مولوی صاحب کے حوالے سے کی گئی پوسٹوں پر ایک صاحب نے متعدد کمنٹ کرکے یہ بات بتانے کی کوشش کی کہ قرآن مجید کی تعلیم پر تنخواہ یا رقم لینا ناجائز اور حرام ہے۔میں نے ان صاحب کو جو ڈاکٹر تھے(انجینئر نہیں)حدیث بتائی، جس میں صرف سورہ فاتحہ کے ایک دم کے عوض صحابہ نے کوئی 30-40 بکریاں وصول کیں۔ سفر سے واپس آ کر انھوں نے یہ واقعہ نبی کریم کے گوش گزار کیا تو آپ نے اس معاملے کے گناہ نہ ہونے کا بھی بتایا اور طبیعتوں سے اس چیز سے نفور کو دور کرنے کیلئے یہ بھی فرمایا کہ میرا حصہ بھی نکالو، اس پر ان صاحب نے مجھے بتایا کہ میں غلط سیاق سباق میں اس حدیث کو فٹ کر رہا ہوں۔ میں نے عرض کی کہ اس میں کچھ زیادہ قصور میرا نہیں، دراصل مجھ سے پہلے امام بخاری بھی اس حدیث کو غلط فٹ فرما چکے ہیں۔
ویسے یہ مسئلہ جمہور ائمہ دین کے نزدیک ایسے ہی ہے۔ سوائے ہمارے احناف کے،وہ دینی تعلیم پر اجرت کے قائل نہیں۔ عمل البتہ ان کا بھی اسی پر نظر آتا ہے۔ یقینا وہ مساجد اور مدارس میں ائمہ و اساتذہ کے تنخواہ پانے کی کوئی تاویل کرتے ہوں گے۔اس پر مجھے ایک لطیفہ بھی یاد آگیا۔ شیخ الحدیث عبداللہ امجد چھتوی رحمہ اللہ بڑے مشہور عالم دین تھے۔ مناظر بھی تھے اور ظاہر ہے مناظر بلا کا حاضر جواب اور نکتہ سنج ہوتا ہے۔ایک واقعہ انھوں نے سنایا کہ ایک حنفی عالم دین سے جب انھوں نے پوچھا کہ جب امام ابو حنیفہ اس بات کے قائل نہیں تو آپ حنفی ہو کر بھی قرآن کی تعلیم کے عوض اجرت کیوں قبول کرتے ہیں۔ انھوں نے جوابا بتایا کہ ہم اجرت قرآن کے عوض نہیں لیتے بلکہ اپنے اس وقت کے عوض لیتے ہیں، جو اس دوران صرف ہوتا ہے۔
چھتوی صاحب فرمانے لگے، اچھا اس کا مطلب ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو تو اس کا پتہ نہیں ہوگا کہ قرآن پڑھاتے ہوئے وقت بھی لگتا ہے۔
#یوسف_سراج
دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں،آگ بجھانے اور مسئلہ سلجھانے والے لوگ اور دوسرے آگ کو اور زیادہ بڑھکانے اور مسئلہ کو مسائل کا انبار بنانے والے لوگ۔
اللہ کرے آپ مسئلہ سلجھانے والے بنیں نہ کہ اسے مزید الجھانے اور لگی آگ کو مزید بڑھکانے والے۔
#یوسف_سراج
یہ بھی پڑھیں:دینی مدارس یا عصری یونیورسٹیاں؟