علماکی خدمت، اور عزت وتکریم کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ ان کے تذکرہ خیر کو عام کیا جائے، اس لیے ہم نے ’تعارفِ علما‘ کا سلسلہ شروع کیا، اسی مبارک سلسلے کی ایک اہم کڑی شیخِ محترم کا یہ انٹرویو ہے۔آپ ایک کہنہ مشق مدرس، شیخ الحدیث، مصنف اور سیکڑوں علما کے استاد ہیں، جس کی تفصیل انٹرویو میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ (ادارہ)

سوال: شیخ محترم اپنے نام سے آگاہ فرمائیں ؟ تاریخ پیدائش اور جائے ولادت کیا ہے؟
جواب: میری والدہ محترمہ کے بقول میرا نام ’محمد ابراہیم‘ تجویز کیا گیا تھا ، لیکن ماہِ رمضان میں پیدائش کی وجہ سے گاؤں کے رہنے والے ایک بزرگ نے میرا نام ’محمد رمضان‘ رکھا ، اور اس نے کہا کہ یہ ماہِ رمضان میں ولادت کی وجہ سے اپنا نام رکھوا کرہی آیا ہے ، تو اس وقت سے یہی نام مشہور ہوگیا ، مگر میری خواہش اب تک یہی ہے کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے نام پر میرا نام ’محمد ابراہیم‘ ہی ہوتا۔
میری ولادت 25 دسمبر 1958ء کو میاں چنوں شہر سے جنوب کی جانب 16 یا 17 کلو میٹر پر واقع گاؤں 96/15 ایل میں ہوئی۔
سوال : اپنے والد کے نام اور پیشہ سے آگاہ فرمائیں؟ ممکن ہو تو خاندانی پسِ منظر ذکر کر دیں؟
جواب: ہمارا تعلق آرائیں خاندان سے ہے ، والد صاحب کا نام ’محمد شریف‘ تھا جو پانچ بھائی تھے ، جن میں سے ایک بفضل اللہ زندہ ہے ، باقی چار فوت ہوچکے ہیں ، والد صاحب 2009ء میں وفات پاگئے تھے ۔ والد صاحب زراعت پیشہ تھے پانچ ایکڑ ذاتی رقبہ تھا ، جس میں وہ کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے۔ ہمارے دادا ’امام الدین‘1947ء میں ھندوستان کے ضلع فیروزپور چک مندراں سے پاکستان بمع خاندان ہجرت کرکے آئے تھے ، الحمدللہ خاندان میں دینی رجحان غالب تھا ، خاندان کے اکثر افراد صوم و صلاۃ کے پابند تھے۔
سوال : آپ کی شادی کب اور کیسے ہوئی؟
جواب: میں نے دینی تعلیم کا آغاز میاں چنوں شہر کے قریب مدرسے دارالھدٰی واقع گاؤں 126/15ایل میں کیا، جہاں میں پانچ سال تک پڑھتا رہا۔ میرے استاذ حضرت مولانا محمد یحیٰ فیروز پوری رحمہ اللہ تھے ، جن کا تأثر میرے بارے میں بہت اچھا تھا ، اور ان کے ہاں ہی 1980ء میں شادی ہوئی ، لہٰذا میرے استاذ ہی میرے سسر ہیں۔
سوال : آپ کی تعلیم اور تدریس کا دورانیہ کتنا ہے ؟ اور ابتدا سے تکمیلِ تعلیم کا سفر بیان کردیں؟
جواب: میری تعلیم کا دورانیہ عصری تعلیم سمیت تقریباً بیس سال پر مشتمل ہے ، جیسا کہ میں نے ابھی ذکر کیا کہ میری تعلیم کا آغاز -عصری تعلیم کے بعد- مدرسہ دار الھدٰی میں ہوا جہاں میں پانچ سال پڑھتا رہا ، اس کے بعد اوڈانوالہ مدرسہ تقویۃ الاسلام میں دو سال تک زیرِ تعلیم رہا، اس کے بعد جامعہ محمدیہ (گجرانوالہ) آمد ہوئی اور دو سال تک استفادہ جاری رہا ، بعد ازیں سعودیہ جامعة الامام محمد بن سعود الاسلامية میں داخلہ ہوا ، اور وہاں پانچ سال تک زیرِتعلیم رہا ، آغاز میں گورنمنٹ سکول میں پرائمری پاس کرنے کے پانچ سال شامل کر لیں تو یہ ایک سال کم بیس سال دورانیہ بنتا ہے۔
