ایسا لگتا ہے کہ کچھ ٹوٹ گیا ہے مجھ میں

زندگی بھی انسان کے ساتھ عجیب اٹکھیلیاں کرتی ہے، سب کچھ ہونے کے باوجود حضرتِ انسان کی طلب، ضرورت اور ہوس ختم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی جاتی ہیں۔انتہائی بے وقعت اور کم مایہ خواہشوں کے پیچھے لنگوٹ کَس کر چوکڑیاں بھرتے انسا ن کی منظر کشی قرآنِ پاک کی سورۃ التکاثر میں اللہ نے خوب فرمائی ہے کہ انسان کو کثرتِ ہوس نے ہلاک کر ڈالا حتیٰ کہ یہ انسان قبر جا دیکھتا ہے، مگر حرص و ہوس کے مٹنے کے آثار دُور دُور تک دِکھائی نہیں دیتے، خوابوں اور سرابوں کا تعاقب کرتے کرتے انسان اتنے جاں گسل عذابوں میں گِھر جا تا ہے کہ اس کی زندگی سے سکو ن، ٹھہراؤ اور اطمینان نکل کر رہ جاتا ہے۔آپ کروڑ پتی لوگوں کے حلقوم سے نکلنے والے الفاظ بھی سنیں تو وہ اپنی تیرہ بختی کا رونا روتے نظر آئیں گے۔ما ل و دولت کے ڈھیر تلے دبا انسان بھی ذہنی تفکرات اور خلفشار کے باعث سکون ڈھونڈتا پھرتا ہے مگر اسے قرار کہیں نہیں ملتا۔آزاد انصاری کے بہ قول:-
ہم کو نہ مل سکا تو فقط اک سکونِ دل
اے زندگی وگرنہ زمانے میں کیا نہ تھا
وہ ذہنی دباؤ اور اعصابی تناؤ سے نجات حاصل کر کے سکو ن کے حصول کے لیے پھر مال اور دولت کے پیچھے بگٹٹ اور سَرپٹ دوڑنے لگتا ہے، مگر جب افق کے اس پار سورج غروب ہوتا ہے، جب رات کی سیاہی چہار سُو ایک سکو ت پیدا کر دیتی ہے اور وہ نیند کو گلے لگانے کے لیے لیٹتا ہے تو اعلا اور نرم بستر پر، ریشمی اور گداز کمبل میں بھی نیند داخل ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔کئی کروٹیں بدلنے اور ہزار جتن کے باوجود جب بھی نیند پلکوں کو چُھوتی ہے فوراً ہی تفکرات اس کے ذہن کو نوچنے لگتے ہیں، پریشانیوں کا مارا یہ انسان دوائیں لے لے کر سونے کی کوشش کرتا ہے مگر رفتہ رفتہ دوائیں بھی بے اثر ہونے لگتی ہیں۔کلیم عاجز کا شعر ہے :-
نہ جانے روٹھ کے بیٹھا ہے دل کا چَین کہاں؟
ملے تو اس کو ہمارا کوئی سلام کہے
پاکستان میں فالج کے علاج کے لیے کام کرنے والے ادارے کا نام ” پاکستان سوسائٹی آف نیورولوجی “ ہے۔اس ادارے کے سینیَر ڈاکٹرز کے مطابق پاکستان میں روزانہ 400 سے زائد افرا د فالج کی وجہ سے موت کا نوالہ بن رہے ہیں۔یہ ایک بہت بڑی تعداد ہے، اس مرض میں ایک نیا رجحان یہ سا منے آیا ہے کہ جوان خواتین اس مرض میں تیزی کے ساتھ مبتلا ہو رہی ہیں۔مذکورہ ادارے کے مطابق اس مرض میں دو فی صد سالانہ اضافہ ہو رہا ہے، پاکستان میں 33 فی صد آبادی کی عمر 35 سا ل سے اوپر ہے جو ہائپرٹینشن یا شوگر جیسے مہلک امراض میں مبتلا ہے، ان میں سے بیشتر لوگ تمباکو نوشی کی لَت میں بھی مصروف ہیں۔یہ چیزیں سٹروک اور فالج کے خطرا ت کو بڑھاتی ہیں، سگریٹ نوشی، تمباکو کا استعمال اور ہائی بلڈ پریشر فالج کے بنیادی اسباب ہیں اور ہائی بلڈ پریشر ذہنی تفکرات کے باعث نشو و نما پاتا ہے۔ سوسائٹی آف نیورولوجی کے سابق صدر محمد واسع کا کہنا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ اموات دل کے دورے سے ہوتی ہیں اور اس کے بعد فالج سب سے زیادہ افراد کو موت کے منہ میں دھکیلتا ہے۔ٹینشن اور ذہنی دباؤ فالج کے بنیادی اسباب ہیں۔امر یکا جیسے ترقی یافتہ ملک کی حالت یہ ہے کہ وہاں بچوں اور نوجوانوں میں یہ مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔وجہ یہ ہے کہ ان کے قلو ب و اذہان تفکرات کی آ ماج گاہ بن چکے ہیں۔سائنس دانوں نے 1995 ء سے 2008 ء کے درمیان بیماریوں کی روک تھام کے امریکی سینٹرز میں 80 لاکھ افراد کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا۔نیورولوجی ڈیپارٹمنٹ کے مطابق گذشتہ دس سال سے بھی کم عرصے میں پانچ سے چوالیس سال کی عمر کے افراد میں سٹروک یا فالج کے مرض میں تیزی اضافہ ہو رہا ہے، خواتین کے مقابلے میں مرد فا لج کا زیادہ شکار ہوتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ پریشانیاں مَردوں کو لاحق ہوتی ہیں۔
