سوال (2925)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ كے ایك بندے كے بارے میں حكم دیا گیا كہ اسے قبر میں سو كوڑے مارے جائیں۔ وہ التجاو دعائیں كرتا رہا حتی كہ ایک كوڑا بطور سزا رہ گیا ہے۔ اسے ایک كوڑا مارا گیا، اس كی قبر آگ سے بھر گئی، جب آگ ختم ہوئی اور اسے كچھ افاقہ ہوا تو اس نے پوچھا: تم نے مجھے كس وجہ سے كوڑا مارا ہے؟ فرشتوں نے كہا: تم نے ایك نماز بغیر طہارت كے پڑھی تھی، اور تم ایك مظلوم كے پاس سے گزرے تھے، لیكن تم نے اس كی مدد نہیں كی تھی۔
[السلسلۃ : 554]
جواب
ہم نے 14 سال پہلے اس روایت کی علت پر اطلاع پائی تھی یہ روایت سخت ضعیف و منکر ہے۔
قبر میں سو کوڑے مارے جانے والی روایت پر جامع تحقیق وتبصرہ پیش خدمت ہے:
پہلے تخریج:
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻓﻬﺪ ﺑﻦ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﻋﻮﻥ اﻟﻮاﺳﻄﻲ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺟﻌﻔﺮ ﺑﻦ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ( الصواب حفص )، ﻋﻦ ﻋﺎﺻﻢ، ﻋﻦ ﺷﻘﻴﻖ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ، ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺃﻧﻪ ﻗﺎﻝ: ﺃﻣﺮ ﺑﻌﺒﺪ ﻣﻦ ﻋﺒﺎﺩ اﻟﻠﻪ ﺃﻥ ﻳﻀﺮﺏ ﻓﻲ ﻗﺒﺮﻩ ﻣﺎﺋﺔ ﺟﻠﺪﺓ، ﻓﻠﻢ ﻳﺰﻝ ﻳﺴﺄﻝ ﻭﻳﺪﻋﻮ ﺣﺘﻰ ﺻﺎﺭﺕ ﺟﻠﺪﺓ ﻭاﺣﺪﺓ، ﻓﺠﻠﺪ ﺟﻠﺪﺓ ﻭاﺣﺪﺓ، ﻓﺎﻣﺘﻸ ﻗﺒﺮﻩ ﻋﻠﻴﻪ ﻧﺎﺭا، ﻓﻠﻤﺎ اﺭﺗﻔﻊ ﻋﻨﻪ ﻗﺎﻝ: ﻋﻼﻡ ﺟﻠﺪﺗﻤﻮﻧﻲ؟، ﻗﺎﻟﻮا: ﺇﻧﻚ ﺻﻠﻴﺖ ﺻﻼﺓ ﺑﻐﻴﺮ ﻃﻬﻮﺭ , ﻭﻣﺮﺭﺕ ﻋﻠﻰ ﻣﻈﻠﻮﻡ ﻓﻠﻢ ﺗﻨﺼﺮﻩ
شرح مشكل الآثار للطحاوى:(3185) 8/212
ابن عبدالبر نے کہا:
ﻭﺫﻛﺮ اﻟﻄﺤﺎﻭﻱ ﻗﺎﻝ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻓﻬﺪ ﺑﻦ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﻗﺎﻝ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﻋﻮﻥ اﻟﻮاﺳﻄﻲ ﻗﺎﻝ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺟﻌﻔﺮ ﺑﻦ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﻋﻦ ﻋﺎﺻﻢ ﻋﻦ ﺷﻔﻴﻖ ﻋﻦ اﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺃﻧﻪ ﻗﺎﻝ ﺃﻣﺮ ﺑﻌﺒﺪ ﻣﻦ ﻋﺒﺎﺩ اﻟﻠﻪ ﻋﺰ ﻭﺟﻞ ﺃﻥ ﻳﻀﺮﺏ ﻓﻲ ﻗﺒﺮﻩ ﺑﻤﺎﺋﺔ ﺟﻠﺪﺓ ﻓﻟﻢ ﻳﺰﻝ ﻳﺴﺄﻝ اﻟﻠﻪ ﻭﻳﺪﻋﻮﻩ ﺣﺘﻰ ﺻﺎﺭﺕ ﺟﻠﺪﺓ ﻭاﺣﺪﺓ ﻓﺠﻠﺪ ﺟﻠﺪﺓ ﻭاﺣﺪﺓ ﻓﺎﻣﺘﻸ ﻗﺒﺮﻩ ﻋﻠﻴﻪ ﻧﺎﺭا فلما اﺭﺗﻔﻊ ﻋﻨﻪ ﺃﻓﺎﻕ ﻓﻘﺎﻝ ﻋﻼﻡ ﺟﻠﺪﺗﻤﻮﻧﻲ ﻗﺎﻟﻮا ﺇﻧﻚ ﺻﻠﻴﺖ ﺻﻼﺓ ﺑﻐﻴﺮ ﻃﻬﻮﺭ ﻭﻣﺮﺭﺕ ﻋﻠﻰ ﻣﻈﻠﻮﻡ ﻓﻠﻢ ﺗﻨﺼﺮﻩ
التمهيد لابن عبد البر:23/ 299
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺟﻌﻔﺮ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ
ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﻋﻮﻥ اﻟﻮاﺳﻄﻲ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺣﻔﺺ ﺑﻦ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ، ﻋﻦ ﻋﺎﺻﻢ، ﻋﻦ ﺷﻘﻴﻖ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ، ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺱﻟﻢ ﺇﻥ اﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﺃﻣﺮ ﺑﻌﺒﺪ ﻣﻦ ﻋﺒﺎﺩﻩ ﺃﻥ ﻳﻀﺮﺏ ﻓﻲ ﻗﺒﺮﻩ ﻣﺎﺋﺔ ﺟﻠﺪﺓ، ﻓﻟﻢ ﻳﺰﻝ ﻳﺴﺄﻝ ﻭﻳﺴﺄﻝ ﺣﺘﻰ ﺻﺎﺭﺕ ﺟﻠﺪﺓ ﻭاﺣﺪﺓ، ﻓﺎﻣﺘﻸ ﻗﺒﺮﻩ ﻋﻠﻴﻪ ﻧﺎﺭا، فلما ﺳﺮﻱ ﻋﻨﻪ ﻓﺄﻓﺎﻕ، ﻗﺎﻝ: ﻟﻢ ﺟﻠﺪﺗﻤﻮﻧﻲ؟ ﻗﺎﻝ: ﺇﻧﻚ ﺻﻠﻴﺖ ﺻﻼﺓ ﺑﻐﻴﺮ ﻃﻬﻮﺭ، ﻭﻣﺮﺭﺕ ﺑﻤﻈﻠﻮﻡ ﻓﻠﻢ ﺗﻨﺼﺮﻩ
أمالى ابن سمعون الواعظ:(212)كتاب الحدائق في علم الحديث والزهديات لابن الجوزي :3/ 113 ط: دارالکتب العلمیہ بیروت، وفيه حفص بن سليمان
اﻟﻄﺤﺎﻭﻱ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻓﻬﺪ ﺑﻦ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ، ﺛﻨﺎ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﻋﻮﻥ اﻟﻮاﺳﻄﻲ، ﺛﻨﺎ (ﺣﻔﺺ) ﺑﻦ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ، ﻋﻦ ﻋﺎﺻﻢ، ﻋﻦ ﺷﻘﻴﻖ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ، ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ- ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ – ﺃﻧﻪ ﻗﺎﻝ: ” ﺃﻣﺮ ﺑﻌﺒﺪ ﻣﻦ ﻋﺒﺎﺩ اﻟﻠﻪ ﺃﻥ ﻳﻀﺮﺏ ﻓﻲ ﻗﺒﺮﻩ ﻣﺎﺋﺔ ﺟﻠﺪﺓ، ﻓﻠﻢ ﻳﺰﻝ ﻳﺴﺄﻝ ﻭﻳﺪﻋﻮ ﺣﺘﻰ ﺻﺎﺭﺕ ﺟﻠﺪﺓ ﻭاﺣﺪﺓ، ﻓﺠﻠﺪ ﺟﻠﺪﺓ ﻭاﺣﺪﺓ ﻓﺎﻣﺘﻸ ﻗﺒﺮﻩ ﻋﻠﻴﻪ ﻧﺎﺭا، ﻓﻠﻤﺎ ﺭﻓﻊ ﻋﻨﻪ ﺃﻓﺎﻕ ﻗﺎﻝ: ﻋﻼﻡ ﺟﻠﺪﺗﻤﻮﻧﻲ؟ ﻗﺎﻟﻮا: ﺇﻧﻚ ﺻﻠﻴﺖ ﺻﻼﺓ ﺑﻐﻴﺮ ﻃﻬﻮﺭ، ﻭﻣﺮﺭﺕ ﻋﻠﻰ ﻣﻈﻠﻮﻡ ﻓﻠﻢ ﺗﻨﺼﺮﻩ
الأحكام الكبرى للإشبيلي:3/ 208 ،209
(اس کتاب کے محقق نے بریکٹ میں حفص کے ساتھ تصحیح کر کے صراحت کر رکھی ہے کہ جعفر خطاء ہے اور شرح مشکل الآثار میں تحریف ہو گئ ہے)
علت پر وضاحت کرنے سے پہلے ترجمہ ملاحظہ کریں:
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
الله تعالی نے اپنے بندوں میں سے ایک بندے کے بارے میں حکم دیا کہ اسے اس کی قبر میں سو کوڑے مارے جائیں وہ لگاتار التجائیں اور منتیں کرتا رہا حتی کہ سو کوڑے کی سزا کو ایک کوڑے کی سزا میں تبدیل کر دیا گیا، پھر اسے ایک کوڑا مارا گیا تو اس کی قبر آگ سے بھر گئی ۔ جب آگ ختم ہوئی اور کچھ ہلکا محسوس کیا تو اس نے(فرشتے سے) پوچھا :تم نے مجھے کس وجہ سے کوڑا مارا ہے؟تو فرشتے نے کہا :تم نے ایک نماز بغیر وضو کے پڑھی تھی اور تم ایک مظلوم کے پاس سے گزرے تھے لیکن اس کی مدد نہیں کی تھی
اس روایت پر چند ایک گزارشات:
امام طحاوی کی کتاب میں تحریف ہے حفص بن سلیمان القاری کی جگہ جعفر بن سلیمان چھپ گیا ہوا ہے جو نساخ کی غلطی ہے اور راجح یہی ہے کہ یہ راوی حفص بن سلیمان القاری ہی ہے۔
اس پر پہلی دلیل یہ ہے کہ ابن سمعون کی امالی،الحدائق فی علم الحدیث والزھدیات میں حفص بن سلیمان ہی لکھا ہوا ہے۔
