علامہ عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ شارح سنن نسائی کے فرزند، ہفت روزہ الاعتصام لاہور کے مدیر حافظ احمد شاکر طویل علالت کے بعد آج صبح 22/11/2022 قریبا سات بجے انتقال فرما گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
ان کی دینی خدمات کا سلسلہ کئی دہائیوں پر مشتمل ہے۔ الاعتصام کی ادارت کے ذریعے انھوں نے دینی صحافت میں جرات و حق گوئی کی روشن مثال پیش کی۔
سادہ طبیعت اور سادہ مزاج، یادگار سلف بزرگ تھے۔ دعا ہے کہ اللہ رب العزت ان کے درجات بلند کرے اور تمام لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق دے۔ آمین
محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کے اکلوتے صاحبزادے اور مدیرِ ہفت روزہ ‘الاعتصام’ حافظ احمد شاکر صاحب انتقال فرما گئے۔ فالج کا شکار ہو کر چند ماہ سے زیرِ علاج تھے۔ نوجوانی سے مجھے ان کی خصوصی شفقت اور توجہ ملتی رہی۔ مکتبۃ السلفیۃ ہو یا دارالدعوۃ السلفیۃ کے معاملات ہوں، مجھے قریبی دوستوں کی طرح مشاورت میں شریک رکھتے۔ مولانا عطاء اللہ حنیف رحمہ اللہ میرے دادا جان شیخ عبد الرحیم علیگ کے قابل ترین دوستوں میں تھے۔
پیرانہ سالی اور بیماری کی حالت میں مجھ سے ملنے بہت دور سے تشریف لاتے۔ ادارے کی ہر اہم تصنیف کی تزئین اور متن کی ترتیب میں میری رائے لیتے۔ وہ عمر میں میرے والد صاحب کے برابر تھے لیکن اب ایسے بزرگ تلاش کرنے چراغ لے کر بھی نکلیں تو نہیں ملیں گے جو اپنی اولاد کے ہم عمر احباب کو اس درجے کا اعتبار بخشتے ہوں۔ حافظ صاحب سے میں نے احسن التفاسیر کا ابتدائی حصہ سبقاً سبقاً پڑھا ہے۔ یوں وہ میرے باقاعدہ اساتذہ میں شامل ہیں۔
آخری دنوں میں ان کی ایک خواہش مجھ تک پہنچی کہ مولانا بھوجیانی کی اردو تحاریر کے اسلوب کا جائزہ لیا جائے۔ میں نے عرض کیا کہ اس کام کے لیے ڈاکٹر خورشید رضوی سے بہتر کون ہو سکتا ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ میں بھی اس سلسلے میں اپنا جائزہ سپردِ قلم کروں۔ میرے مشورے پر طے ہو گیا کہ ہم مل کر ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور مولانا کی تحاریر ان کے حوالے کر آئیں گے۔
آج دل رنجیدہ ہے۔ دو تین ہفتے قبل ہماری ملاقات میری طبیعت کی خرابی کی نذر ہو گئی۔ کیا معلوم تھا کہ یہ ملاقات نہ ہوئی تو پھر جنازے ہی میں شرکت کا موقع ملے گا۔
حافظ صاحب کی تحریر خشک عالمانہ سنجیدگی سے بچتے ہوئے شگفتگی اور روانی لیے ہوتی تھی۔ آپ گفتگو میں بھی اسی مزاج کو قائم رکھتے تھے۔ تمام عمر کی کمائی دعوتِ دین اور اسلاف کے علمی سرمائے کو محفوظ و مشہور کرنے میں صرف کی اور توانائی رفتگاں کی عظمت کے اعتراف میں کھپا دی۔ حافظ صاحب کو آخری عمر تک منزل بہت اچھی طرح یاد تھی اور فنِ قراءت پر اس درجہ عبور تھا کہ ان کے پیچھے کھڑے نمازی قیام میں ان کی قراءت سنتے ہوئے آب دیدہ ہو جاتے۔ میں اس کیفیت سے بارہا گزرا ہوں۔
حافظ صاحب دوستوں کو کھانے پر بلاتے اور پر تکلف اہتمام کرتے۔ ان محافل میں مولانا اسحاق بھٹی رحمہ اللہ، ڈاکٹر خورشید رضوی، علیم ناصری رحمہ اللہ، برادر ذوالفقار محمود اور حماد شاکر کے ساتھ مجھے بھی شامل رکھا جاتا۔ اس محفل میں نواب صدیق حسن خان کے علمی کام۔کے نادر قلمی نمونے اور دارالدعوۃ السفیۃ کی لائبریری کے قیمتی مشمولات کی زیارت بھی کا جاتی۔ حافظ صاحب اپنے کتب خانے کے امتیازات بھی ہلکی پھلکی گفتگو میں شرکاء کو بتاتے رہتے۔ انہی محافل میں مولانا بھٹی ابو الکلام آزاد سے اپنی ملاقاتوں کا سحر انگیز تذکرہ کرتے اور ڈاکٹر خورشید رضوی ہمیں فیض الحسن سہارنپوری رحمہ اللہ کی باتیں سناتے۔
حافظ صاحب کا ادبی ذوق بھی بلند تھا۔ نثر نگاروں میں ابوالکلام آزاد، شورش کاشمیری، حنیف ندوی، شمس عزیر اور اسحٰق بھٹی انہیں پسند تھے۔ کالم نگاروں میں عبدالقادر حسن، نذیر ناجی، ارشاد حقانی، خورشید ندیم اور جاوید چودھری کو پسند کرتے تھے۔ شاعری میں فیض سرِ فہرست تھے۔ اسی برس ایوب مرزا کی کتاب فیض نامہ مجھے حافظ صاحب کی طرف سے تحفتاً ملی۔
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را
سجاد خالد
22 نومبر، 2023