تدریس کا دورانیہ چالیس سال ہے ، کیونکہ سعودیہ جانے سے قبل دوسال تدریس کرچکا تھا ، سعودیہ سے فراغت کے بعد 1986ءسے 2021ء تک اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جامعۃ لاہور الاسلامیۃ (جامعہ رحمانیہ)میں تدریس کی ، بعد ازیں جامعۃ بلال الاسلامیۃ (یوکے سنٹر لاہور)میں مصروفِ تدریس ہوں ، یہاں کے مدیر محترم سید علی ھاشمی ہیں جو بڑے ملنسار ہیں ۔ اور ادارےکا مدیر ہونے کے باوجود بندہ ناچیز کو بڑا اکرام دیتے ہیں ، اور میں بھی ان کے لیے اور ادارہ کے سر پرست میاں کاشف صاحب کے لیےدعاگو رہتا ہوں۔
سوال : آپ کے اساتذہ اور شاگردوں میں کون کون سے نام آتے ہیں؟
جواب: اساتذہ کرام میں چند نام یہ ہیں ۔ مولانا محمد یحیٰ صاحب رحمہ اللہ ،مولانا محمد یعقوب رحمہ اللہ ، مولانا عبدالصمد رحمہ اللہ ، مولانا خلیل رحمہ اللہ تعالی ، مولانا عبدالمجید حفظہ اللہ (آف اوڈانوالہ) مولانا عبدالحمید رحمہ اللہ ، مولانا حافظ عبدالمنان رحمہ اللہ تعالی، مولانا حافظ عبدالسلام بھٹوی حفظہ اللہ (آف گجرانوالہ) ، مولانا حافظ عبداللہ بڈھی مالوی رحمہ اللہ تعالی اور محدثِ زمان علامہ حافظ محمد گوندلوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ ، ان سے بہت استفادہ کیا ، ان سے پڑ ھ کر ہی ہم صحیح بخاری پڑھانے کے قابل ہوئے۔
شاگردوں کے نام احاطہ میں لانا دشوار ہے ، بس ان کے لیے دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنے اپنے مشن میں کامیاب فرمائے ، اور ہمیں ان کے ساتھ اعلیٰ جنتوں میں جمع کردے ، آمین یا رب العالمین۔
سوال : تصنیف و تالیف کے میدان میں آپ نے کیا خدمات سر انجام دیں ؟
جواب: سعودیہ سے فراغت کے بعد جامعہ رحمانیہ میں تدریس کے دوران فتنہ انکارِ حدیث کے رد میں لکھنا شروع کیا ، اور یہ مضامین ماھنامہ ’’محدّث ‘‘ لاہور میں چھپتے رہے ۔ منکرِ حدیث غلام احمد پرویز کے پیروکاروں نے اپنے رسالہ ’’طلوع اسلام‘‘ میں ایک نحوی مسئلہ کو اہلحدیث کے خلاف ھوّا بنایا ہوا تھا ، بندہ ناچیز نے منکرین حدیث کے عربی زبان سے ناواقفی کے عنوان سے ایک مضمون سپردِ قلم کیا جو ماھنامہ ’’محدّث‘‘ میں دو قسطوں میں شائع ہوا ، اور ان کے اعتراضات کا تسلی بخش جواب دیا ، یہ میرا پہلا مضمون تھا ، اس کے بعد یہ سلسلہ چلتا رہا ، 2021ء میں ’’خبر واحد کی حجیت کو تعاملِ أمت حاصل ہے‘‘ کے عنوان سے آخری مضمون ’’محدّث‘‘میں شائع ہوا، اس کے بعد بندہ ناچیز نے (منحۃ الباری شرح صحیح بخاری) کا کام شروع کردیا ، جس کی اب تک بارہ جلدیں چھپ چکی ہیں ، الحمد للہ علی ذلک، باقی کام اللہ تعالیٰ کی توفیق سے جاری ہے ، بارہ مجلدات میں چونکہ کمپوزنگ کی غلطیاں موجود ہیں ، اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ ان غلطیوں کو درست کرکے اسے ازسرِ نو طبع کرنے کی توفیق مرحمت فرمائےآمین۔
