ہزاروں علماء کے معلم و مربی اور لاکھوں لوگوں کے دلوں کی رونق، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون..!!

میں عصر کی نماز کے بعد کرسی پر بیٹھا فون کال کررہا تھا کہ ساتھ والا ایک بھائی آکر ایک دم ہی کہ دیتا ہے “بھٹوی صاحب فوت ہوگئے ہیں”
میں جو فون کال سن رہا تھا ایک دم ساکت و جامد ہوجاتا ہوں گویا کہ زبان گنگ ہوگئی ہے یا اس پر قفل پڑ گئے ہیں”
فون والا بات سنائے ہی جارہا ہے کوئی نہیں پتہ کیا کہے جارہا ہے میں آنکھیں نکال کر خبر دینے والے کی طرف گھور گھور کر دیکھے جارہا ہوں اور کچھ کہ نہیں سکتا
یوں لگتا ہے کہ دل کہیں ایسی غیابت میں ڈوب چکا ہے جہاں سے کچھ نظر نہیں آرہا کہ کہاں سے روشنی لوں اور کہاں سے حوصلہ پکڑوں,
یا الله صبر۔۔۔۔۔!!
بالآخر ایک ہی لفظ نکتا ہے ” اچھا۔۔۔۔۔۔!!!!
اس لفظ کے پیچھے کیا حیرت و پریشانی کی مخلوط کیفیت تھی یہ صرف الله جانتا ہے۔
میں کرسی پر بیٹھا ہوں جسم یوں ساکت ہے کہ جیسے یہ کبھی حرکت ہی نہ کرتا تھا۔
میں کال بند کرتا ہوں اور سوچ میں بیٹھ جاتا ہوں کہ یہ میں نے کیا خبر سن لی..!!!!

یقیناً یہ کیفیت صرف میری نہیں تھی بلکہ حافظ صاحب کو جاننے والے ہر طالب علم کی ہوگی۔۔!
حافظ صاحب کے بارے جب بھی زندگی میں کبھی تذکرہ سنا تو ہمیشہ عقیدت مندانہ تھا اگر کوئی نقد کرنے والا بھی تذکرہ کرتا تو براہ راست تنقید کی جسار وہ بھی نہ رکھتا تھا.

حافظ عبدالسلام بن محمد بھٹوی” نام جب بھی کانوں میں پڑتا اعتدال و تحمل، علم و حکمت کے جذبات و احساسات دل میں ایسے سمو جاتے کہ یوں لگتا جیسے ان صفات کا حامل مجسمہ میرے سمنے کھڑا ہو اور میں اسے تکتا ہی رہ جاؤں۔!

بھلے جتنی مرضی زور و شور کا مباحثہ ہورہا ہو اور طرفین سے جنگ و جدل والی کیفیت طاری ہو اور “بھٹوی صاحب” نام کسی زبان سے نکل جائے’ ھیجان و تشدد کی کیفیت دور ہوجاتی جذباتی اور جارحانہ انداز پست ہوجاتا ہے عقیدت و احترام کا جذبہ ابھر کر ھیجانی مزاج پر غالب آجاتا۔
حضرت بھٹوی صاحب کتنے معتدل اور فرقہ واریت سے دور تھے اسکی مثال کیلئے یہی کافی ہے کہ اھل حدیث کی ذیلی جماعتیں ہوں یا دیگر مسالک کے مکتبہ فکر، تمام کے تمام علماء کی نظر میں حافظ بھٹوی صاحب کا احترام ہے اور انکی تصانیف و تقاریر سے بلا تعصب استفادہ کرتے ہیں۔

عمیر رمضان فانی

آج حافظ عبد السلام بن محمد حفظہ اللہ کی وفات کی خبر سن کر دل بہت غمگین ہے

الحمدللہ اسی سال 2023ء بمطابق 1444ھ کو میں نے آپ سے الجامع الصحیح ۔۔۔۔پڑھی ۔۔۔
چند ماہ قبل کی بات ہے کہ حافظ صاحب رحمہ اللہ کو دوران اسیری جب آپکی طبیعت کچھ خراب ہونا شروع ہوئی تھی تو حافظ صاحب نے مجھے کہا کہ آپ ہمیں جمعہ پڑھاؤ میں حیران رہ گیا لیکن میرے لیئے یہ اعزاز کی بات تھی۔ایک بار جمعہ پڑھایا حافظ صاحب کے سامنے جمعہ پڑھانا سورج کو چراغ دکھانے والی بات تھی ۔۔۔
“کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ”