دوسری دلیل یہ ہے کہ عمرو بن عون کے شیوخ میں حفص بن سلیمان القاری کا نام آتا ہے جعفر بن سلیمان کا نام نہیں آتا، اسی طرح حفص بن سلیمان القاری کے تلامذہ میں عمرو بن عون الواسطی کا ذکر ملتا ہے اور جعفر بن سلیمان کے شیوخ میں عاصم بن بھدلہ کا ذکر نہیں ملتا ہے بلکہ حفص بن سلیمان القاری کے شیوخ میں عاصم بن بھدلہ کا ذکر ملتا ہے اور مزید یہ کہ جعفر بن سلیمان کے تلامذہ میں عمرو بن عون کا ذکر نہیں ملتا ہے۔نہ ہی یہ ایک دوسرے سے روایت حدیث میں مکثر ومعروف ہیں بلکہ حفص کی روایت عاصم بن بھدلہ سے معروف ہے خاص طور پہ قراءت میں
حافظ ابن رجب حنبلی نے کہا:
ورويناه من طريق حفص بن سليمان القارئ وهو ضعيف جدا عن عاصم عن أبی وائل عن ابن مسعود عن النبي صلی الله علیه وسلم
أهوال القبور:ص51
تو اس سند میں اصل علت حفص بن سلیمان القاری کا مجروح وضعیف ہونا ہے کہ یہ راوی روایت حدیث میں بالاتفاق ضعیف وناقابل اعتبار ہیں( البتہ قراءت میں یہ ثقہ حجہ ہیں
کہ یہ ان کا فن وشعبہ تھا اس مسئلہ پر میرا مستقل مقالہ موجود ہے طیبی )
اب أبو عمر حفص بن سلیمان بن مغیرہ الأسدی الکوفی القاری پر ائمہ محدثین کے چند ایک اقوال جرح ملاحظہ فرمائیں:
امام بخاری نے کہا:
تركوه
التاريخ الكبير للبخارى :2/ 363
اور کہا:
ﺳﻜﺘﻮا ﻋﻨﻪ
التاريخ الأوسط للبخارى :2/ 256
ﻗﺎﻝ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ ﻭﻋﻠﻲ: ﻗﺎﻝ ﻳﺤﻴﻰ: ﺃﺧﺒﺮﻧﻲ ﺷﻌﺒﺔ، ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺬ ﻣﻨﻲ ﺣﻔﺺ ﺑﻦ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﻛﺘﺎﺑﺎ، ﻓﻠﻢ ﻳﺮﺩﻩ، ﻗﺎﻝ: ﻭﻛﺎﻥ ﻳﺄﺧﺬ ﻛﺘﺐ اﻟﻨﺎﺱ، ﻓﻴﻨﺴﺨﻬﺎ
الضعفاء الصغير:(74)،تقدمة الجرح والتعديل :1/ 140،الجرح والتعديل :3/ 173
امام مسلم نے کہا:
ﻣﺘﺮﻭﻙ اﻟﺤﺪﻳﺚ
الكنى والأسماء للإمام مسلم :(2164) 1/ 540
امام نسائی نے کہا:
ﻣﺘﺮﻭﻙ اﻟﺤﺪﻳﺚ
الضعفاء والمتروكون :(134)
امام أحمد بن حنبل نے کہا:
ﻣﺘﺮﻭﻙ اﻟﺤﺪﻳﺚ
العلل ومعرفة الرجال برواية عبدالله بن أحمد :2/ 380(2698) ،الكنى والأسماء للدولابي:2/ 772
امام یحیی بن معین نے کہا:
ليس بثقة
الجرح والتعديل :3/ 173،تاريخ يحيى بن معين رواية الدارمي:(269)
مزید ائمہ کے کلام کے لیے یہی مقام دیکھیے
امام ترمذی نے کہا:
ﻭﺣﻔﺺ ﺑﻦ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﺃﺑﻮ ﻋﻤﺮ ﺑﺰاﺯ ﻛﻮﻓﻲ ﻳﻀﻌﻒ ﻓﻲ اﻟﺤﺪﻳﺚ
سنن ترمذی :(2905)
امام بزار نے کہا:
ﻭﺣﻔﺺ ﻟﻴﻦ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﺟﺪا
مسند البزار:(6746)
اور کہا:
ﻭﺣﻔﺺ ﻟﻴﻦ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﺣﺪﺙ ﺑﺄﺣﺎﺩﻳﺚ ﻣﻨﺎﻛﻴﺮ
مسند البزار:(8648)
امام بیھقی نے:
ﻭﻫﻮ ﻣﺘﺮﻭﻙ
السنن الصغیر:(3169)
اور دیکھیے المجروحین :1/ 255(248)،الضعفاء الكبير للعقيلى :1/ 270
،تاریخ بغداد:9/ 64(4265) ،معجم الأدباء:3/ 1180
امام ابن عدی نے کہا:
ﻭلحفص ﻏﻴﺮ ﻣﺎ ﺫﻛﺮﺕ ﻣﻦ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻭﻋﺎﻣﺔ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﻋﻤﻦ ﺭﻭﻯ ﻋﻨﻬﻢ ﻏﻴﺮ ﻣﺤﻔﻮﻇﺔ
الكامل لابن عدي :3/ 275 ،276
حافظ وناقد ذہبی نے بعض اقوال جرح نقل کرنے کے بعد کہا:
ﻗﻠﺖ: ﺃﻣﺎ ﻓﻲ اﻟﻘﺮاءﺓ ﻓﺜﻘﺔ ﺛﺒﺖ ﺿﺎﺑﻂ ﻟﻬﺎ ﺑﺨﻼﻑ ﺣﺎﻟﻪ ﻓﻲ اﻟﺤﺪﻳﺚ
معرفة القراء الكبار:ص:85
اور کہا:
ﻭﻫﻮ ﻣﺘﺮﻭﻙ اﻟﺤﺪﻳﺚ، ﺣﺠﺔ ﻓﻲ اﻟﻘﺮاءﺓ
العبر في خبر من غبر:1/ 213
ائمہ محدثین کی جرح کا تعلق صرف روایت حدیث کے ساتھ ہے قراءت کے ساتھ ہرگز نہیں ہے کہ قراءت ان کا خاص فن اور میدان تھا
حافظ ذہبی نے بہت خوبصورت الفاظ میں یہ فرق بتایا اور سمجھایا ہے کہا:
ﻭﺃﻗﺮﺃ اﻟﻨﺎﺱ ﻣﺪﺓ، ﻭﻛﺎﻥ ﺛﺒﺘﺎ ﻓﻲ اﻟﻘﺮاءﺓ ﻭاﻫﻴﺎ ﻓﻲ اﻟﺤﺪﻳﺚ، ﻻﻧﻪ ﻛﺎﻥ ﻻ ﻳﺘﻘﻦ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻭﻳﺘﻘﻦ اﻟﻘﺮﺁﻥ ﻭﻳﺠﻮﺩﻩ ، ﻭﺇﻻ ﻓﻬﻮ ﻓﻲ ﻧﻔﺴﻪ ﺻﺎﺩﻕ
میزان الاعتدال :(2121)
حافظ ذہبی نے عاصم بن بھدلہ کے ترجمہ میں کہا:
ﻭﻛﺬﻟﻚ ﻛﺎﻥ ﺻﺎﺣﺒﻪ ﺣﻔﺺ ﺑﻦ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﺛﺒﺘﺎ ﻓﻲ اﻟﻘﺮاءﺓ، ﻭاﻫﻴﺎ ﻓﻲ اﻟﺤﺪﻳﺚ
سير أعلام النبلاء :5/ 260
محقق عبد الله الجديع المبحث الخامس میں لکھتے ہیں:
ﻭﻫﺬا ﻣﺜﻞ (ﺣﻔﺺ ﺑﻦ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ اﻟﻘﺎﺭﺉ)، ﻓﻘﺪ ﺑﻠﻎ ﺑﻪ ﺳﻮء ﺣﻔﻈﻪ ﻭﻧﻜﺎﺭﺓ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﺇﻟﻰ ﺃﻥ ﻛﺎﻥ ﻣﺘﺮﻭﻛﺎ ﻓﻲ اﻟﺤﺪﻳﺚ، ﻟﻜﻨﻪ ﺣﺠﺔ ﻓﻲ اﻟﻘﺮاءﺓ، ﺑﻞ ﻋﻠﻴﻪ اﻟﻤﻌﻮﻝ ﻓﻲ ﻗﺮاءﺓ ﻋﺎﺻﻢ، ﻭاﻟﺘﻲ ﻳﻘﺮﺃ ﺑﻬﺎ اﻟﻴﻮﻡ ﺃﻛﺜﺮ ﺃﻫﻞ اﻹﺳﻼﻡ
تحریر علوم الحدیث :1/ 446
تو یوں یہ روایت سخت ضعیف ومنکر ہے۔
محدث البانی رحمه الله تعالى الصحيحة:(2774)،اور شیخ شعیب الأرنؤوط،شرح مشكل الآثار للطحاوى :(3185) وغیرہ کا اس روایت پر صحت کا حکم لگانا اس سب سے ہے کہ وہ شرح مشکل الآثار کی سند میں تحریف پر اطلاع نہیں پا سکے اور اگر وہ مطلع ہوتے تو وہ ضرور اس پر ضعف کا ہی حکم لگاتے۔
اس روایت کا دوسرا طریق:
امام ابن عدی الجرجانی کہتے ہیں:
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻠﻪ اﻟﺨﻮاﺭﺯﻣﻲ، ﺣﺪﺛﻨﻲ ﺻﺎﻟﺢ ﺑﻦ ﻋﻤﺮاﻥ اﻟﺴﻔﺮﻱ اﻟﺪﻋﺎء، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﻫﺎﺷﻢ، ﻋﻦ اﻷﻋﻤﺶ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻭاﺋﻞ ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﺎﻝ: ﺃﺗﻰ ﺭﺟﻞ ﻓﻲ ﻗﺒﺮﻩ ﻓﻘﻴﻞ ﺇﻧﺎ ﺟﺎﻟﺪﻭﻙ ﺛﻼﺙ ﺟﻠﺪاﺕ ﻗﺎﻝ ﻭﻟﻢ ﻗﺎﻝ ﻷﻧﻚ ﺻﻠﻴﺖ اﻟﺼﻼﺓ ﺑﻐﻴﺮ ﻃﻬﻮﺭ ﻭﻣﺮﺭﺕ ﺑﻤﻈﻠﻮﻡ فلم ﺗﻨﺼﺮﻩ
الكامل لابن عدى:9/ 122
میں کہتا ہوں یہ روایت اس طریق سے منکر جدا ہے اور موضوع ہے ۔
امام ابن عدی کے نزدیک یہ روایت منکر ہے
دیکھیے الکامل لابن عدی :9/ 123
اس کا سبب ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﻫﺎﺷﻢ ﺃﺑﻮ ﺯﻛﺮﻳﺎ اﻟﻐﺴﺎﻧﻲ اﻟﺴﻤﺴﺎﺭ راوی ہے جس پر ائمہ علل ونقاد کی طرف سے سخت جرح کی گئی ہے
پہلے جرح خاص ملاحظہ فرمائیں:
امام حاکم نے کہا:
ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﻫﺎﺷﻢ اﻟﺴﻤﺴﺎﺭ ﺑﻐﺪاﺩﻱ ﻭﻫﻮ ﺃﺑﻮ ﺯﻛﺮﻳﺎ ﺭﻭﻯ ﻋﻦ اﻷﻋﻤﺶ ﻭﻣﺴﻌﺮ ﻭﻫﺸﺎﻡ ﺑﻦ ﻋﺮﻭﺓ ﺃﺣﺎﺩﻳﺚ ﻣﻨﻜﺮﺓ
المدخل إلى الصحيح :(225)
امام أبو نعیم نے کہا:
ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﻫﺎﺷﻢ ﺃﺑﻮ ﺯﻛﺮﻳﺎ اﻟﺴﻤﺴﺎﺭ ﺑﻐﺪاﺩﻱ ﺭﻭﻯ ﻋﻦ اﻷﻋﻤﺶ ﻭﻣﺴﻌﺮ ﻭﻫﺸﺎﻡ ﺑﻦ ﻋﺮﻭﺓ اﻟﻤﻨﺎﻛﻴﺮ
الضعفاء لأبي نعيم الأصبهاني :(277)
یہ روایت بھی یہ یحیی بن ھاشم امام اعمش سے روایت کر رہا ہے
امام یحیی بن معین نے کہا:
اﻟﺴﻤﺴﺎﺭ ﻛﺬاﺏ ﺧﺒﻴﺚ ﻫﻮ اﻟﺪﺟﺎﻝ اﺑﻮ ﺯﻛﺮﻳﺎ ﻫﺬا ﻳﺨﺮﺝ اﻟﺪﺟﺎﻝ ﻣﻦ ﻫﺬﻩ اﻟﻘﺮﻳﺔ ﻭﻫﻮ اﺷﺮﻫﻢ ﻳﻌﻨﻰ اﺷﺮ ﻣﻦ اﻟﻤﻠﻄﻰ ﻭﻣﻦ اﺑﻰ اﻟﺒﺨﺘﺮﻯ ﻭﻣﻦ اﺑﻰ ﺩاﻭﺩ
تاريخ ابن معين رواية ابن محرز:ص:2
امام یحیی بن معین سے منسوب مزید ہلکا اور سخت کلام دیکھیے تاریخ بغداد میں
امام نسائی نے کہا:
ﻣﺘﺮﻭﻙ اﻟﺤﺪﻳﺚ
الضعفاء والمتروكون :(638)
امام أبو حاتم الرازی نے کہا:
ﻛﺎﻥ ﻳﻜﺬﺏ ﻭ ﻛﺎﻥ ﻻ ﻳﺼﺪﻕ، ﺗﺮﻙ ﺣﺪﻳﺜﻪ
الجرح والتعدیل :9/ 195
امام ابن حبان نے کہا:
ﻛﺎﻥ ﻣﻤﻦ ﻳﻀﻊ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻋﻠﻰ اﻟﺜﻘﺎﺕ ﻭﻳﺮﻭﻱ ﻋﻦ اﻷﺛﺒﺎﺕ اﻷﺷﻴﺎء اﻟﻤﻌﻀﻼﺕ ﻻ ﻳﺤﻞ ﻛﺘﺎﺑﺔ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﺇﻻ ﻋﻠﻰ ﺟﻬﺔ اﻟﺘﻌﺠﺐ ﻷﻫﻞ اﻟﺼﻨﺎﻋﺔ ﻭﻻ اﻟﺮﻭاﻳﺔ ﺑﺤﺎﻝ
المجروحين لابن حبان :(1219)3/ 125
امام عقیلی نے کہا:
ﻛﺎﻥ ﻳﻀﻊ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻋﻠﻰ اﻟﺜﻘﺎﺕ
الضعفاء الكبير للعقيلى :4/ 432 (2063)
ﻭ ليحيى ﺑﻦ ﻫﺎﺷﻢ ﻋﻦ ﻫﺸﺎﻡ ﺑﻦ ﻋﺮﻭﺓ ﻭاﻷﻋﻤﺶ ﻭاﻟﺜﻮﺭﻱ، ﻭﺷﻌﺒﺔ ﻏﻴﺮ ﻣﺎ ﺫﻛﺮ، ﻭﻫﻮ ﻳﺮﻭﻱ ﺃﻳﻀﺎ ﻋﻦ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺧﺎﻟﺪ ﻭﺃﺑﻲ ﺣﻨﻴﻔﺔ ﻭﻏﻴﺮﻫﻢ ﺑﺎﻟﻤﻨﺎﻛﻴﺮ ﻳﻀﻌﻬﺎ ﻋﻠﻴﻬﻢ، ﻭﻳﺴﺮﻕ ﺣﺪﻳﺚ اﻟﺜﻘﺎﺕ، ﻭﻫﻮ ﻣﺘﻬﻢ ﻓﻲ ﻧﻔﺴﻪ ﺃﻧﻪ ﻟﻢ ﻳﻠﻖ ﻫﺆﻻء ﻭﻋﺎﻣﺔ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﻋﻦ ﻫﺆﻻء ﻭﻏﻴﺮﻫﻢ ﺇﻧﻤﺎ ﻫﻮ ﻣﻨﺎﻛﻴﺮ ﻭﻣﻮﺿﻮﻋﺎﺕ ﻭﻣﺴﺮﻭﻗﺎﺕ، ﻭﻫﻮ ﻓﻲ ﻋﺪاﺩ ﻣﻦ ﻳﻀﻊ اﻟﺤﺪﻳﺚ
الكامل لابن عدي :9/ 124
یعنی یہ ثقات سے منکر رواتیں بیان کرتا جنہیں اس نے ان پر گھڑا اور یہ ثقات کی روایات چوری کرتا تھا سو اس کی مرویات موضوع ومنکر کے حکم میں ہیں۔
اس راوی پر سخت اور شدید جرح کے لیے دیکھیے تاریخ بغداد :16/ 245(7431)
اس سند میں صالح بن عمران الدعاء راوی بھی توثیق معتبر نہیں رکھتا ہے بس دارقطنی نے لابأس به کہا ہے (دیکھیے تاریخ بغداد :10/ 437
حافظ ذہبی نے کہا:
ﺻﻮﻳﻠﺢ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻭﻟﻴﺲ ﺑﺎﻟﻘﻮﻱ
المغنی فی الضعفاء :(2837)
ایسے راوی کا تفرد احکام وعقیدہ میں ہرگز قبول نہیں ہوتا ہے۔
سیدنا عبد الله بن عمر رضى الله عنه سے منسوب روایت کی حقیقت:
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺷﻌﻴﺐ اﻟﺤﺮاﻧﻲ، ﺛﻨﺎ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ اﻟﺒﺎﺑﻠﺘﻲ، ﺛﻨﺎ ﺃﻳﻮﺏ ﺑﻦ ﻧﻬﻴﻚ، ﻗﺎﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﻋﻄﺎء ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺭﺑﺎﺡ، ﻳﻘﻮﻝ: ﺳﻤﻌﺖ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ، ﻳﻘﻮﻝ: ﺳﻤﻌﺖ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﻳﻮﻡ ﺃﺩﺧﻞ ﺭﺟﻞ ﻓﻲ ﻗﺒﺮﻩ، ﻓﺄﺗﺎﻩ ﻣﻠﻜﺎﻥ ﻓﻘﺎﻻ ﻟﻪ: ﺇﻧﺎ ﺿﺎﺭﺑﻮﻙ ﺿﺮﺑﺔ، ﻓﻘﺎﻝ ﻟﻬﻤﺎ: ﻋﻼﻡ ﺗﻀﺮﺑﺎﻧﻲ؟ ﻓﻀﺮﺑﺎﻩ ﺿﺮﺑﺔ اﻣﺘﻸ ﻗﺒﺮﻩ ﻣﻨﻬﺎ ﻧﺎﺭا، ﻓﺘﺮﻛﺎﻩ ﺣﺘﻰ ﺃﻓﺎﻕ ﻭﺫﻫﺐ ﻋﻨﻪ اﻟﺮﻋﺐ، ﻓﻘﺎﻝ ﻟﻬﻤﺎ ﻋﻼﻡ ﺿﺮﺑﺘﻤﺎﻧﻲ؟ ﻓﻘﺎﻻ: ﺇﻧﻚ ﺻﻠﻴﺖ ﺻﻼﺓ، ﻭﺃﻧﺖ ﻋﻠﻰ ﻏﻴﺮ ﻃﻬﻮﺭ، ﻭﻣﺮﺭﺕ ﺑﺮﺟﻞ ﻣﻈﻠﻮﻡ ﻭﻟﻢ ﺗﻨﺼﺮﻩ
