سوال (3996)
شیوخ کرام سے رہنمائی کی درخواست ہے کہ دوران تلاوت امام صاحب غلطی کرتے ہوں اور سامع لقمہ نہ دے، تو کیا اس میں گناہ ہے؟ نیز اگر کوئی دوسرا حافظ بھی ساتھ سماعت کر رہا ہے تو کیا اسے لقمہ دینا چاہیے؟ اور اگر فتنہ کے ڈر یا کسی اور وجہ سے نہ دے تو کیا گناہگار ہوگا؟
جواب
شرعاً یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اس کو لقمہ دینا چاہیے، اس میں کیا حرج ہے، زیادہ سے زیادہ امام صاحب ناراض ہونگے یا کلاس لگائیں گے، ان کو قائل کرنا چاہیے، اگر فتنے کا ڈر ہے تو خاموش رہنا چاہیے، پھر تو الگ بات ہے کوئی گناہ نہیں ہے، بے مقصد اگر چھوڑتا ہے تو کچھ نہ کچھ نمبر کٹیں گے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
جیسا کہ شیخ نے فرمایا ہے کہ امام غلطی کرے تو اس کی تصحیح کریں، لیکن اگر فتنے کا ڈر ہو تو پھر درء مفسدت کے تحت خاموش رہا جا سکتا ہے لیکن ایسے لوگ امام بننے کے قابل نہیں ہیں جو ایک تو غلطی کرتے ہیں دوسرا غلطی نکالنے پر فتنہ و فساد کھڑا کرتے ہیں۔
کیونکہ قرآن کریم میں جان بوجھ کر غلطیاں کرنا اور اس پر خاموش رہنا تحریف قرآن کے مترادف ہے۔
اہل علم نے قران کریم کی ادائیگی میں لحن جلی اور لحن خفی تک کا خیال رکھا ہے، جان بوجھ کر غلط پڑھنا یہ ادائیگی کی غلطی سے بڑا جرم ہے۔
اس بات کی تائید نہیں کی جا سکتی کہ ہر کوئی امام کو لقمہ دینا شروع کر دے، لیکن انتظامیہ، امام، سامع سب اس حوالے سے جواب دہ ہوں گے اگر قرآن غلط پڑھا جاتا رہا اور سب خاموش رہے۔
فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