر سائیکل پر ہوتی اور پورے سفر میں علمی مسائل پر گفتگو ہوتی یا خاموشی ۔۔۔۔۔ فضولیات و لغویات سے کوسوں دور تھے۔ زیادہ ہنسنے اور لمبی چوڑی گفتگو کو دل مردہ کر دینے والے امور میں سے سمجھتے اور حتی الامکان اس سے بچتے بھی تھے، بامقصد گفتگو ان کا امتیاز تھا۔
موصوف بڑی خوبیوں سے متصف تھے، چند ایک کا تذکرہ ہم نے یہاں کیا ہے۔ دعا ہے کہ اللّٰه تعالیٰ ہماری گواہی مولانا رحمه اللّٰه کے حق میں قبول فرمائے اور ان کی بشری لغزشوں سے درگزر فرما کر انھیں جنت الفردوس عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین.

تحریر: حافظ ندیم ظہیر صاحب

فضیلۃ الشیخ صاحب رایۃ التوحید والسنۃ الخطیب، الناصح عطاء المؤمن رحمہ اللہ اس دنیا سے رخصت ہوئے، مجھ فقیر سمیت بہت سے اہل توحید شیخ رحمہ اللہ کی حسنات اور شاید صدقۂ جاریہ ہوں، انتہائی نرم لہجہ، لیکن غیرتِ توحید سے بھرپور ایک ہی مسجد میں جوانی سے لیکر تا دمِ مرگ خطیب رہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے شیخ کی حسنات کو قبول فرمائے اور خطاؤں سے درگزر فرمائے۔۔۔
جنازہ کل دوپہر دو بجے، عید گاہ قبرستان میں ہوگا۔ ان شاء اللہ
اہل توحید، اہل حدیث ضرور بضرور شرکت فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا

تحریر: فرحان الہی

یہ بھی پڑھیں: سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا تعارف