خیر کچھ دیر بعد پھر حافظ صاحب نے کہا کہ دوبارہ جمعہ پڑھاؤ پھر موقع مل گیا جمعہ پڑھایا پڑھانے کے بعد حافظ صاحب نے کچھ تصحیح بھی کی اس کے بعد بیٹھے تھے کہ حافظ صاحب کہنے لگے خطیب صاحب کو کھانا لا دیں بھائی پوچھنے لگے آپ نے بھی کھانا ہے کہنے لگے اسی بہانے ہم بھی کھا لیں گے۔۔۔
(عاجزی انکساری کا یک پہلو)

اس طرح مجھے حافظ صاحب کے سامنے دو بار جمعہ پڑھانے کا اعزاز حاصل ہے جمعے کے بعد حافظ صاحب نے کچھ نصیحت کی اور جو ساتھی باقی اسیر تھے ان کو کہنے لگے شاہ جی کا گھر یہاں سے تھوڑا دور ہے باقی لڑکے سکن سے آتے تھے کلاس میں لیکن لیٹ ہو جاتے تھے لیکن شاہ ٹائم نال آجاندا سی نالے کول کر کے بیندا ہندا سی۔۔۔۔۔
اور کئی لحاظ سے تعریف کی(اور یہ حافظ صاحب کا معمول تھا طالب علم اگرچہ کند ذھن ہی کیوں نا ہو آپ اسکی تعریف کچھ نا کچھ ضرور کرتے تھے تاکہ اس کے اندر یہ صلاحیت پیدا ہو اور وہ کچھ کر سکے) پھر ہم نے اکٹھے کھانا کھایا واللہ میں اب بھی ان لحظات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں اور حافظ صاحب کی طلباءکرام سے محبت یاد کر کے دل رو رہا ہے۔۔۔
(طلباءسے محبت کا ایک پہلو)

کچھ دن پہلے حافظ صاحب کے ساتھ ایک اسیر بھائی نے بتلایا کہ ڈاکٹر نے آپ کو کام کرنے سے روکا تھا لیکن آپ پھر بھی جہد مسلسل کے ساتھ روزانہ کچھ نا کچھ احادیث لکھتے رہتے تھے۔
(حدیث رسول سےمحبت کا ایک پہلو)
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” انسان جب فوت ہو جاتا ہے تو تین صورتوں کے علاوہ اس کے سب عمل منقطع ہو جاتے ہیں (اور وہ یہ ہیں) جاری رہنے والا صدقہ ‘ وہ علم جس سے نفع اٹھایا جاتا رہے اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی رہے ۔ “

اور حافظ صاحب یہ تینوں چیزیں ہی چھوڑ کر گئے ہیں۔

1صدقہ جاریہ=یہ کہ آپ ہزاروں طلباء کو تیار کر گئے جو آج بھی آگے تدریس کر رہے ہیں اور ایک ناتمام ہونے والا صدقہ جاریہ بن رہے ہیں۔

2علم= تفسیر اور شروحات حدیث کی صورت میں تفسیر القرآن الکریم کے نام سے تفسیر لکھی جو بے پناہ مقبول ہے اور شرح بخاری لکھ رہے تھے جو کہ آخری مراحل میں تھی۔

3نیک اولاد=آپ کے ماشاء اللہ تمام بیٹے حفاظ ہیں بلکہ مدرس ہیں اور اپنی اپنی جگہ دین کا کام کر رہے۔