سوال : دعوت و تبلیغ کے حوالہ سے خدمات کے متعلق کچھ فرمائیں گے؟
جواب: جون 1989ء سے جامع مسجد البدر میں خطبات جمعۃ کا سلسلہ شروع کیا جو بفضل اللہ اب تک جاری ہے، اور اسی عرصہ کے دوران جامع مسجد مزمل کوٹ لکھپت میں نماز فجر کے بعد دورس کا سلسلہ بھی جاری رہا، جوکہ اب موقوف ہے ۔ اب جامع مسجد اسحاق لاہور میں ہفتہ وار درس کا سلسلہ شروع ہے ، اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور ریاکاری سے بچائے۔
سوال : طالبانِ علم کو نصیحت فرمادیں؟
جواب: طالبانِ علم کے لیے پہلا پیغام تو یہ ہے کہ وہ وقت کی قدر کریں اور اپنے اوقات کو قیمتی بنانے کی کوشش کریں ، محنت کو شعار بنائیں۔ دینی مدارس میں طلبہ نے فجر کی نماز کے بعد سونے کو ایک فریضہ بنالیا ہے، حالانکہ یہ وقت جاگ کر پڑھنے اور علم کو اَزبر کرنے کا ہے، لہٰذا ایسے اوقات سے علمی فائدہ اٹھائیں، اور سوچیں کہ مخیّر حضرات آپ سے جو مالی تعاون کرتے ہیں وہ اس لیے ہے تاکہ آپ علمی رسوخ حاصل کرکے اسلامی معاشرہ کی صحیح رہنمائی کریں۔ علاوہ ازیں دین کے طالب علم کو اخلاق حسنہ کا حامل ہونا چاہیے تاکہ وہ لوگوں کے لیے ایک نمونہ اور مثال ہو ، عوام الناس اسے دیکھ کر اپنی اصلاح کریں۔ بڑوں کا احترام اور چھوٹوں پر شفقت کو اپنا شعار بنائیں اور جو پڑھیں اس پر عمل کرتے جائیں۔
سوال: کامیاب مدرس کو کن صفات کا حامل ہونا چاہیے؟
جواب: یاد رہے لوگ عالم کے علم کو تو نہیں دیکھ سکتے ، لیکن عمل کو دیکھتے ہیں ، لہٰذا ایک عالم کو شریعت پر عمل کی پابندی کو اپنے اوپر لازم کر لینا چاہیے ، اور شاگرد بھی اپنے پڑھانے والے اساتذہ کے شب و روز کے اعمال کو دیکھتے ہیں ، کہ وہ جو پڑھاتے ہیں اس پر کس قدر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ ان کے ہاں علم کی اہمیت کا معیار اپنے اساتذہ کا عمل ہوتا ہے ، اگر حفّاظِ قرآن اور مدرّسینِ حدیث اور معلّمین نماز باجماعت سے پیچھے رہیں گے تو ان کے شاگرد سمجھیں گے کہ یہ علم بس پڑھنے ، پڑھانے اور ورق گردانی کے لیے ہے عمل کیلئے نہیں ہے ، بہر حال استاد کا عالم باعمل ہونا انتہائی ضروری ہے۔
سوال: فقہ اور اصول فقہ کے بارے میں آپکی کیا رائے ہے؟
جواب: فقہ سے مراد مذھبی فقہ یا مذھبی کتابیں نہیں ہوتیں ، بلکہ یہ لفظ مذھبی فقہ اور اس کے حاملین کے وجود میں آنے سے صدیوں پہلے کتاب اللہ اور حدیث رسول اللہﷺ میں استعمال ہوا ہے ۔قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ) (سورۃ التوبۃ: 122)
اور حدیث نبویﷺ میں فرمانِ رسول ہے:
(مَنْ يُرِدِ اللهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ( (صحیح مسلم :1037)
کتاب و سنت میں لفظ ’’فقہ‘‘مذھبی فقہ کی کتابوں کے وجود میں آنے سے صدیوں پہلے موجود ہے ، اور فقہ سے کتاب و سنت کو سمجھنا مراد ہے لہٰذا جو علما قرآن و حدیث جاننے والے اور انہیں سمجھنے والے ہیں وہ علما ہی فقہا ہیں ، اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ فقہ کی اہمیت انتہائی ضروری ہے۔ جو شخص قرآن و حدیث کو سمجھے گا وہی ان پر صحیح طور پر عمل کرسکے گا۔
