ہمارے روحانی والد پروفیسر محمد ظفر اللہ رحمہ اللہ و غفر اللہ لہ ونور اللہ قبرہ کی شہادت کے وقت جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے اساتذہ و طلباء اور دنیا بھر کے علماء نے اللہ سے صبر اور بہترین نعم البدل کی نبوی دعا مانگی، اللہ نے دعا قبول کی اور چودھری عبد الحفیظ رحمہ اللہ پھر ڈاکٹر راشد رندھاوا رحمہ اللہ اور پھر ہمارے محبوب شیخ ضیاء الرحمن رحمہ اللہ کی صورت میں بہترین نعم البدل عطا کیا۔
پروفیسر محمد ظفر اللہ رحمہ اللہ کی وفات کے وقت جامعہ اور آج کی جامعہ کو دیکھ لیں یقین آجائے گا کہ اللہ نے کیسا بہترین نعم البدل عطا کیا تھا۔
جامعہ کی مجلس شوریٰ نے حافظ عبیداللہ کو جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کا نیا مدیر مقرر کیا جسے اساتذہ کی مکمل تائید و اتفاق حاصل ہے۔ ان شاء اللہ حافظ عبید اللہ اسم با مسمی تو پہلے سے ہی ہیں۔ جامعہ سے ان کی قولی و عملی و قلبی محبت کے ہم سب شاہد ہیں۔ جامعہ کے موجودہ تعمیری پراجیکٹس میں ان کی قولی و عملی مشاورت شامل ہے۔
حافظ عبید اللہ صاحب بہاولنگر کے ایک کسان گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں تمام بہن بھائی اعلی تعلیم یافتہ مختلف فیلڈز میں خدمات انجام دے رہے ہیں کچھ آرمڈ فورسز تو کچھ شعبہ تعلیم اور کچھ تجارت سے متعلق ہیں۔
حفظ القرآن بہاولنگر سے ہی کیا تھا اور شاید سکول کی ابتدائی جماعتیں وہیں پڑہی ہیں پھر جامعہ ابی بکر تشریف لے آئے اور یہاں اردو شعبہ متوسطہ کا تین سالہ کورس 1991 میں مکمل کیا اس کے بعد شعبہ عربی کا چار سالہ کورس معہد العلمی الثانوی 1995 میں پاس کیا اور 1996 میں مدینہ یونی ورسٹی کے قرآن کالج میں شعبہ تفسیر اور قراءات میں بی ایس کے چار سالہ کورس میں داخلہ ہو گیا جہاں سے سن 2000 میں فارغ ہوئے۔ فراغت کے بعد برطانیہ کے ایک اسلامی سکول کو بطور استاد جوائن کر لیا۔
حافظ عبیداللہ کا 1995 یا شاید 1996 میں پروفیسر محمد ظفر اللہ رحمہ اللہ کی بڑی صاحبزادی سے نکاح ہوا۔
حافظ عبیداللہ امام مسجد نبوی شیخ علی عبدالرحمن الحذیفی حفظہ اللہ کے خاص شاگردوں میں سے ہیں، قرآن بہت خوبصورت پڑھتے ہیں تقوی و للہیت اللہ کی طرف سے ان پر خاص انعام ہے۔ اردو عربی انگلش تینوں زبانوں کو جانتے ہیں۔
حافظ عبیداللہ ، میں ، شیخ ضیاء الرحمن رحمہ اللہ ، جامعہ کے سینئر استاد شیخ شاھد نجیب، معروف عالم و محدث شیخ عبدالولی حفظہ اللہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں کلاس فیلوز رہے۔ شیخ ظفر اللہ رحمہ اللہ میرے اور حافظ عبیداللہ کے کاغذات خود جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ لے کر گئے تھے جس کے نتیجہ میں حافظ عبیداللہ اور میں ہم دونوں چھ ستمبر 1996 کو بروز جمعہ مکہ کی ایمانی فضا میں موجود تھے اور رات دس بجے مدینہ الرسول میں موجود تھے ۔
جامعہ اسلامیہ کے چار سال ہمارے ایک ساتھ گزرے میں انہیں ہر اعتبار سے اپنے سے بہتر سمجھتا ہوں، اخلاص، تقوی،نماز، روزہ ، صدقات وغیرہ۔
اللہ سے دعا ہے اللہ ہمیں ان کا دست و بازی بننے کی توفیق عطا کرے اور انہیں جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے لیے خیر کا باعث بنا دے آمین۔

فیض الابرار صدیقی