اللھم ادخلہ الجنة ونور مرقدہ واغفر خطایاہ ۔۔۔آمین یا رب العلمین

سید عبد اللہ حسن

حافظ عبدالسلام بن محمد پاکستان کے معروف عالم دین اور مفسر قرآن ہیں۔آپ پچاس سال سے زیادہ عرصہ شعبہ تدریس سے وابستہ رہے۔ متعدد دینی کتب کے مولف اور مترجم بھی ہیں۔ جامعہ الدعوة الاسلامیہ مرکز طیبہ مرید کے، کےبانی مدیر ہیں اور اس جامعہ کے ماتحت ملک بھر میں 150 پچاس سے زائد مدارس دینیہ کے نگران اعلیٰ تھے۔
پیدائش:
حافظ عبدالسلام بن محمد قیام پاکستان سے ایک سال قبل 27 اگست 1946ء بمطابق 29 رمضان المبارک 1365ھ میں اپنے ننھیال گوہڑ چک، پتوکی ضلع قصور میں پیدا ہوئے۔ آپ کا گاﺅں بھٹہ محبت ہے، جو تحصیل دیپالپور ضلع اوکاڑہ میں واقع ہے۔ اسی نسبت سے آپ بھٹوی کہلاتے ہیں۔ آپ کے والد حافظ محمد ابو القاسم بھٹوی بھی جید عالم دین تھے۔
تعلیم:
حافظ عبدالسلام بن محمد نے میٹرک اور حفظ القرآن کے بعد دینی تعلیم جامعہ محمدیہ اوکاڑہ اور جامعہ سلفیہ فیصل آباد سے مکمل کی۔ آپ فاضل عربی، فاضل فارسی اور فاضلِ طب جدید نظریہ مفرد اعضاء کی سند رکھتے تھے۔
تدریس:
حافظ عبدالسلام بن محمد نے تدریس کی ابتدا جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ سے کی۔ آپ 1966ء سے 1992ء تک ستائیس سال جامعہ محمدیہ سے وابستہ رہے۔ اس دوران ایک سال جامعہ تدریس القرآن والحدیث راولپنڈی (موجودہ جامعہ سلفیہ اسلام آباد) میں بھی درس و تدریس کی۔ 1992ء میں مستقل طور پر مرکز طیبہ مرید کے، شیخو پورہ منتقل ہوگئے اور جامعہ الدعوة الاسلامیہ کی بنیاد رکھی۔آپ اس جامعہ کے بانی مدیر ہیں اور یہاں سے فارغ التحصیل ہزاروں طلبہ کے استاد ہیں، جن میں متعدد معروف علمائے کرام بھی شامل ہیں۔
خطابت:
حافظ عبدالسلام بن محمد خطبات جمعہ، درس قرآن و حدیث اور فتاویٰ کے لیے بھی پاکستان میں معروف ہیں۔ آپ نے 1966ءمیں مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمة اللہ علیہ کی تاکید پر جامع مسجد بلال سیٹیلائٹ ٹاﺅن گوجرانوالہ میں خطابت کا آغاز کیا۔ بعدازاں شیخ الحدیث مولانا عبداللہ رحمة اللہ علیہ کے حکم پر ایک سال جامعہ تدریس القرآن و الحدیث راولپنڈی میں صحیح بخاری اور دوسری کتب کی تدریس کے ساتھ خطبہ جمعہ بھی دیتے رہے۔ گوجرانوالہ واپسی کے بعد جامع مسجد اہل حدیث وحدت کالونی میں خطبہ جمعہ دیتے رہے۔ کچھ عرصہ بعد پیپلز کالونی کی مرکزی جامع مسجد الفتح میں مولانا عبداللہ رحمة اللہ علیہ کی تاکید پر خطبہ جمعہ پڑھانا شروع کیا۔ 1988ءسے مستقل طور پر آپ وہیں جمعہ اور عیدین کا خطبہ دیتے آئے ہیں۔ ان دو موقعوں پر یہاں بہت بڑا اجتماع ہوتا ہے۔
تالیفات:
حافظ عبدالسلام بن محمد تدریس، خطابت اور طب و حکمت کا شغف رکھنے کے ساتھ تحریر و تحقیق سے بھی گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ آپ قرآن مجید کا آسان فہم اردو ترجمہ کرنے کے علاوہ تفسیر القرآن الکریم کے نام سے چار جلدوں پر مشتمل قرآن مجید کی تفسیر بھی لکھ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کی معروف تالیفات اور تراجم میں
فتح السلام بشرح صحيح البخاری الإمام ،
شرح کتاب الجامع من بلوغ المرام،
شرح کتاب الطہارہ من بلوغ المرام،
مقالات طیبہ،
احکام زکوة و عشر،
ترجمہ اسلامی عقیدہ،
ترجمہ حصن المسلم،
ہم جہاد کیوں کر رہے ہیں؟،
مسلمانوں کو کافر قرار دینے کا فتنہ،
مسلمانوں میں ہندوانہ رسوم و رواج،
حلال و حرام کاروبار شریعت کی روشنی میں اور ایک دین چار مذاہب جیسی تالیفات تحریر کرچکے ہیں۔
نظر بندی:
اکتوبر 2019ء میں حافظ صاحب کو جماعة الدعوة سے تعلق کی بنا پر حافظ محمد سعید اور دیگر رفقا کی طرح ضعیف العمری اور علالت کے باوجود نظر بندی کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ پر دہشت گردی کی مالی معاونت کا الزام ہے لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے اسی نوعیت کے ایک مقدمے میں آپ کو جون2020ء میں ایک سال قید اور بیس ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ تاہم دو ماہ بعد اگست 2020ء میں لاہور ہائی کورٹ نے آپ کی سزا معطل کرکے آپ کو ضمانتی مچلکوں کے عوض رہا کرنے کا حکم جاری کیا، لیکن دو ہفتے بعد ہی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے دہشت گردی کی مالی معاونت کے ایک اور الزام میں آپ کو مجموعی طور پر ساڑھے16 سال قید اور ڈیڑھ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔
وفات:
حافظ عبدالسلام بن محمد 77سال کی عمر میں نظربندی کے مرحلے کے دوران ہی 29مئی 2023ء کو انتقال کرگئے۔ اورعاجزی, انکساری ,تواضع, حلم, ذھانت علم کا ایک باب بند ہو گیاہم ایک عظیم مفسر،محدث ,مفسر ,مدرس سے محروم ہو گئے۔

إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ

اللَّهُمَّ، اغْفِرْ له وَارْحَمْهُ، وَاعْفُ عنْه وَعَافِهِ، وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ،وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ، وَاغْسِلْهُ بمَاءٍ وَثَلْجٍ وَبَرَدٍ، وَنَقِّهِ مِنَ الخَطَايَا كما يُنَقَّى الثَّوْبُ الأبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ، وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِن دَارِهِ، وَأَهْلًا خَيْرًا مِن أَهْلِهِ، وَقِهِ فِتْنَةَ القَبْرِ وَعَذَابَ النَّارِ-

اللّٰہ تعالیٰ مفسر قرآن وحدیث وتفسیر استاذ العلماء شیخ حافظ عبد السلام بھٹوی کی بخشش فرمائے اور اسلام کی تبلیغ اور اشاعت کے لیے ان کی خدمات کو قبول فرمائے آمین یارب العالمین

(وکی پیڈیا وغیرہ)

محدث جلیل عالم کبیر مفسر قرآن عظیم استاد بلند پایہ مقرربے مثال مصنف و محقق حافظ عبدالسلام بھٹوی صاحب انتقال کرگئے. انا للہ و انا الیہ راجعون. آپ سے کئی نسبتیں ہیں۔ نانا جان حافظ محمد گوندلوی کے ارشد تلامذہ میں شامل تھے اور بابا شہید رحمہ اللہ کے گہرے دوست تھے۔ کئی مجالس میں گفتگو کرنے کا موقع ملا، بہت ہی شفیق انسان تھے. بات کمال کرتے تھے اور سنتے بھی بہت ہی توجہ کے ساتھ تھے۔ بات پسند آتی تو توثیق فرماتے اور ناپسند ہوتی تو بحث کرنے کی بجائے بات ٹال دیتے۔ گوناگوں خوبیوں کا مالک علم کا سمندر اور عمل کاپہاڑ آج دنیا میں نہیں رہا. اللہ تعالی غریق رحمت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین۔

علامہ ابتسام الہی ظہیر

شیخ الحدیث مولانا عبدالسلام بھٹوی۔ طلباء کو ٹیکنالوجی سے جوڑنے کی بات

دینی گھرانوں کی تفریح کچھ ایسی بھی ہوتی ہے کہ کسی شہر جائیں گے تو فلاں عالم دین کے خطبہ جمعہ میں شرکت کریں گے ۔ بچپن کا ایک شوق یہ بھی رہا کہ پیپلز کالونی گوجرانوالہ خالہ جان کو ملنے جائیں گے تو وہاں خوبصورت اور بڑی مسجد الفتح میں شیخ الحدیث مولانا عبدالسلام بھٹوی کا خطبہ جمعہ سنیں گے ۔ سب کزن بڑے شوق سے جاتے اور بہت کچھ سیکھ کر آتے ۔
ان سے کوئی خاص ذاتی تعلق تو نہیں رہا البتہ ان کی ایک بات سے گہرا تعلق بن گیا ۔یوں جیسے اپنے دل کی بات ہو۔۔ ایک ایسی بات کہ جو کسی نے سنائی تو دل میں سما گئی۔ مدارس کے بچوں کے لیے ایک کمال کی نصیحت اور انہیں ٹیکنالوجی سے جوڑنے کی کوشش.
سالوں پہلے کی بات جب ٹیکنالوجی کا استعمال اتنا عام نہیں تھا ۔ لیپ ٹاپ وغیرہ استعمال شروع ہونے کا ابتدائی عرصہ تھا۔
ایک دوست نے بتایا کہ مریدکے مدرسے میں طلباء کے پاس موبائل اور لیپ ٹاپ وغیرہ رکھنے کے سخت مخالف تھے۔ ایک طالب علم نے ہمت کی، استاد محترم سے اجازت لی، انہیں قائل کیا کہ کچھ وقت عنایت کریں۔ آپ کو لیپ ٹاپ پر سافٹ وئیر دکھانے ہیں۔ اس لڑکے نے مکتبہ شاملہ دکھایا۔ سند۔ راوی ۔ احادیث ۔ موضوع کے اعتبار سے سرچ وغیرہ کرکے دکھائی۔ کافی دلچسپی لی ۔ پھر مزید اس بارے جانا ۤ۔ بعد ازاں اپنی کلاس میں فرمایا کرتے:
” چاہے گھر کا کوئی جانور بیچنا پڑے ۔ لیپ ٹاپ ضرور خریدو”
ایک بڑے شیخ الحدیث کی جانب سے یہ جملہ اثر رکھتا ہے۔
اس جملے سے گہرا تعلق بنا۔ ہر مجلس میں سنایا اور طلباء کو تلقین کی ۔
اللہ تعالیٰ انہیں جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے ۔
علم و عمل ۔ عجز و انکساری کا ایک باب بند ہوا۔

