عجب داستان ہے دیکھیے! کیسے شروع ہوئی اور کیسے ختم ہو گئی.
ماموں کانجن وسطی پنجاب کا چھوٹا سا قصبہ ہے جو سمندری سے کچھ پرے واقع ہے، اس میں ایک روز مٹی گارا ڈھوتے ہوئے ایک نوجوان کو صوفی محمد عبداللہ نے پاس بلایا، مدرسہ تعمیر ہو رہا تھا اور ظفر اللہ نامی یہ نوجوان ادھر طالب علم تھا جو بہت محنت سے اور لگن سے کام کر رہا تھا. اس لگن اور محنت کو دیکھ کر صوفی محمد عبداللہ نے اسے پاس بلایا اور کہا:

“جی چاہتا ہے تیرے لیے کوئی اچھی سی دعا کروں…”

تو ظفر نے کہا:

“حضور! ایسی دعا کیجئے کہ ظفر ظفر مند ہو جائے…..”
“دعا کیجئے کہ دین کا کوئی بڑا کام اللہ مجھ سے لے لے……”

صوفی محمد عبداللہ رحمہ اللہ نے ہاتھ اٹھا دیے. یہی ظفر بعد میں پروفیسر ظفر اللہ کے نام سے جانے گئے اور یوں ظفر مند ہوئے کہ قامت کی بلندی کو دیکھیں تو آنکھیں آسمان کو چار ہوں…!
گردش شب و روز نے کراچی پہنچا دیا اور ابھی طالب علم ہی تھے کہ جامعہ ابی بکر کے نام سے ادارہ قائم کیا، زمین خرید کی. کمال دیکھیے گا، ادارہ قائم کر کے خود سعودی عرب پڑھنے چلے گئے اور پانچ سال وہاں علم حاصل کیا اور واپس آ کر جامعہ ابی بکر کو پوری توجہ سے چلانا شروع کیا… کبھی اس کے ایک ذیلی شعبے الفرقان سے میرا بھی خاصا گہرا تعلق رہا جو سعودی عرب میں قائم تھا.
چار دانگ عالم اس ادارے کی شہرت تھی اور شہرت کا سبب اس کا اعلی تعلیمی معیار تھا جو پروفیسر ظفر اللہ رحمہ اللہ کے ذاتی ذوق اور شوق کا نتیجہ تھا…!
یہ تین جون انیس سو ستانوے کا دن تھا کہ لاہور سے کراچی کے لیے نکلے.. رحیم یار خان کے قریب گاڑی تیز رفتاری کا سبب بے قابو ہوئی اور درخت میں جا لگی. پروفیسر ظفر اللہ، ان کے دو بیٹے، ایک خالہ اور ایک بھانجا؛ پانچ کے پانچ افراد لقمہ اجل ہو گئے، قصہ بن گئے اور تاریخ ہو گئے…!!
آپ کے تین بیٹے تھے جن میں سے دو بیٹے اس حادثے میں آپ کے ساتھ ہی دنیا سے رخصت ہوئے تو پیچھے ایک ہی بیٹا ضیاء الرحمان بچ گیا.. غالباََ ضیاء الرحمان کی عمر تب بیس بائیس برس رہی ہو گی اور کل ضیاء الرحمن بھی دنیا سے رخصت ہو گئے… اور اب جب میں لاہور میں بیٹھے ہوئے یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو کراچی میں ضیاء الرحمان کے جنازے کے لیے صفیں سیدھی کی جا رہی ہوں گی. آنسو ہیں جو ادھر بھی بہہ رہے ہیں اور آنسو ہیں جو ادھر بھی برسات کیے دے رہے ہیں. ہر آنکھ آج پر نم ہے اور ہر دل دل حزیں ہے.. گلیاں اداس ہیں اور دیواریں مرثیہ گو، یوں جیسے منبر و محراب بھی آج آنسوؤں میں تر ہیں..!!

حتى المحاريبُ تبكي وهي جامدةٌ
حتى المنابرُ ترثي و هي عيدانُ

ہم لوگ معمولی سے صدموں کا شکار ہوتے ہیں اور جانتے ہیں کہ جیسے دنیا جہان کا غم ہم پر ٹوٹ پڑا ہے.. حادثے، غم، دکھ اس کو کہتے ہیں کہ ضیاء الرحمان رحمه الله تعالٰی کی بوڑھی ماں آج گھر کے لان میں اپنے بیٹے کو اس صورت رخصت کر رہی ہیں کہ اس سے پہلے اپنا خاوند اور دو بیٹے اسی طرح اللہ کے حوالے کر چکی ہیں.. تین ہی بیٹے تھے اور تینوں خاوند سمیت ماں کی زندگی میں رخصت ہوئے…!!
خود ضیاء الرحمن کہ جن کی عمر اب سینتالیس برس تھی اور ان کی دو ہی بیٹیاں ہیں اور دونوں ابھی کم عمر ہیں؛ دیکھیے کیسے گھر خالی ہو گیا…!!

اللہ رے سناٹا کہ آواز نہیں آتی

دین سے محبت اور دل کے اندر اترا ہوا گہرا تقوی؛ اس خاندان میں ایسا تھا کہ ضیاء الرحمان تعلیم سے فارغ ہو کے جب ادارے کے معاملات کو دیکھنے لگے اور ساتھ ہی ساتھ بطورِ استاد یہاں پر پڑھانے لگے تو ان کی دوسرے استادوں کی طرح تنخواہ مقرر تھی..!
ذاتی کاروبار شروع کیا؛ کچھ برس میں کام چل نکلا اور مالی تنگی آسانی میں بدل گئی تو جتنے برس ادارے سے استاد کے طور پر تنخواہ لی تھی؛ وہ ساری رقم ادارے کو واپس کر دی..!! احباب یہ عظمتیں ہوتی ہیں جو ہم سے روٹھ رہی ہیں، رخصت ہو رہی ہیں.. یہ تقوی کی وہ منزلیں ہوتی ہیں جو کبھی کبھی نظر آتی ہیں اور نسلوں کو مبتلائے محبت رکھتی ہیں….!!
برادر ضیاء الرحمن کا ایک ویڈیو کلپ سنا، کس طرح گلوگیر ہو کر کہہ رہے ہیں:
” اگلے جہاں میں بس یہی ایک حسرت ہو گی کہ جو وقت بنا عبادت کے اور اللہ کے ذکر کے گزارا، کاش وہ بھی عبادت میں گزارا ہوتا….”
اور میں سوچ رہا ہوں کہ آپ کی تو موت بھی، ان شاءاللہ، شہادت کی موت ہو کر ایک عظیم عبادت ہو گئی….
تو میرے بھائی شہادتوں کے انعامات سمیٹو، کاہے کی حسرتیں….!!!

ابوبکر قدوسی