المعجم الكبير للطبراني :(13610) سنده ضعيف جدا
اس سند میں پہلی علت:
یحیی بن عبد الله البابلتي راوی ہے جو کثیر الخطاء اور سوء حفظ کا شکار تھا
امام ابن حبان نے بڑی عمدہ گفتگو کی ہے اس کے ترجمہ میں آپ نے کہا:
ﻛﺎﻥ ﻛﺜﻴﺮ اﻟﺨﻄﺄ ﻻ ﻳﺪﻓﻊ ﻋﻦ اﻟﺴﻤﺎﻉ ﻭﻟﻜﻨﻪ ﻳﺄﺗﻲ ﻋﻦ اﻟﺜﻘﺎﺕ ﺑﺄﺷﻴﺎء ﻣﻌﻀﻼﺕ ﻣﻤﻦ ﻛﺎﻥ ﻳﻬﻢ ﻓﻴﻬﺎ ﺣﺘﻰ ﺫﻫﺐ ﺣﻼﻭﺗﻪ ﻋﻦ اﻟﻘﻠﻮﺏ ﻟﻤﺎ ﺷﺎﺏ ﺃﺣﺎﺩﻳﺜﻪ اﻟﻤﻨﺎﻛﻴﺮ ﻓﻬﻮ ﻋﻨﺪﻱ ﻓﻴﻤﺎ اﻧﻔﺮﺩ ﺑﻪ ﺳﺎﻗﻂ اﻻﺣﺘﺠﺎﺝ ﻭﻓﻴﻤﺎ ﻟﻢ ﻳﺨﺎﻟﻒ اﻟﺜﻘﺎﺕ ﻣﻌﺘﺒﺮ ﺑﻪ ﻭﻓﻴﻤﺎ ﻭاﻓﻖ اﻟﺜﻘﺎﺕ ﻣﺤﺘﺞ ﺑﻪ ﻭﻻ ﻳﺘﻮﻫﻢ ﻣﺘﻮﻫﻢ ﺃﻥ ﻣﺎ ﻟﻢ ﻳﺨﺎﻟﻒ اﻷﺛﺒﺎﺕ ﻫﻮ ﻣﺎ ﻭاﻓﻖ اﻟﺜﻘﺎﺕ ﻷﻥ ﻣﺎ ﻳﺨﺎﻟﻒ اﻷﺛﺒﺎﺕ ﻫﻮ ﻣﺎ ﺭﻭﻯ ﻣﻦ اﻟﺮﻭاﻳﺎﺕ اﻟﺘﻲ ﻻ ﺃﺻﻮﻝ ﻟﻬﺎ ﻣﻦ ﺣﺪﻳﺚ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻭﺇﻥ ﺃﺗﻰ ﺑﺰﻳﺎﺩﺓ اﺳﻢ ﻓﻲ اﻹﺳﻨﺎﺩ ﺃﻭ ﺇﺳﻘﺎﻁ ﻣﺜﻠﻪ ﻣﻤﺎ ﻫﻮ ﻣﺤﺘﻤﻞ ﻓﻲ اﻹﺳﻨﺎﺩ ﻭﺃﻣﺎ ﻣﺎ ﻭاﻓﻖ اﻟﺜﻘﺎﺕ ﻓﻬﻮ ﻣﺎ ﻳﺮﻭﻱ ﻋﻦ ﺷﻴﺦ ﺳﻤﻊ ﻣﻨﻪ ﺟﻤﺎﻋﺔ ﻣﻦ اﻟﺜﻘﺎﺕ ﻓﺈﻥ ﺃﺗﻰ ﺑﺎﻟﺸﻲء ﻋﻠﻰ ﺣﺴﺐ ﻣﺎ ﺃﺗﻮا ﺑﻪ ﻋﻦ ﺷﻴﺨﻪ ﻭﻣﺎ اﻧﻔﺮﺩ ﻣﻦ اﻟﺮﻭاﻳﺎﺕ ﻓﻬﻮ ﺯﻳﺎﺩﺓ اﻷﻟﻔﺎﻅ اﻟﺘﻲ ﻳﺮﻭﻳﻬﺎ ﻋﻦ اﻟﺜﻘﺎﺕ ﺃﻭ ﺇﺗﻴﺎﻥ ﺃﺻﻞ ﺑﻄﺮﻳﻖ ﺻﺤﻴﺢ ﻓﻬﺬا ﻏﻴﺮ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﻣﻨﻪ ﻟﻤﺎ ﺫﻛﺮﻧﺎ ﻣﻦ ﺳﻮء ﺣﻔﻈﻪ ﻭﻛﺜﺮﺓ ﺧﻄﺌﻪ ﻭﺃﻧﻪ ﻟﻴﺲ ﺑﺎﻟﻤﺤﻞ اﻟﺬﻱ ﺗﻘﺒﻞ ﻣﻔﺎﺭﻳﺪﻩ ﻭﺇﻧﻤﺎ ﺗﻘﺒﻞ اﻟﻤﻔﺎﺭﻳﺪ ﺇﺫا ﻛﺎﻥ ﺭﻭاﺗﻬﺎ ﻋﺪﻭﻻ ﻓﻠﻴﺲ ﻳﻌﻘﻠﻮﻥ ﻣﺎ ﻳﺤﺪﺛﻮﻥ ﻋﺎﻟﻤﻮﻥ ﺑﻤﺎ ﻳﺤﻴﻠﻮﻥ ﻣﻦ ﻣﻌﺎﻧﻲ اﻷﺧﺒﺎﺭ ﻭﺃﻟﻔﺎﻇﻬﺎ ﻓﺄﻣﺎ اﻟﺜﻘﺔ اﻟﺼﺪﻭﻕ ﺇﺫا ﻟﻢ ﻳﻜﻦ ﻳﻌﻠﻢ ﻣﺎ ﻳﺤﻴﻞ ﻣﻦ ﻣﻌﺎﻧﻲ اﻷﺧﺒﺎﺭ ﻭﺣﺪﺙ ﻣﻦ ﺣﻔﻈﻪ ﺛﻢ اﻧﻔﺮﺩ ﺑﺄﻟﻔﺎﻅ ﻋﻦ اﻟﺜﻘﺎﺕ ﻟﻢ ﻳﺴﺘﺤﻖ ﻗﺒﻮﻟﻬﺎ ﻣﻨﻪ ﻷﻧﻪ ﻟﻴﺲ ﻳﻌﻘﻞ ﺫﻟﻚ ﻭﻟﻌﻠﻪ ﺃﺣﺎﻟﻪ ﻣﺘﻮﻫﻤﺎ ﺃﻧﻪ ﺟﺎﺋﺰ ﻓﻤﻦ ﺃﺟﻞ ﻣﺎ ﺫﻛﺮﻧﺎ ﻟﻢ ﺗﻘﺒﻞ اﻟﺰﻳﺎﺩﺓ ﻓﻲ اﻷﺧﺒﺎﺭ ﺇﻻ ﻋﻤﻦ ﺳﻤﻴﻨﺎ ﻣﻦ اﻟﻌﺪﻭﻝ ﻋﻠﻰ اﻟﺸﺮﻁ اﻟﺬﻱ ﻭﺻﻔﻨﺎ
المجروحین لابن حبان :3/ 127 ،128
امام أبو حاتم الرازی نے کہا:
ﻻ اﻭﻫﻤﺘﻪ اﻧﻰ ﻟﻢ اﻛﺘﺐ ﻋﻨﻪ ﻣﻦ اﺟﻞ ﺿﻌﻔﻪ
الجرح والتعدیل :9/ 164
امام أبو زرعہ الرازی نے کہا:
ﻻ ﺃﺣﺪﺙ ﻋﻨﻪ ﻭﻟﻢ ﻳﻘﺮﺃ ﻋﻠﻴﻨﺎ ﺣﺪﻳﺜﻪ
الجرح والتعدیل :9/ 165
امام ابن عدی نے کہا:
ﻭﻳﺮﻭﻯ ﻋﻦ ﻏﻴﺮ اﻷﻭﺯاﻋﻲ ﻣﻦ اﻟﻤﺸﻬﻮﺭﻳﻦ ﻭاﻟﻤﺠﻬﻮﻟﻴﻦ ﻭاﻟﻀﻌﻒ ﻋﻠﻰ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﺑﻴﻦ
الکامل لابن عدی :9/ 120
امام بیھقی نے ایک روایت کے تحت کہا:
ﺗﻔﺮﺩ ﺑﻪ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﻭﻟﻴﺲ ﺑﺎﻟﻘﻮﻱ الأسماء والصفات للبيهقى :(248)
مزید ابن حجر وغیرہ نے بھی اسے ضعیف کہا ہے۔
یہ راوی کثیر الخطاء ہونے کے سبب ترک کر دیا گیا ہے اور ایسے راوی کی روایت عقیدہ واحکام میں قبول نہیں کی جاتی ہے
امام عبدالرحمن بن مھدی نے محمد بن مثنی سے کہا:
احفظ عنی الناس ثلاثة رجل حافظ متقن فهذا لا يختلف فيه ، و أخر يهم والغالب على حديثه الصحة فهو لا يترك و لو ترك حديث مثل هذا لذهب حديث الناس، و آخر الغالب على حديثه الوهم فهذا يترك حديثه۔
التمییز للإمام مسلم:ص:179 واللفظ له الضعفاءالکبیر للعقیلی:1/ 12 الجرح والتعديل:2/ 38، الکامل لابن عدی:1/264
المحدث الفاصل:ص:406 فضل الأخبار:82 وغيره۔
اور کہا:
ثلاثة لا يحمل عنهم الرجل المتهم بالكذب، والرجل كثيرالوهم والغلط، ورجل صاحب هوى يدعو إلى بدعة
العلل ومعرفة الرجال:3/ 218(4947) سنده صحيح
راجح یہی ہے کہ جو راوی بدعت مکفرہ کا مرتکب نہیں اور وہ ثقہ وعادل وضابط ہے اور اس کی بیان کردہ روایت میں کوئی اور علت نہیں تو ایسا راوی قابل حجت ہے۔
تقدمة الجرح والتعديل میں ہے
ومنهم الصدوق في روايته الورع في دينه الثبت الذي يهم أحيانا
وقد قبله الجهابذة النقاد فهذا يحتج بحديثه أيضا۔
و منهم الصدوق الورع المغفل الغالب عليه الوهم والخطاءوالسهو والغلط فهذا يكتب من حديثه الترغيب والترهيب والزهد والآداب ولا يحتج بحديثه في الحلال والحرام
دوسری علت ہے أیوب بن نھیك راوی کا ضعیف ہونا
امام أبو حاتم الرازی نے کہا:
هو ضعيف الحديث
الجرح والتعديل :2/ 259
امام أبو زرعہ الرازی نے کہا:
ﻫﻮ ﻣﻨﻜﺮ اﻟﺤﺪﻳﺚ
الجرح والتعديل :2/ 259
حافظ ذہبی نے کہا:
تركوه
المغنی فی الضعفاء :(837)
حافظ ابن حجر نے کہا:
ﻓﻴﻪ ﺃﻳﻮﺏ ﺑﻦ ﻧﻬﻴﻚ ﻭﻫﻮ ﻣﻨﻜﺮ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻗﺎﻟﻪ ﺃﺑﻮ ﺯﺭﻋﺔ
فتح الباری :2/ 409
حافظ ہیثمی نے کہا:
ﻭﻓﻴﻪ ﺃﻳﻮﺏ ﺑﻦ ﻧﻬﻴﻚ، ﻭﻫﻮ ﻣﺘﺮﻭﻙ، ﺿﻌﻔﻪ ﺟﻤﺎﻋﺔ ﻭﺫﻛﺮﻩ اﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ ﻓﻲ اﻟﺜﻘﺎﺕ ﻭﻗﺎﻝ: ﻳﺨﻄﺊ
مجمع الزوائد :2/ 184
تو یوں یہ روایت اس سند سے بھی سخت ضعیف ہے۔
میں کہتا ہوں یہ روایت علی الراجح عمرو بن شرحبیل تابعی پر مرسل ہے ملاحظہ فرمائیں
عبد الرزاق ﻋﻦ ﻣﻌﻤﺮ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺇﺳﺤﺎﻕ، ﻋﻦ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﺷﺮﺣﺒﻴﻞ ﻗﺎﻝ: ﻣﺎﺕ ﺭﺟﻞ ﻓﻠﻤﺎ ﺃﺩﺧﻞ ﻗﺒﺮﻩ ﺃﺗﺘﻪ اﻟﻤﻼﺋﻜﺔ ﻓﻘﺎﻟﻮا: ﺇﻧﺎ ﺟﺎﻟﺪﻭﻙ ﻣﺎﺋﺔ ﺟﻠﺪﺓ ﻣﻦ ﻋﺬاﺏ اﻟﻠﻪ ﻗﺎﻝ: ﻓﺬﻛﺮ ﺻﻼﺗﻪ ﻭﺻﻴﺎﻣﻪ ﻭﺟﻬﺎﺩﻩ ﻗﺎﻝ: ﻓﺨﻔﻔﻮا ﻋﻨﻪ ﺣﺘﻰ اﻧﺘﻬﻰ ﺇﻟﻰ ﻋﺸﺮﺓ، ﺛﻢ ﺳﺄﻟﻬﻢ ﺣﺘﻰ ﺧﻔﻔﻮا ﻋﻨﻪ ﺣﺘﻰ ﺃﺗﻰ ﺇﻟﻰ ﻭاﺣﺪﺓ ﻓﻘﺎﻟﻮا ﺇﻧﺎ ﺟﺎﻟﺪﻭﻙ ﺟﻠﺪﺓ ﻭاﺣﺪﺓ ﻻ ﺑﺪ ﻣﻨﻬﺎ ﻓﺠﻠﺪﻭﻩ ﺟﻠﺪﺓ اﺿﻄﺮﻡ ﻗﺒﺮﻩ ﻧﻬﺎﺭا، ﻭﻏﺸﻲ ﻋﻠﻴﻪ، ﻓﻠﻤﺎ ﺃﻓﺎﻕ ﻗﺎﻝ: ﻓﻴﻢ ﺟﻠﺪﻭﻧﻲ ﻫﺬﻩ اﻝﺟﻠﺪﺓ؟ ﻗﺎﻟﻮا: ﺇﻧﻚ ﺑﻠﺖ ﻳﻮﻣﺎ ﺛﻢ ﺻﻠﻴﺖ ﻭﻟﻢ ﺗﺘﻮﺿﺄ، ﻭﺳﻤﻌﺖ ﺭﺟﻼ ﻳﺴﺘﻐﻴﺚ ﻣﻈﻠﻮﻣﺎ ﻓﻠﻢ ﺗﻐﺜﻪ مصنف عبد الرزاق :(6752) سنده ضعيف أبو اسحاق السبیعی مدلس ومختلط
حدثنا حميد بن عبد الرحمن عن أبيه عن أبي إسحاق عن عمرو بن شرحبيل قال: مات رجل يرون أن عنده ورعا، فأتي في قبره فقيل له: إنا جالدوك مائة جلدة من عذاب اللَّه، قال: فيم تجلدوني؟ فقد كنت أتوقى وأتورع، فقيل: خمسون، فلم يزالوا يناقصونه حتى صار إلى جلدة فجُلد، فالتهب القبر عليه نارا وهلك الرجل ثم أعيد فقال: فيم جلدتموني؟ قالوا: صليت يوم تعلم وأنت على غير وضوء، واستغاثك الضعيف المسكين فلم تغثه مصنف ابن أبي شيبة :(37635) ت: سعد بن ناصر الشثري