#ذرا_سی_بات_محمد_عاصم_حفیظ

منها خلقناكم وفيها نعيدكم ومنها نخرجكم تارة أخرى

أستاذ العلماء، شیخ التفسیر و الحدیث مولانا حافظ عبدالسلام بن محمد بھٹوی رحمہ اللہ کی نماز جنازہ امروز صبح 9:15 بجے، یہاں مرکز طیبہ، مرید کے (نزد لاھور) میں علامہ پروفیسر ڈاکٹر عبدالرحمن مکی حفظہ اللہ کی اقتداء میں ادا کی گئی۔
یاد رھے کہ مولانا حافظ عبدالسلام بھٹوی صاحب گزشتہ سہ پہر بقضائے الہی حرکت قلب بند ھونے پر وفات پا گئے تھے ۔ حضرت کی وفات کی خبر ملک بھر میں انتہائی افسوس و غم کے ساتھ سنی گئی اور آج مرکز طیبہ میں انکی نماز جنازہ میں بلامبالغہ ھزاروں افراد نے شرکت کی ، جن میں ملک بھر سے تعلق رکھنے والے شیوخ الحدیث ، علماء کرام ، اساتذہ و طلبہ مدارس دینیہ ، دعوتی قائدین و مبلغین ، سیاسی و سماجی کارکنان کی بھاری تعداد شامل تھی ۔
نماز جنازہ میں مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے مرکزی ، صوبائی اور اضلاعی قائدین کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی ۔ جن میں پروفیسر ڈاکٹر عبدالغفور راشد ، شیخ الحدیث مولانا حافظ مسعود عالم ، شیخ الحدیث مولانا حافظ محمد شریف ، مولانا قاری صہیب احمد میر محمدی ، مولانا حافظ محمد یونس آزاد ، مولانا محمد صادق عتیق ، علامہ محمد سعید کلیروی ، شیخ الحدیث مولانا حافظ محمد عمران عریف ، پروفیسر عثمان خالد شیخوپوری ، پروفیسر ڈاکٹر مسعود اظہر ،حافظ عبدالغفار مکی ، پروفیسر محمد ابراھیم سلفی ، مولانا محمد حنیف ربانی ، مولانا مشتاق احمد فاروقی ، شامل تھے۔
نماز جنازہ میں جامعہ سلفیہ کے اساتذہ کی قیادت میں طلبہ کے ایک بڑے قافلہ نے شرکت کی جن میں شیخ الحدیث مولانا عبدالعزیز علوی ، پروفیسر چوھدری محمد یسین ظفر ، پروفیسر نجیب اللہ طارق ، مولانا عابد مجید مدنی ، مولانا حافظ جہانگیر ، مولانا حبیب الرحمن شامل ھیں۔
مرکزیہ فیصل آباد کے رھنما بھی مولانا حافظ عمر ایوب ، مولانا حافظ ابوبکر ایوب ، مولانا ابوبکر جمیل ، مولانا بلال ربانی بھی نماز جنازہ کے شرکاء میں شامل تھے۔
اکابرین نے نماز جنازہ کے موقع پر پروفیسر علامہ عبدالرحمن مکی ، مولانا نصر جاوید ، پروفیسر سیف اللہ خالد ، حافظ عبدالرووف ، حافظ طلحہ سعید صاحبان سے حافظ عبدالسلام بھٹوی مرحوم کی وفات پر اظہار تعزیت کیا۔