باقی رہے اصول فقہ تو جو اصول کتاب و سنّت کے نصوص کو تقویت دینے والے ہیں وہ مسلَّم ہیں ، لیکن جو اصول لوگوں نے احادیث کو رد کرنے کیلئے بنالئے ہیں، جیسا کہ اصول شاشی میں اس کی مثالیں موجود ہیں تو ایسے اصول کوتسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ طالبانِ علم کو چاہیے کہ ان علوم میں دلچسپی لیں ، لیکن غوروفکر اور تدبّر سے کام لیں اور آنکھیں کھول کر پڑھیں۔
سوال: تصویر ، ویڈیو اور میڈیا کے حوالے سے آپکا نقطہ نظر کیا ہے ؟
جواب: امور شرعیہ کی دو قسمیں ہیں۔1۔امور منصوصہ 2۔امور اجتہادیہ
علمائےاسلام کے ہاں اس بات کی قطعاً اجازت نہیں ہے کہ منصوص امور میں دخل دیا جائے اور اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ امور منصوصہ کو معاشرے کی روش کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جائے۔ اگر ہم منصوص اقوال و اعمال کو تاویلات کی بھینٹ چڑھا کر انہیں لوگوں کی خواہشات کے مطابق بدلنے کی کوشش شروع کردیں تو یہ طرزِ عمل اللہ تعالیٰ اور رسولﷺ پر ایمان کے منافی ہے ، بلکہ یہ کمزور ایمان کی علامت ہے، شریعت کو لوگوں کے پیچھے چلانا غلط روش ہے ، علمائے کرام کو چاہیے کہ وہ امورِ منصوصہ میں اس قسم کی متساہلانہ رائے دینے سے گریز کریں ۔
جاندار کی تصویر کی ممانعت بھی امرِ منصوص ہے ، نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے:
(مَنْ صَوَّرَ صُورَةً، فَإِنَّ اللّهَ مُعَذِّبُهُ حَتَّى يَنْفُخَ فِيهَا الرُّوحَ، وَلَيْسَ بِنَافِخٍ فِيهَا أَبَدًا… الحديث) (صحیح بخاری:2225)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
(إِنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَذَابًا عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ القِيَامَةِ المُصَوِّرُونَ) (صحیح بخاری: 5950)
لہٰذا تصویر کے جواز کا فتویٰ دینا بالکل جائز نہیں ہے ، البتہ بعض استثنائی صورتیں ہیں جن کی اضطرار کی وجہ سے اجازت دی جاسکتی ہے ، جیسے کرنسی، نوٹوں اور شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کی تصویر کو بامرِ مجبوری برداشت کیا جاسکتا ہے ، اسی طرح حق کی دعوت دینے کے لیے ٹی وی پروگراموں میں شرکت کی جاسکتی ہے ، کیونکہ ایسی تصویر کشی میں آپکا کوئی عمل و دخل نہیں ہے ، اور اسکی اجازت اس لیے ہے کہ اگر آپ فوٹو گرافی کی وجہ سے شرکت نہیں کریں گے ، تو گمراہ لوگوں کے لیے یہ میدان خالی ہوگا اور کوئی روک ٹوک کرنے والا ان کے مقابلے میں نہیں ہوگا۔
رہے امور اجتہادیہ جو شارع کی طرف سے منصوص نہیں ہیں تو ان میں ایک مجتہد کی رائے دوسرے سے مختلف ہوسکتی ہے ، اور ایک مفتی دلیل کے ساتھ دوسرے سے اختلاف کرسکتا ہے۔

(تمت بالخیر)

یہ بھی پڑھیں: فضیلۃ الشیخ مفتی مبشر احمد ربانی