آپ کسی نیورولوجسٹ کے پاس چلے جائیں، یا کسی ماہرِ نفسیات کے ہسپتال کا وزٹ کر لیں آپ کو مریضوں کا ایک ہجوم دِکھائی دے گا۔اکثر ماہرینِ نفسیات ہزاروں روپے فیس لے کر نیند اور سکون آور گولیاں اور سا تھ میں معدے کے لیے ایک دو کیپسول تجویز کر دیتے ہیں، ہزاروں روپے غارت کرنے کے باوجود حالت یہ ہوتی ہے کہ کچھ مریض تو خودکشی تک کر لیتے ہیں۔شہرت بخاری نے کیا خوب کہا ہے:-
یہ کس عذاب میں چھوڑا ہے تُو نے اس دل کو
سکون یاد میں تیری، نہ بھولنے میں قرار
خودکشی کرنے والے مریضوں کی اکثریت ایسے لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے جو سکون تلاشتے تلاشتے تنگ آ جا تے ہیں مگر جب انھیں کہیں بھی گوشہ ء طمانیت دِکھائی نہیں دیتا تو وہ مو ت کی آغوش میں جائے عافیت تلا ش کر تے ہیں مگر انھیں پتا ہی نہیں کہ اس طرح خودکشی کرنے کے بعد تو جہنم ہی ان کو ملے گی۔ایسے لوگ کبھی جنت کی راحتیں اور فرحتیں حاصل نہ کر پائیں گے۔ پھر کہاں جائیں گے؟ پھر کہاں سکو ن ملے گا؟
کُو بہ کُو جائے قرار کھوجنے والے لوگ، راحت اور سکون کے لیے ہسپتالوں میں سرگردانی کرنے والے وہ افراد جن سے ذہنی سکون روٹھ چکا، ہر طرح کے پاپڑ بیلنے اور انواع و اقسام کی ادویات استعمال کرنے کے باوجود ان ناکام و نامراد لوگوں کے کاشانہ ء فکر میں وہ علاج کیوں نہیں سماتا جو اللہ رب العزت نے انسانیت کے لیے تجویز فرمایا ہے۔سورۃ الرعد آیت نمبر 28 میں اللہ فر ماتے ہیں کہ ” جو لوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ یاد رکھو اللہ کے ذکر ہی سے دلوں کو سکون حاصل ہوتا ہے “ ہر طرف سے ناامید ہونے والے لوگو! ذرا اللہ کے اس فرمان کی طرف رجوع تو کرو، آؤ! رات کے کسی پہر، دن کے کسی لمحے دھیرے سے اٹھو، ادب اور احترام کے قرینے اور عقیدت و مودت کے سلیقے سے دلوں کو مزین کر کے باوضو ہو کر قرآنِ مجید کی تلاوت کریں، اس کی آیات کے تراجم پر غور خوض کریں، قرآن دل کی گہرائیوں میں اترتا چلا جائے گا، واللہ! آپ کو محسوس ہو گا کہ قرآن کی باتیں آپ کے مَن کی صدا ہیں، آپ کو یوں لگے گا، جیسے مَیں اسی کا تو متلاشی تھا۔قرآن دلوں سے موت کا خوف نکال کر اللہ کا خوف ڈال دے گا۔راحت اور طمانیت کے حصول کے لیے دَر بہ دَر بھٹکتے خیالات اللہ کے کلام پر مرکوز ہو جائیں گے، قرآن پڑھنے کے لیے کسی ڈاکٹر کو فیس دینے کی بھی ضرورت نہیں، دواؤں کی طرح اس کے سائیڈ ایفیکٹ بھی نہیں ہو تے، یہ تو رحمت ہی رحمت ہے، یہ تو سرور ہی سرور ہے، نیکیوں کی پتیاں خود بہ خود نچھاور ہوتی چلی جاتی ہیں۔جوں جوں آپ قرآن پڑھتے جائیں گے رحمت مآب نیکیاں، مَحبّت مآب راحتیں آپ کے تن من پر چھم چھم برستی چلی جائیں گی۔جب تک آ پ زندہ رہیں گے، سکون اور سرور آپ کے دلوں میں موجزن رہے گا اور جب اللہ کے حضو ر پیش ہوں گے تب بھی یہ قرآن سفارش کر کے آ پ کو ابد ی سکون کی جگہ جنت میں لے جائے گا، تو پھر انتظا ر کس بات کا ہے؟ ابھی اٹھیے اور قرآن کی نورانی کرنوں سے اپنے دل کے اندھیرے دور کیجیے نا! اگر آپ ایسا نہیں کریں تو بے کلی اور اضطراب بڑھتا چلا جائے گا، پھر عرفان ستّار کے اس شعر کی طرح آپ بھی یہی کہیں گے:-
اک چبھن ہے کہ جو بے چین کیے رہتی ہے
ایسا لگتا ہے کہ کچھ ٹوٹ گیا ہے مجھ میں

( انگا رے۔۔۔حیات عبداللہ )

یہ بھی پڑھیں: ابوبکر معاویہ کیس اور علمائے اہل حدیث کی ذمہ داریاں