عبد الصمد معاذ

کون نہیں گیا اور کس نے نہیں جانا؟

جیسے اب حافظ عبدالسلام بن محمد رخصت ہو رہے ہیں، ایسے مگر کون جاتا ہے؟ پھر ایک ایسے دور میں جب مادیت کی مار نے ہر سر اٹھانے والا ہموار کر ڈالا ہے، ایسے میں محدثین کی سی شان سے رخصت ہونا کوئی آسان کام ہے؟ کچھ لوگ مگر ابن زمانہ نہیں ہوتے ،زمانہ ساز ہوتے ہیں، زمانہ انھیں نہیں بناتا،وہ زمانہ بنا جاتے ہیں۔ کچھ لوگ منصب سے بلند ہوتے ہیں اور کچھ مرکز سے، کچھ لوگ طاقت سے ممتاز ہوتے ہیں اور کچھ دولت سے، ایسے کتنے ہوتے ہیں جو علم اور اخلاق سے شناخت پائیں اور ممتاز ہو جائیں۔ بھٹوی صاحب نے علم اور اخلاق سے شناخت بنائی اور خلق کثیر میں علمی شہرت پائی۔ علم شخصیت کا ایک پہلو ہوتا ہے اور اخلاق دوسرا، علم سے استفادے اور تاثیر کی جیسی راہیں اخلاق سے کھلتی ہیں، ویسی ویسے نہیں کھل پاتیں، بھٹوی صاحب دونوں میں ممتاز تھے، زندگی سراپا علم تھی، مدت العمر قرآن اور حدیث کی غواصی کرتے گزری، ساری زندگی سرمایہ اسلام میں ایک محدث اور مفسر کی شان سے طالبعلمانہ بیٹھے اور علم نبوت سے زمانے کو سیراب و سرشار کیا۔ اردو ایسی رواں اور سلیس کہ آدمی رشک کرے، ایک دن اس عاجز کو بتایا کہ اپنے دور میں آنہ لائبریریاں کھنگال ماریں، یعنی تب ایک آنہ یومیہ پر لائبریری سے اردو ادب کی کتب ملا کرتی تھیں، فرمایا، میں زیادہ رفتار سے پڑھنے کی کوشش کرتا تاکہ پیسے کی بچت ہو، یہی وجہ کہ پھر زبان و قلم صاف ہوگئے۔ احتیاط پسند بھی تھے اور کم گو بھی، سو جو لکھتے اور بولتے ذمے داری سے لکھتے بولتے۔ موزوں تر اور مناسب ترین۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ان کی کتب اس ادارے میں آئیں جہاں یہ خاکسار بھی ایڈیٹنگ پہ مامور تھا، ہمارے ایک رفیق مولانا اشتیاق اصغر نے ان کی کتاب پر ایڈیٹنگ لگائی تو انھیں حیرت ہوئی، پوچھا یہ کیا، بتایا گیا تو فرمانے لگے، مولوی صاحب! یہ میری کتاب ہے، اسے یونہی رہنے دیجیے، اگر آپ کو کچھ کہنا ہے تو اپنی کتاب لکھ لیجئے۔ مولانا اشتیاق اصغر نے پھر شیخ کی کتب پر بہت کام کیا اور شیخ کے شکریہ کے مستحق ہوئے۔ زبان و بیان میں روانی تو تھی، اختصار اور نغز بیانی بھی بہت تھی، انھیں جامعیت میں وضاحت نصیب ہوئی تھی۔ سادگی کمال درجے کی تھی۔ منکسرالمزاجی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ وقت ضائع نہ کر سکتے تھے۔ کئی بار یوں بیمار ہوئے کہ جان کے لالے پڑ جاتے،اللہ مگر برکت دیتا اور وہ ترجمہ و تفسیر اور حدیث رسول کی ہم عامیوں کے لیے گرہیں کھولنے کے لیے پھر سے مستعد ہو جاتے۔ ان کا اصل کمال ان کا علمی کام ہے۔ کیسے کیسے جید شیوخ کے استاد تھے، صالح شاگرد بھی اہل علم کی چلتی پھرتی تصانیف ہی ہوتی ہیں۔ انھوں نے مگر زندہ رہنے والا علمی کام بھی کیا۔ قرآن مجید کے ترجمے کو ہاتھ ڈالا تو یوں کہ نرالا کام کر ڈالا۔ ان کا ماننا یہ تھا کہ قرآن کا کوئی لفظ زائد نہیں، جیسا کہ سب مترجمین اردو ترجمے میں سمجھتے تھے، چنانچہ ٹھان لی کہ کوئی لفظ تو کیا کوئی حرف بھی ترجمے میں آئے بنا نہ رہے گا۔ پھر یہ کر کے دکھایا، اب صرف ان کا ترجمہ ایسا ہے۔ جس میں ہر حرف و لفظ کا ٹھیک وہی ترجمہ ہے، جو عربی گرامر کے اعتبار سے ہونا چاہئے، لطف یہ کہ اس کے باوجود ترجمہ رواں ہے اور اردو سلیس و دلنشیں۔ اس عاجز کے بعض مضامین پر خوش ہوتے اور گاہ یہ خوشی مجھ تک پہنچ بھی جاتی۔ ان کی زندگی اگرچہ ایک تنظیم میں گزری، مگر ان کی توجہ علمی معاملات پر مرتکز رہی۔ قرآن مجید کا ترجمہ لکھا، 4 جلدوں میں تفسیر لکھی، شرح بخاری پر کام ادھورا رہ گیا، اور بھی متعدد تصانیف ہیں۔ انھوں نے ایک موقف اپنایا اور زندگی اس کے ساتھ گزار دی، جمہوریت کے قائل نہ تھے، اگرچہ بعد ازاں ان کی جماعت کو قائل ہو جانا پڑا۔بات سیدھی کہتے تھے، خواہ سامنے کوئی بھی ہو، نرمی اور سلیقہ مندی بہت تھی، ان تک رسائی بڑی آسان تھی، طب و حکمت بھی سیکھ رکھی تھی۔ درس اور گفتگو میں فارسی، عربی اور اردو کے برمحل اشعار سے معنویت پیدا کیا کرتے۔ آخر عمر میں تنظیمی وابستگی کے باعث عالمی نظر بندی کی زندگی جی رہے تھے۔ یہ زندگی محدود تو تھی مگر کچھ آسانیاں بھی کبھی اللہ کی طرف سے انھیں مل جاتی تھیں۔ یہاں تک کہ کل ایک ملاقات میں تھے۔ جہاں صحت بظاہر ٹھیک ٹھاک تھی، وہاں موجود ایک شاگرد کی آڈیو کے مطابق دعا بھی آپ نے کروائی اور شائد نصیحت بھی فرمائی۔ یہ ان کے آخری وقت کی مصروفیت تھی۔ اب وہ رخصت ہوئے۔ اس شان سے کہ طلبا اور علما روتے ہیں، اور اس شان سے کہ اس عہد میں پچھلے عہد کا کوئی محدث رخصت ہو رہا ہو۔ اللہ ان پر اور ہم پر رحم فرمائے، انھیں جنت اور علما و عوام کو ان کا کوئی نعم البدل عطا فرمائے۔ اللہم آمین