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺇﺳﺤﺎﻕ اﻟﺮاﺯﻱ , ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻨﺎﻥ , ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺇﺳﺤﺎﻕ , ﻋﻦ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﺷﺮﺣﺒﻴﻞ ﻗﺎﻝ: ” ﻣﺎﺕ ﺭﺟﻞ ﻓﺄﺗﺎﻩ ﻣﻠﻚ ﻣﻌﻪ ﺳﻮﻁ ﻣﻦ ﻧﺎﺭ , ﻓﻘﺎﻝ: ﺇﻧﻲ ﺟﺎﻟﺪﻙ ﺑﻬﺬا ﻣﺎﺋﺔ ﺟﻠﺪﺓ ﻗﺎﻝ: ﻓﻴﻢ؟ ﻋﻼﻡ؟ ﻗﺪ ﻛﻨﺖ ﺃﺗﻘﻲ ﺟﻬﺪﻱ ﻗﺎﻝ: ﻓﺠﻌﻞ ﻳﻮاﺿﻌﻪ ﻭﻓﻲ ﻛﻞ ﺫﻟﻚ ﻳﻘﻮﻝ: ﻓﻴﻢ؟ ﻋﻼﻡ؟ ﻭﻗﺪ ﻛﻨﺖ ﺃﺗﻘﻲ ﺟﻬﺪﻱ ﺣﺘﻰ ﺑﻠﻎ ﻓﺠﻠﺪﻩ ﺟﻠﺪﺓ اﻟﺘﻬﺐ ﻗﺒﺮﻩ ﻋﻠﻴﻪ ﻣﻨﻬﺎ ﻧﺎﺭا ﻗﺎﻝ: ﺇﻧﻚ ﺑﻠﺖ ﻳﻮﻣﺎ ﺛﻢ ﺻﻠﻴﺖ ﻋﻠﻰ ﻏﻴﺮ ﻭﺿﻮء , ﻭﺩﻋﺎﻙ ﻣﻈﻠﻮﻡ ﻓﻠﻢ ﺗﺠﺒﻪ الزهد لهناد بن السري:(362)حلية الأولياء لأبى نعيم الأصبهاني :4/ 144
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ اﻟﺤﺮﺑﻲ، ﻧﺎ ﻳﺤﻴﻰ، ﻧﺎ ﺷﺮﻳﻚ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺇﺳﺤﺎﻕ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻣﻴﺴﺮﺓ؛ ﻗﺎﻝ: ﺃﺗﻰ ﺭﺟﻞ ﻓﻲ ﻗﺒﺮﻩ، ﻓﻘﻴﻞ ﻟﻪ: ﺇﻧﺎ ﺿﺎﺭﺑﻮﻙ ﻣﺌﺔ ﺿﺮﺑﺔ. ﻓﻘﺎﻝ: ﻻ ﻃﺎﻗﺔ ﻟﻲ ﺑﻤﺌﺔ ﺿﺮﺑﺔ ﻣﻦ ﻋﺬاﺏ اﻟﻠﻪ. ﻓﻘﻴﻞ ﻟﻪ: ﻓﺨﻤﺴﻴﻦ ﺿﺮﺑﺔ! ﻓﻠﻢ ﻳﺰاﻟﻮا ﺑﻪ؛ ﺣﺘﻰ ﻗﺎﻝ: ﻓﺈﻥ ﻛﻨﺘﻢ ﻻ ﺑﺪ ﺿﺎﺭﺑﻲ؛ ﻓﻀﺮﺑﺔ ﻭاﺣﺪ. ﻓﻀﺮﺏ ﺿﺮﺑﺔ ﻭاﺣﺪﺓ اﻟﺘﻬﺐ ﻗﺒﺮﻩ ﻧﺎﺭا، ﻓﻠﻤﺎ اﺣﺘﺮﻕ؛ ﻗﻴﻞ ﻟﻪ: ﺗﺪﺭﻱ ﻓﻴﻢ ﺫﻟﻚ؟ﻗﺎﻝ: ﻻ. ﻗﻴﻞ ﻟﻪ: ﻣﺮﺭﺕ ﺑﻤﻈﻠﻮﻡ ﻓﻲ اﻟﺪﻧﻴﺎ ﻓﻠﻢ ﺗﻨﺼﺮﻩ، ﻭﺻﻠﻴﺖ ﺻﻼﺓ ﻭﺃﻧﺖ ﻋﻠﻰ ﻏﻴﺮ ﻭﺿﻮء ﻭﺃﻧﺖ ﺗﻌﻠﻢ المجالسة للدينورى:(934) ،ترتيب الأمالي الخميس للشجري :(2290)
ثقہ تابعی عمرو بن شرحبیل صحابی کے واسطہ کے بغیر ایک ایسی چیز بیان کر رہے ہیں جس کا تعلق امور غیب کے ساتھ ہے اور یہ ایسی خبر ہے جو ثقات حفاظ نے بیان نہیں کی ہے نہ ہی اس پر کوئی صحیح حدیث موجود ہے جو اس کی شاہد بنے ہاں قبر میں دو لوگوں کو عذاب دیئے جانے کا جو ذکر صحیح البخاری وغیرہ کی حدیث میں ہے تو اسے رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے وحی الہی کے ذریعے بیان فرمایا تھا اور رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ہی وحی کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا ہے لہزا ایک غیر نبی کی بیان کردہ خبر غیب پر ہرگز یقین و اعتماد نہیں کیا جا سکتا ہے۔
الحاصل: یہ روایت منکر وغیر ثابت ہے۔
مگر گناہ بغیر وضو کے نماز پڑھنا ہو یا کسی مظلوم کو بے یارو مددگار چھوڑ دینا یا کوئی اور اس پر رب العالمین سزا دینے پر اور معاف کرنے پر پوری طرح قادر ہیںجیسے قبر میں پیشاب کی چھینٹوں سے نہ بچنے والے کا اور چغل خور کا انجام رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے بیان فرمایا
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب۔
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