اہل علم کے ہاں اکثر یہ بات سنائی دیتی ہے کہ مغربی علوم و منہاج سے “خُذ مَا صفا دع مَا كدر “(اچھی چیز لے لو اور بری چیز چھوڑدو) کے اصول کے تحت استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اورفرمانِ نبوی ہے کہ «الْحِكْمَةُ ضَالَّةُ الْمُؤْمِنِ، حَيْثُمَا وَجَدَهَا أَخَذَهَا» حکمت مومن کے لئے گم شدہ متاع (کی طرح)ہے جہاں وہ اسےپاتا ہے، اسے لے لیتا ہے۔ اس لئے اہل مغرب سے حکمت کی باتیں قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
اپنے موضوع پر کچھ معروضات پیش کرنے سے قبل الْحِكْمَةُ ضَالَّةُ الْمُؤْمِنِ کی اس جدیدتعبیر پر کچھ تبصرہ ضروری ہے۔
۱۔ یہود و نصاریٰ کے بارے میں قرآن مجید نے کہا: إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ وَالْمُشْرِكِينَ فِي نارِ جَهَنَّمَ خالِدِينَ فِيها أُولئِكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ؎(بے شک اہلِ کتاب میں سے وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور مشرکین جہنم کی آگ میں ہوں گے ۔اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ مخلوقات میں سے سب سے بدترین ہیں )۔ جن اہلِ کتاب ( یہوو نصاریٰ ) کو قرآن ’’شر البریۃ‘‘ قرار دے رہا ہو، ان سے حکمت کی بات ملنا ممکن تھا کہ رسول اللہﷺ اشارہ فرما رہے ہوں کہ ان سے حکمت کی باتیں لے لینا؟
قرآن مجید یہود ونصاریٰ کو ’’بے وقوف ‘‘ قرار دیتا ہے ۔ (یہ آیت یہود و نصاریٰ سے متعلق ہے ما قبل اور مابعد آیات پڑھ لیجیے )
وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْراهِيمَ إِلاَّ مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ(البقرہ۔۱۳۰)
جو بھی ملت ابراہیم سے روگردانی کرتا ہے وہ وہی ہے جس نے اپنے آپ کو حماقت میں ڈالا ہوا ہے
بے وقوف قرار دیے جانے والوں سے ’’حکمت ‘‘ کی تلاش کا نبوی فرمان ممکن ہے ؟
۲۔کیا صحابہ کرام اس حدیث کو سننے کے بعد یہود و نصاریٰ کی طرف دوڑ پڑے کہ ان سے حکمت کی باتیں معلوم کریں ؟ کوئی ایک بات بھی بتلائی جاسکتی ہے جو صحابہ نے یہود ونصاریٰ سے سیکھ کر کہا ہو کہ ہم نے آج فرمانِ نبوی پر عمل کیا کہ حکمت کی بات جہاں سے ملے لے لو؟
۳۔ رسول اللہﷺ نے خود یہود و نصاریٰ سے کون سی حکمتیں لے کر امت کو بتلائیں ؟
۴۔ نبیﷺ کے مؤمنین کواس خطاب کا مفہوم یہ لینے کی بجائے ہر مومن کو دوسرے مومن سے کوئی بھی خیر کی بات اور فہم ِ دین کی ہدایت ملے اس کو فوراً لے لے ، یہ مفہوم لینا کہ رسول اللہﷺ کافروں سے حکمت کی باتیں ڈھونڈنے کا ارشاد فرما رہے ہیں ، کس سیاقِ کلام کے اعتبار سے ہے ؟
اب اس موضوع پر گفتگو کی جاتی ہ ہے کہ کیا اہلِ اسلام کو اہلِ مغرب سے استفادہ کرنا چاہیے ؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہم کچھ ذیلی سوالات اور جوابات پر انحصار کریں گے ۔
سوال نمبر ۱: کیا اسلام کی تعلیمات میں اعتقادی و عملی زندگی کے کچھ ایسے پہلو ہیں جن کے بارے میں ہدایات موجود نہیں اس لیے اس نامکمل پہلو کی تکمیل کے لیے مغرب سے استفادے کی ضرورت ہے ؟
