حقیقت یہ ہے کہ مدارس ہوں یا دیگر عصری تعلیمی ادارے کسی بھی ادارے کی یہ ذمہ داری نہیں ہوتی کہ وہ اپنے طلباء کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر بھی سکھائیں۔ ان اداروں کا بنیادی کام صرف اور صرف تعلیم فراہم کرنا ہوتا ہے۔ البتہ اگر ان میں سے کچھ ادارے تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے طلباء کو ہنر سے بھی شناسا کرتے ہیں تو یہ ان اداروں کا طلباء پر احسان عظیم ہوتا ہے۔ لیکن اگر یہ تعلیمی ادارے صرف تعلیم ہی فراہم کرتے ہیں اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں برتتے تو پھر یہ ادارے اپنے مقاصد کے اعتبار سے ہر معاملے سے بری الذمہ ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شخص ان اداروں پر صرف اس لیے تنقید کرتا ہے کہ یہ ادارے تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر کیوں نہیں سکھاتے تو یقیناً ایسا انسان صریح غلطی پر ہوگا۔کچھ چیزیں ہمیشہ یاد رکھیے کہ
1- دینی و عصری تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلباء کا مستقبل ان کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ بہت کچھ سیکھنے اور بہت کچھ کر گزرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر سستی اور کاہلی کے سحر میں جکڑے رہتے ہیں اور فراغت کے بعد تعلیمی اداروں کو کوسنا شروع کردیتے ہیں۔
2- کوئی بھی ادارہ اس ذمہ داری پر طالب علم کو اپنے ادارے میں داخل نہیں کرتا کہ یہ فراغت کے بعد ہنر مند بھی ہوگا، البتہ ان کی یہ ذمہ داری ضرور ہوتی ہے کہ جس مقصد کے لیے وہ اس ادارے میں آیا، کیا وہ مقصد پورا ہوا۔ اس معاملے میں پوچھ گچھ کی جاسکتی ہے اور اداروں پر انگلیاں اٹھائی جاسکتی ہیں۔
3- کسی بھی چیز کی مذمت اور برائی بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے مقابل کوئی بہتر اور متبادل چیز پیش کرنا بھی ضروری ہوتا ہے وگرنہ آپ صرف بول سکتے ہیں بذات خود بھی عاجز ہیں۔
4- جو طلباء تعلیمی اداروں سے فراغت پاتے ہیں خاص طور پر مدارس کے فارغ التحصیل طلباء میں سے اکثریت معاشرے میں صرف یہی سوچ لے کر نکلتے ہیں کہ جو پڑھا بس یہی کافی ہے اور کام بھی اسی کے مطابق کیا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ ایسی سوچ کوئی بھی تعلیمی ادارہ نہیں دیتا، ایسی سوچ طلباء ازخود خود میں پروان چڑھاتے ہیں۔
5- تعلیمی اداروں سے فراغت پانے والے طلباء کوئی بھی کام جلدی اپنی شایان شان نہیں سمجھتے، انھیں لگتا ہے کہ ہماری تعلیم بڑی اعلیٰ ہے لہٰذا کام بھی اسی پائے کا ہونا چاہیے، اس طرح یہ طلباء نہ صرف بے روزگار رہتے ہیں بلکہ معاشرے پر بھی بوجھ ثابت ہوتے ہیں۔ یہ خود اور انھیں اس حالت میں دیکھنے والے سارا ملبہ تعلیمی اداروں پر ڈال دیتے ہیں۔
6- ہم بذات خود جب جامعہ سلفیہ فیصل آباد سے فراغت کے آخری لمحات میں تھے تو استادِ گرامی پروفیسر چودھری محمد یاسین ظفر حفظہ اللہ( پرنسپل جامعہ سلفیہ) نے ہمیں خاص طور پہ ایک نصیحت کی کہ بیٹو! کبھی بھی کوئی چھوٹے سے چھوٹا موقع بھی ضائع مت کرنا، یہ مت سمجھنا کہ تم ایک عالم دین ہو، تمھاری تعلیم بڑی اعلیٰ ہے، اپنا سٹیٹس نہ دیکھنا ملنے والا موقع دیکھنا اور اس چھوٹے سے موقع سے فائدہ اٹھانا، ان شاءاللہ، اللہ تعالیٰ اسی چھوٹے سے موقعے سے تمھارے لیے بڑے بڑے مواقع پیدا کرے گا۔
7- یقین جانیے کہ ہنرمندوں کو بھی ہم نے بےروزگار اور بھکاری دیکھا اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بغیر ہنر بہترین روزی پاتے دیکھاہے۔
8- تعلیمی اداروں خاص طور پر مدارس کو کوسنا بند کیجیے، البتہ ان کو تعلیم میں بہتری کی تجاویز دی جاسکتی ہیں، تعلیمی معاملے میں ان پر تنقید کی جاسکتی ہے۔تعلیمی اداروں کو بھی چاہیے کہ تعلیم کو مزید بہتر سے بہتر بنانے میں ایسی تجاویز اور تنقید کو خندہ پیشانی سے برداشت کیجیے اور بھرپور عمل کی کوشش کریں۔
9- حرف آخر یوں کہیے کہ تعلیمی اداروں سے فراغت کے بعد ہر انسان کی اپنی اپنی دوڑ ہوتی ہے، چاہے وہ خود کو ضائع کرلے یا پھر معاشرے میں اپنا لوہا منوالے کہ رب بھی یہی کہتا ہے
وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى
مزید تاکید سمجھیے کہ
إِنَّ اللَّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ

ازقلم: محمد عابد رحمت، فاضل جامعہ سلفیہ فیصل آباد

یہ بھی پڑھیں:عصری جامعات سے وابستہ فضلائے مدارس کا اخلاق و کردار