بولنے اور لکھنے دونوں میں شستہ، نفیس اور نستعلیق لہجہ، کمال کے عالم، مفسر اور محدث ، اردو ایسی لکھی کہ دل موہ لیا، قرآن مجید کا گرامر کے اعتبار سے اردو میں ایسا ترجمہ کیا، جیسا پوری تاریخ میں کبھی نہ ہوا تھا، لفظ گن اور تول کے یوں لکھتے کہ ایک بھی لفظ بدلا نہ جا سکتا، شگفتہ گو تھے، بذلہ سنج تھے اور دراصل ایک عبقری شخصیت تھے۔ یہ تھے شیخ عبدالسلام بن محمد !اب رحمہ اللہ

دلی دکھ ہوا کہ اب وہ نہیں رہے، وہ ایک شخص نہیں ایک عہد تھے۔ وہ نہیں گئے، پورا علمی عہد چلا گیا۔ حدیث اور تفسیر کا علم چلا گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

اللہ ان کی مغفرت فرمائے، کامل مغفرت اور لواحقین کو صبر دے۔ ان کے لواحقین میں پوری ایک امت ہے۔ وہ امت کا سرمایہ تھے۔

#یوسف_سراج

وہ تو حید سکھا گئے 

کہنے کو ہم وہابی گھرانے کے چشم و چراغ تھے لیکن توحید کیا ہوتی ہے یہ بھٹوی صاحب سے سیکھا۔ اوائل جوانی کے دن تھے، طبع میں بغاوت غالب تھی اور بہت کم علماء کی بات سمجھ آتی تھی۔ انہی دنوں ایک مجلس میں بھٹوی صاحب کی گفتگو سننے کا اتفاق ہوا، انداز گویا دل کو بھاگیا۔ بات سیدھی دل میں اترتی جارہی تھی اور دماغ کو قائل کررہی تھی۔ بھٹوی صاحب آیت الکرسی کی مدد سے توحید سمجھارہے تھے۔ انہوں نے گیارہ نکات یکے بعد دیگرے یوں واضح کیے کہ اس دن سمجھ میں آیا توحید کیا ہوتی ہے۔ اس دن سمجھ میں آیا کہ جب ایک عالم گفتگو کرتا ہے تو علم کا ایک دریا ہے جو بہتا چلاجاتا ہے۔ اگر کسی عالم دین سے دین سیکھا تو وہ محترم حافظ صاحب ہیں یا بھٹوی صاحب تھے۔ اللہ بھٹوی صاحب کو غریق رحمت کرے، درجات بلند کرے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نصیب فرمائے کہ وہ ساری زندگی انہی کے بتائے طریقوں پر زندگی گزارتے رہے۔

حنظلہ عماد

نہ ٹی وی پر اشتہار چلا، نہ کمپین چلی پھر بھی جم غفیر

نہ ٹی وی پر اشتہار چلا، نہ کمپین چلی، اور نہ ہی لوگوں کو زبردستی لایا گیا، غم کی خبر سنتے ہی رنجیدہ دل اور پرنم آنکھوں کے ساتھ یہ جم غفیر، یہ مخلوق خدا صرف اللہ کےلیے محبت اور علم واہل علم سے اپنی محبت کا اظہارکرتی ہوئی ایک عالم ربانی کی نمازہ جنازہ میں شریک ہے!