دینِ اسلام ایک مکمل ضابطہ ٔ زندگی عطا کرتا ہے ۔ جس میں بچے کی پیدائش سے لے کر انسان کی موت تک، تمام جزوی احکامات کی تفصیلی ہدایات موجود ہیں۔یہاں تک کہ مشرکین مسلمانوں کو طعنہ زنی کرتے تھے کہ تمھارے رسول تمھیں پیشاب پاخانے سے متعلق بھی رہنمائی کرتے ہیں اور صحابہ فخر سے کہتے تھے کہ جی، ہمارے رسول ﷺ ان چیزوں میں بھی ہمارے مرشد و ہادی ہیں۔ مغربی یہود و نصاریٰ سے کون سا عقیدہ و عمل سیکھا جائے ؟اور مغربی ملحدین سے کیا ہدایت لی جائے ؟ جن اہلِ علم کا خیال ہے کہ ان سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں وہ ہمیں ان پہلووں کی نشان دہی کریں جو دین ِاسلام میں میسرو موجود نہیں اس لیے اہلِ مغرب سے سے استفادہ کرکے اسلامی عقیدے کی تصحیح اور شریعتِ محمدیہ کی تکمیل ممکن ہے ؟
سوال نمبر ۲: اخلاقی تعلیمات کے کون سے اصولی و فروعی احکام ہیں جن میں اہلِ مغرب کی علمی تقلید ضروری ہے کیوں کہ دینِ اسلام میں ان اخلاقی احکامات سے متعلق رہنمائی موجود نہیں ؟
سیرت نبویہ میں عائلی زندگی کے اخلاقی احکام موجود ہیں اور رسول اللہﷺ کا عائلی اسوہ اس کی عملی تصویر ہے، سیرت نبویہ میں کاروبار کرنے کے اخلاقی اصول واضح ہیں اور سیرت نبویہ کی صورت میں عملی نمونہ موجود ہے ، جنگ کے اخلاقی احکام پوری اصولی و عملی تفصیل کے ساتھ واضح ہیں ۔ آخر کون سے اخلاقی احکام ہیں جو مغرب کے ہاں موجود ہیں اور دینِ اسلام کی تعلیمات میں موجود نہیں ہیں ؟مغرب تو سرے سے اخلاق کو جانتا ہی نہیں ہے ( دیکھیے مضمون : کیا مغرب با اخلاق ہے ؟)
سوال نمبر ۳:کیا تمدنی ترقی کے لیے مغربی تمدن کی تقلید ضروری ہے ؟
پہلی بات یہ ہے کہ بلڈوزرز، تارکول بچھانے والی مشینیں ،کرینیں ، کنکریٹ، ڈرل مشینیں ، پاور لومز اور اسی طرح کا سب سازو سامان ، خریدنااور استعمال کرنا، کوئی ’’آتیڈیالوجیکل ‘‘مسئلہ نہیں ۔ اہلِ مغرب سے خریدیں یا چینیوں سے۔ یہ انسانی معاشروں کی ضرورتوں کا مسئلہ ہے۔ اس عہد میں جب مغربی غلبے کے سفاکانہ جبر نے معاشروں کو اپنی مشینی ترقی کی گرفت میں لے کر باقی سارے آپشن ختم کردیے ہیں تو ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے وہی کرنا ہوگا جس سے ضرورت پوری ہوجائے ۔
تمدنی ترقی کے تناظر میں مغربی تمدن کی تقلید کے لحاظ سے اصل ’’آئیڈیالوجیکل ‘‘ سوالات یہ ہیں
الف: کیا انسانی عظمت کی علامت تمدنی ترقی ہے ؟
اگر انسانی عظمت کا مظہر تمدنی ترقی ہوتی تو رسول اللہﷺ صحابہ کرام کو حکم دیتے کہ رومن ایمپائر جس کے حاکم ہرکولیس( ہرقل) کو دعوتی خط بھیجا ، سے تمدنی ترقی کے اصول سیکھیں ۔ رومی تمدن کا جائزہ لے کر مدینہ میں آکر’’اسلامی تمدن‘‘ کی بنیاد رکھیں ۔عظیم پرشین ایمپائر کی تقلید میں مدینہ کو عروج دینے کے لیے ،صحابہ کرام کے وفود بھیجے جاتے اور ان سے تین تین ہزار ستون والے محلات بنانے کا فن سیکھا جاتا ۔
