سلطان صلاح الدین ایوبی کو دنیا سے رخصت ہوئی کئی سال گذر چکے تھے، عباسی خلافت کمزور تھی جبکہ منگولوں نے مختلف علاقے فتح کرنا شروع کردیے تھے۔
اس وقت فرانس کے بادشاہ Louis IX کو لگا کہ اگر وہ ساتویں صلیبی جنگ کا آغاز کردے اور ساتھ میں دوسری طرف سے منگول اسلامی خلافت پر حملہ آور ہوں تو وہ بیت المقدس پر قبضہ کرنے کا خواب پورا کرسکیں گے۔
پس پوپ کی طرف سے منگولوں کو مسلمانوں پر حملہ کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے سفیر روانہ ہوئے اور دوسری طرف فرانس سے ہزاروں کا لشکر مصری بندرگاہ پر 1249 میں اتر گیا، بادشاہ کے ساتھ نا صرف اس کی ملکہ اور بھائی تھے بلکہ یورپ کے کئی نامور شہزادے اور جنگجو موجود تھے جبکہ پشت پر سمندر کے ذریعے کمک کا تعین بھی ہوچکا تھا۔
دمياط کے بندرگاہ پر قبضہ کرنے کے بعد جب وہ منصورہ کی طرف بڑھے تو اسلامی لشکر کے حملے میں ہزاروں کی تعداد میں صلیبی فوجی ہلاک ہو کر لقمہ اجل بن گئے جبکہ بادشاہ سمیت کئی رہنما قید کر لیے گئے۔
وہ فرانسیسی بادشاہ جو مسلمانوں کو شکست دے کر بیت القمدس پر قبضہ کرنے نکلا تھا اب وہ خود مسلمانوں کی قید میں تھا اور اپنی آزادی کے لیے اپنے ملک پیغامات بھیج رہا تھا، بالآخر سونے کے چار لاکھ دینار یعنی آج کے حساب سے تقریبا 27 ارب پاکستانی روپے فدیہ دے کر بادشاہ نے اپنی جان بچائی۔
اور آج فرانس سرکاری سطح پر رسول اللہ ﷺ کی گستاخی کرتا ہے تو مسلمان ممالک پر قابض فوجی آمر، بادشاہ اور جمہوری لیڈر صرف مذمت کرتے ہیں۔ سعودی عرب، ایران، پاکستان، ترکی، مصر غرض کوئی ایک بھی مسلم ملک ایسا نہیں جس کے حکمران نے عملی طور پر اس گستاخی کے خلاف کچھ کیا ہو جبکہ خلافت میں ہم ان کو قیدی بنایا کرتے تھے۔
محمد عبداللہ