تقویٰ تحصیلِ علم میں معاون ہے۔ تقویٰ کے معنی یہ ہیں کہ آدمی جس چیز سے خائف ہو، اس سے بچاؤ کے لیے اپنے اور اس کے درمیان کوئی آڑ بنالے۔ رب تعالیٰ سے تقویٰ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنے اور رب تعالیٰ کے غیظ و غضب کے درمیان آڑ بنالے۔ وہ آڑ ہے نیکیوں کی بجا آوری اور گناہوں سے اجتناب۔
دوام اور ثابت قدمی بھی تحصیلِ علم میں معاون ہے۔ طالبعلم تحصیلِ علم کے سلسلے میں صبر و ضبط اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرے۔ تحصیلِ علم کے بعد وہ علم کی حفاظت کرے اور اسے بھلائے نہیں۔ تحصیلِ علم کے لیے خود کو تھکانا پڑے گا۔ طالبعلم حصولِ علم کے تمام ذرائع اختیار کرے۔ وہ راتوں کو جاگ کر غیر معمولی محنت کرے۔ طلبِ علم سے توجہ ہٹانے والی ہر چیز کو وہ ترک کر دے۔
طالبعلم جو کچھ سیکھے، اسے یا تو سینے میں محفوظ کرے یا نوٹ بک میں لکھ کر محفوظ کرے۔ آدمی بھول پن کا شکار رہتا ہے۔ اگر وہ علم کو دہرائے گا نہیں تو علم بھول کر ضائع ہو جائے گا۔
طالبعلم کے لیے ضروری ہے کہ اول وہ اللّٰہ سے مدد طلب کرے، اس کے بعد وہ اہل علم اور ان کی تحریروں سے مدد لے کیونکہ اگر وہ ذاتی مطالعے پر اکتفا کرے گا تو تحصیلِ علم کے لیے اسے طویل وقت درکار ہوگا۔ اس کے برعکس وہ کسی عالم کی مجلس اختیار کرے جو اس کے لیے علم کی شرح کرے اور راستے کو روشن کر دکھائے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ علم صرف مشائخ سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انسان بعض دفعہ ذاتی مطالعے سے بھی علم کو پا لیتا ہے تاہم اکثر و بیشتر یہ ہوتا ہے کہ اگر وہ دن رات کتابوں پر جھکا رہے اور کچھ فہم حاصل کر بھی لے تو ایسے فہم میں بڑی غلطیاں راہ پا جاتی ہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ جس کی رہنما صرف کتاب ہو، اس کی خطائیں زیادہ ہوتی ہیں اور راستیاں کم۔ تاہم در حقیقت یہ بات مطلق طور پر درست نہیں۔ اس کے باوجود زیادہ بہتر یہی ہے کہ وہ مشائخ سے علم حاصل کرے۔

امام عثیمین رحمه الله کی ایک اہم تصنیف “کتاب العلم” سے چند ضروری نکات۔ (ح ق ح۔)

حافظ قمر حسن