اگر انسانی عظمت کا مظہر تمدنی ترقی ہوتی تو رسول اللہﷺ مدینے کے مکانات اور گلیاں پکی کرواتے اور ’’روم کی ٹاؤن پلاننگ ‘‘ کی تقلید میں مدینہ کو ’’ماڈل سٹی ‘‘ بنواتے ۔
اگر انسانی عظمت کا مظہر تمدنی ترقی ہوتی تو رسول اللہﷺ کو اللہ تعالیٰ وحی فرما کر جزیرۃ العرب میں موجود پٹرول سے متعلق آگاہ فرماتے اور اس کے استعمالات کے طریقے بھی بذریعہ وحی بتا دیتے ۔
ب: کیا مغربی تمدن سے پہلے دنیا میں کوئی تمدنی عروج نہیں ہوا؟
ہمیں ان اہلِ علم کی مرعوبیت پر حیرت ہوتی ہے جو ایک طرف آرکیالوجیکل تحقیقات کے تحت کہتے ہیں کہ انسان ہزاروں سال سے متمدن ہے اور کھدائیوں میں ایسے ایسے شہروں کی دریافت ہوئی کہ جن میں آج کی طرح جدید طرزِ رہن سہن کے سب لوازمات موجود تھے اور دوسری مغربی تمدن کو ایسا تمدن مانتے ہیں جیسے اس سے پہلے انسانوں نے شہروں کو اس طرح بسایا ہی نہیں۔ قرآن میں عادو ثمود کے تمدن کا تذکرہ پڑھ لیجیے اور ساتھ ہی ان کی بربادی کا ذکر بھی دیکھ لیجیے ۔اس لیے مغرب کو تمدن کا رول ماڈل بنانا، خود ایک زبردستی ہے ۔مغربی فرعون سے پہلے بھی تمدنی ترقی کے نشے میں مست فراعنہ پیدا ہوئے ۔ اہرام مصر اسی تمدنی فرعونیت کی ایک علامت ہے ۔
سوال نمبر ۴: کیا جدید مغرب کے سیاسی اصول ایسے ہیں جن سے استفادے کے بغیر پرامن معاشروں اور حکومتوں کا قیام ممکن نہیں ؟
واضح رہے کہ قیام امن کا تعلق عدل سے ہے نہ کہ جدید مغرب کے سیاسی اصولوں سے۔جہاں عدل ہوگا وہاں امن ہوگا۔ جدید مغرب تو پندرھویں صدی عیسوی کی پیداوار ہے تو کیا دنیا لاکھوں سال سے مغربی سیاسی اصولوں کے انتظار میں رہی اور لاکھوں سال میں انسانوں کے پاس نہ امن تھا، نہ استحکام اور نہ کوئی نظام عدالت ؟؟ کوئی بھی قانون جس کا نفاذ عادلانہ ہوتا ہے ہمیشہ امن و سلامتی کے برگ و بار لاتا ہے ۔ مسلمانوں نے کم وبیش ایک ہزار سال معلوم دنیا پر حکومت کی ۔ ان کے اقتدار اور نظام ِ عدالت میں آخر کون سا مغربی استفادہ تھا جس سے غلبہ اور استحکام ممکن ہوا؟ جدید مغربی سیاسیات کا بانی ‘‘میکاولی‘‘ ہے اس کی سیاسی فکر پڑھ لیجیے معلوم ہوجائے گا کہ مکاری ، سفاکی اور جبر کس طرح ’’ٓاصولِ سیاست ِ مغرب‘ ‘ ہے۔ اس لیے یہ ایک مفروضہ ہے کہ امن صرف مغرب کی سیاسی تقلید سے قائم ہوتا ہے۔اگر ایسا ہے تو کیا واقعی دنیا لاکھوں سال بے انصاف ، بے امن ، منتشر و غیر منضبط رہی ؟
محمد رسول اللہﷺ کے امتیوں کو اپنے دل میں پختہ یقین رکھنا چاہیے
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ وَآمَنُوا بِما نُزِّلَ عَلى مُحَمَّدٍ وَهُوَ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بالَهُمْ
جو ایمان لائے اور اچھے عمل کیے اور وہ اس سب پر ایمان لائے جو محمد ﷺ پر نازل کیاگیا اور ان کے رب کی طرف سے حق صرف یہی ہے ( جو محمد ﷺ پر نازل ہوا) ، اللہ ان ایمان والوں کی برائیوں کو مٹا دے گا اور ان کے معاملات کو درست کردے گا۔
ڈاکٹر حافظ عثمان احمد