وطنِ عزیز کےاعلیٰ تعلیم یافتہ معروف صحافی،ادیب،دانش ور،نقاد اور ہدایت کار، محترم جناب آفتاب اقبال صاحب کی ذات محتاج تعارف نہیں۔وہ ایک عرصے سے مختلف ٹیلی وژن چینلوں پر شو منعقد کرتے چلے آرہے ہیں۔اردو بولنے اور سمجھنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان کے شو دیکھتی ہے اور محظوظ ہوتی ہے۔ان کے پروگراموں میں ہلکے پھلکے مزاحیہ انداز (جو مزاح کی حدوں کو پار کر کے مذاقیہ اور طنزیہ انداز بھی اختیار کر جاتا ہے)میں معاشرتی مسائل کی نشان دہی کی جاتی ہے اور ان کا حل تلاش کیا جاتا ہے، سامعین تاریخی مقامات سے واقفیت حاصل کرتے ہیں، نام ور شخصیات سے متعلق معلومات ملتی ہیں،زبان وبیان کی درستی اور تلفظ کی تصحیح بھی ہوتی ہے۔القصہ ان کا پروگرام معاشرتی مسائل کی واقفیت،حالات حاضرہ کی معرفت،اصلاح احوال کی سعی اور واقفیت عامہ کے حصول کے لیے بہت مفید ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے 23دسمبر 2020 کو انھوں نے اپنے پروگرام میں ایک فرضی مطب بہ نام ” ایٹم دواخانہ ” لگوا اطبا کو بد نام کرنے کی کوشش کی۔خیر! عزت و ذلت تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔انھوں نے طبابت جیسے معزز پیشے کے بارے میں کہا:
” ۔۔۔ کام برا ہے،گندہ ہے،بلکہ میں سمجھتا ہوں غلیظ ہے۔”
اور اپنے فرضی حکیم کو خبیث کہ کر پکارا،اور مزید کہا:
” میں نے بڑے بڑے خبیث حکیم دیکھے ہیں۔”
ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ سلجھے ہوئے شخص نے،معلوم نہیں اپنے قد کاٹھ سے بہت پست الفاظ ایک نہایت معزز طبقے کے لیے کیوں استعمال کیے؟ انھوں نے یہ نامناسب الفاظ ایسے علم کے حاملین کے لیے استعمال کیے، جس علم کے بارے میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ طب الہامی ہے۔ابو جابر مغربی نے طب کو الہامی ثابت کرنے کے لیے بہت سے دلائل پیش کیے ہیں، بقراط بھی طب کو الہامی سمجھتے تھے۔اسی طرح ابو الاطبا اسقلی بیوس اور جالینوس بھی اسے الہامی گردانتے تھے،نیز یہودیوں،صابیوں، ہندؤں،مجوسیوں، زرتشتیوں کے ہاں بھی یہ علم الہامی یا کشفی تسلیم کیا جاتا تھا۔محقق موفق الدین اسعد بن الیاس بھی طب کو الہامی قرار دیتے ہیں۔ اس اظہر من الشمس حقیقت سے واقفیت کے بعد آفتاب اقبال صاحب کے ایک سامع وناظر کی حیثیت سے جب ان کے منھ سے ایسے نازیبا الفاظ سنے تو میرا سر شرم سے جھک گیا کہ وہ یہ الفاظ بیان کرتے ہوئے اپنی پوری تاریخ ہی کو فراموش کر بیٹھے ۔اگر انھیں طب وحکمت کا معنیٰ معلوم نہیں تھا تو فرہنگ آصفیہ میں خود ان الفاظ کے معانی ملاحظہ کر لیتے اور اطبا اور طب کے لیے اپنے رویے پر نظر ثانی کر لیتے۔اگر تاریخ طب میں دیکھ لیتے توحضرت شیث ابن آدم علیہ السلام ،حضرت ادریس علیہ السلام، اسقلی بیوس، اقلیدس، افلاطون،سولن،بقراط، سقراط، اسقلی بیوس، جالی نوس،غورث مینس ،برمائیدس،
امون،اقطمن،ابیدولیس ،
سکندرفردوسی،اناکس ماندریز، اقریطون، اندروماخس، ارستحانس،اوریباسیوس،بولس، ثاوفرسطس،انقیلاوس،ابلن، برقطوس اور ہنس جیسے نامی گرامی اطبا کے کارنامے نظر آ جاتے۔
اسلامی دور کی تاریخ طب میں نظر ڈالتے تو اس میں ابو سہل مسیحی،خالد بن یزید، ابن ربن طبری، زکریا رازی، علی بن عباس مجوسی، شیخ الرئیس ابن سینا، جابر بن حیان، زہراوی، اسماعیل جرجانی، عبد الطیف بغدادی، علاء الدین قرشی، برہان الدین نفیس، کمال الدین ایرانی، محمود آملی،علی حسین گیلانی، ابنِ زہر، ابن الہیثم، فخر الدین رازی،نجیب الدین ثمر قندی، ابنِ رشد، ابنِ بطلان، اور البیرونی ایسے محسنوں کے کار ہائے نمایاں کا علم ہو جاتا۔اور ہندوستان کی ماضی قریب کی طبی تاریخ کی ورق گردانی کرتے توحکیم اجمل خان،حکیم عبد العزیز لکھنوی، حکیم انقلاب دوست محمد صابر ملتانی، حکیم محمد حسن قرشی، حکیم کبیر الدین، حکیم عبداللہ، حکیم عبد الرحیم جمیل،حکیم عبد الرحیم اشرف، حکیم عبدالحق امرت سری،