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ” ہمارے بعد ہمارے جنازے فیصلہ کریں گے ۔۔۔۔”

آج یہ جنازہ چیخ چیخ کر پیغام دے رہاہے ان لوگوں کو جو نہ صرف خود علم اور اہل علم سے دور ہیں بلکہ انتہائی ڈھٹائی سے علماء،مدارس اور مراکز دین کے حوالے سے اپنی ناپاک زبانوں کو تسلسل سے چلا رہے ہیں!

یہ محبت یہ عقیدت اور یہ احترام دین کے علاوہ کہیں نہیں ملے گا۔

ایں سعادت بہ زور بازو نیست

اللہ تعالیٰ شیخ عبد السلام رحمۃ اللہ علیہ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے،اور ان کے جملہ لواحقین،ان کی اولاد، ان کے شاگرد اور ان کے سب چاہنے والوں کو صبر جمیل کی توفیق عنایت فرمائے!

عبداللہ عالم زیب

اور مولوی صاحب ۔۔۔ سننے کو ترس رہے ہیں۔

شعبہ طلباء کی تربیتی نشستوں میں لمبے لمبے درس سننا مشکل کام ہوتا تھا۔ مگر سوال و جواب کی نشست میں سب کی دلچسپی دیدنی ہوتی تھی۔ جس میں محترم حافظ عبدالسلام بھٹوی صاحب طلباء کو نہایت مختصر، جامع، علمی و عقلی دلیل اور اپنے مخصوص انداز کے ساتھ جواب دیتے۔
یہ میری جماعتی زندگی کے ابتدائی دن تھے۔ میری کوشش ہوتی تھی بھٹوی صاحب کی نشست میں لازمی شرکت کروں اور کچھ سوالات پرچی پر لکھ کر لازمی پوچھوں۔
حافظ عبدالسلام بھٹوی صاحب انتہائی سادہ مگر علمی شخصیت تھے۔ وہ اپنے انداز گفتگو سے کبھی علمی رعب نہیں ڈالتے تھے مگر جو بھی ان کے پاس کچھ وقت گزارتا ان سے بہت کچھ سیکھ کر جاتا۔
حافظ صاحب بہترین حافظہ رکھتے تھے۔ سالوں پہلے کوئی کتاب پڑھی ہوتو اس کا حوالہ یوں دیتے جیسے آج ہی مطالعہ کرکے آئے ہیں۔
شاعری میں بہت دلچسپی تھی۔ اردو، فارسی اور عربی کے ہزاروں شعر یاد تھے۔ موقع کی مناسبت سے شعر کہتے کہ محفل لوٹ لیتے۔
دینی موضوعات کے ساتھ ساتھ حالات حاضرہ پر بھی گہری نظر تھی۔ عالمی حالات، معیشت، سیاست و عسکری معاملات پر خبریں و کالم بڑی دلچسپی سے پڑھتے اور کمال کا تجزیہ کرتے۔
زندگی کے آخری 4 سال پاکستان سے محبت کے جرم میں قید و بند میں گزرے۔ ملک کو قوم کو معاشی پابندیوں سے بچانے کے لیے خود پابند سلاسل ہوگئے۔
دوران اسیری امام ابن تیمیہ کی طرح ان کا قلم چلتا رہا۔ یوں لکھتے جیسے الہام ہورہا ہو۔ اتنی آسان اور عام فہم تحریر کہ پڑھنے والا پڑھتا چلا جائے۔ ان کی تحریر دل میں اترتی محسوس ہوتی۔
تفسیر قرآن کے بعد اللہ رب العزت نے انہیں بخاری کی شرح لکھنے کا موقع بھی دیا۔ متعدد کتب کے مصنف اور ہزاروں علماء کے استاد تھے۔
ملاقات کے دوران ان کا ایک جملہ بہت مزہ دیتا جب وہ پوچھتے اور مولوی صاحب ۔۔۔۔
اچانک موت کی خبر سن کر یقین نہ آیا اور چند بھائیوں کو فوری فون کرکے خبر ڈیلیٹ کرنے کا کہا کہ بغیر تحقیق اسٹیٹس کیوں لگادیا۔ ایسا کچھ نہیں ہوا۔
مگر جب معلوم کرنے کی کوشش کی تو تصدیق ہوگئی کہ وہ اب دنیا میں نہیں رہے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون
آج مرید کے میں ان کا جنازہ پڑھنے آئے ہیں۔ ہر طرف اداسی چھائی ہوئی ہے۔ ان سے عقیدت و محبت کرنے والے ہزاروں لوگ جنازے میں شریک ہیں۔ ہر آنکھ اشک بار ہے۔
اس وقت میرے کان
اور مولوی صاحب ۔۔۔ سننے کو ترس رہے ہیں!

ندیم اعوان