حکیم عنایت اللہ نسیم، حکیم محمد سعید شہید،حکیم عبد السلام ہزاروی، حکیم عبد الوہاب انصاری، حکیم فصیح الدین چغتائی، حکیم محمد رفیق حجازی، حکیم غلام جیلانی، حکیم فقیر محمد چشتی، ڈاکٹر خالد غزنوی، حکیم علی احمد نیر واسطی، حکیم مظفر حسین اعوان، حکیم فیروز الدین اجملی، حکیم یسین دنیا پوری، حکیم ملک خیر دین ڈوگر، حکیم ٹھاکر دت شرما وغیرہ کی طبی کرامات سے واقف ہو جاتے۔ یہ تو ماضی قریب میں گزرے ہیں، ان کا زمانہ بہت دور کا نہیں، ان کی حذاقت ولیاقت کے قصے تو ابھی زبان زد عام ہیں۔ یہ اور ان جیسے سیکڑوں اطبا پاکستان کی تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہیں۔
انھوں نے اپنے شو میں یہ بھی کہا کہ حکیم لوگ گردے،جگر وغیرہ خراب کرتے ہیں، تو گزارش یہ ہے کہ کشتہ جات بنیادی طور پر طب یونانی،یا اسلامی میں نہیں بلکہ یہ تو ہزاروں سال سے مقامی ہندی طب ایورویدک میں استعمال ہوتے آئے ہیں،سیکڑوں سال تک اس علاج کو سرکاری سرپرستی حاصل رہی اور صحت کی صورت حال بھی اس زمانے میں موجودہ زمانے سے بہتر تھی اس پر مستزاد شرح اموات بھی کم،عمریں بھی طویل۔طب اسلامی میں کشتہ طب ہندی یعنی ایورویدک سے آیا اور اس کی افادیت کے پیش نظر اسے قبول کیا گیا۔کشتہ اگر مشرقی طب میں استعمال ہوتا ہے تو مغربی طب میں بھی استعمال ہوتا ہے۔اگر مشرقی طب کے کشتے گردے،جگر تباہ کرتے ہیں تو مغربی کے بھی کرتے ہوں گے۔اگر وہ مفید ہیں تو ان کے مفید ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ویسے بھی اطبا دوا سے زیادہ غذا ،پرہیز اور تہذیب نفسیات پر توجہ دیتے ہیں ۔ یادش بخیر! طبی ڈپلومہ کے حصول کے لیے میٹرک کے بعد کم ازکم چار پانچ سال درکار ہوتے ہیں اور طبی ڈگری کے حصول کے لیے ایف ایس سی کے بعد پانچ چھ سال صرف ہوتے ہیں،اس کے بعد ہیلتھ کیئر کمشن سے پریکٹس لائسنس حاصل کرنا پڑتا ہے۔گویا یہ طبیب کالجوں اور یونی ورسٹیوں ہی میں تیار ہوتے ہیں۔پندرہ اور اٹھارہ سال کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ اطبا پر تنقید کرنے کے لیے اصحابِ دانش نہایت عمدہ الفاظ اور انداز اختیار کیا کرتے ہیں۔ کیا اطبا کے علاوہ کسی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کے لیے ایسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں یا صرف شرفا کی پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں؟
موصوف آفتاب اقبال صاحب عرف عام میں مستعمل لفظ حلیم برائے سالن خاص قسم کے لیے استعمال کرنے کے سخت مخالف ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ “حلیم” اللّٰہ تعالٰی کا صفاتی نام ہے اس لیے لحیم کہنا چاہیے،یہ بہت اچھی بات ہے، لیکن انھوں نےدوسری طرف اللّٰہ تعالٰی کے ایک دوسرے صفاتی نام ” حکیم” کے لیے ایسے الفاظ استعمال کیے کہ تقدیس کی حرمت ہی پامال کردی۔انھوں نے اپنے شو میں یہ بھی کہا کہ لوگ ایسے (جعلی) حکیموں کی ہمیں رپورٹ کریں۔ عرض یہ ہے کہ پاکستانی اطبا اور ان سے متعلقہ امور کو نظم وضبط اور قانون کا پابند رکھنے کے لیے قومی طبی کونسل، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان،
ہیلتھ کیئر کمشن اور قابلِ احترام عدلیہ موجود ہے۔ان اداروں کی موجودگی میں کوئی کیوں کر موصوف کو رپورٹ کرے اور یہ کس مقصد کے لیے لوگوں کو ترغیب دی گئی ہے؟۔۔۔۔ملک و قوم کے ساتھ اخلاص اور ہم دردری کا تقاضا یہ تھا کہ وہ یوں کہتے کہ جہاں کہیں نظامِ طب واطبا میں کوئی خرابی اور سقم دیکھیں تو متعلقہ ادارے کو مطلع کر دیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے، اور متحد ہو کر طب اسلامی کے دفاع کے لیے جد وجہد کرنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔

حکیم مدثر محمد خاں

نگران مجلہ: تفہیمِ طب