کس قدر افسوسناک امر ہے کہ معاشرہ جیسے جیسے مادی ترقی کے زینے چڑھتا جارہاہے ساتھ ساتھ ہی پولیٹیکل پولرائزیشن کا شکار ہو کر اخلاقی اقدار ، رواداری اور برداشت سے عاری ہوتا جا رہا ہے ، عدم برداشت کا یہ عالم ہے کہ صرف معمولی سے نظریاتی اختلاف ، بیانیے کے مختلف ہونے اور نقطہ نظر کے فرق سے ایک دوسرے کو دشمن تصور کر لیتے ہیں ایک دوجے کی جان کے درپے ہو جاتے ہیں جبکہ رواداری، تحمل مزاجی،عفوو درگزر اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا جذبہ… ایسی خوبیاں ہیں جن کی وجہ سے سماج امن و امان کا گہوارہ بنتا ہے،ظلم و حق تلفی کا خاتمہ ہوتا ہے اور اس طرح ایک صحت مند خوب صورت معاشرہ تشکیل پاتاہے۔
اس کے برعکس عدم برداشت ایک ایسا ناسور ہے جس کے سبب معاشرے میں بدنظمی، بے عنوانی، معاشرتی استحصال، لاقانونیت اور ظلم وعداوت جیسی برائیاں جڑ پکڑتی ہیں اور پورے سماج کو تاخت و تاراج کردیتی ہیں یہ دوسرے کو برداشت نہ کرنے کی خطرناک روش ہمارے معاشرے کو مہلک بیماری کی مانند کھا رہی ہے ۔ یہ بیماری اب اس نہج تک پہنچ چکی ہے کہ اندیشہ لاحق ہو گیا ہے کہ کہیں معاشرتی ڈھانچے کو پیرالائزڈ ہی نہ کر دے۔ اس لیے اس کے تدارک اور روک تھام کے لیے جنگی بنیادوں پر سٹیپ اٹھانا ہوں گے ورنہ بہت دیر ہو جائے گی ۔
آئیے آج  اس امر کا جائزہ لیتے ہیں جس سے ہم اپنے معاشرے کو اس خطرناک ترین بیماری محفوظ رکھ کر ایک صحت مند ، پوزیٹو اور ثمر آور مودت و الفت بھرا معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں ۔
یہ کیفیت تب پیدا ہوتی ہے جب خود کو دوسرے سے برتر اور سپیرئیر سمجھا جائے اور یہ تفوق اور برتری کا زعم انسان کو تکبر کی بد ترین سطح پر لے جاتا ہے ۔یہ لوگ خودی کی خدائی میں اتنے مصروف و مگن اور انا کی خول میں اس طرح مقید رہنا پسند کرتے ہیں انہیں مخلص ہو کر بھی کوئی اہم پہلو بتلایا جائے یا کسی غلطی کی نشاندہی کی جائے تو اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور اصلاح پسند ناقد کے خلاف دل میں کد رکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں نبوی منہج سے رہنمائی لینا بہت ضروری ہے ۔ ایسی کیفیت کا حامل شخص خود کو “انا ولا غیری” صرف میں سب کچھ ہوں میرے سوا کوئی بھی میٹر نہیں کرتا ۔ اسی غلط فہمی میں رہتا ہے اور اپنا اپنے متعلقین کا اور اپنے ادارے اور معاشرے کا بہت زیادہ نقصان کر جاتا ہے ۔ ایسا مسئلہ فخر تکبر اور کبر کی وجہ سے ہوتا ہے جبکہ یہ کبر ونخوت انسان کا خاصہ نہیں ہے صرف اللہ رب العزت کو حق حاصل ہے کہ وہ فخر کرے فرمان نبوی ہے کہ : “
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ هَنَّادٌ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْكِبْرِيَاءُ رِدَائِي وَالْعَظَمَةُ إِزَارِي فَمَنْ نَازَعَنِي وَاحِدًا مِنْهُمَا قَذَفْتُهُ فِي النَّارِ : ابوداود 4090
سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان کیا ” اللہ عزوجل فرماتا ہے بڑائی میری ( اوپر کی ) چادر ہے اور عظمت میری ( نیچے کی ) چادر ہے ، چنانچہ جو کوئی ان میں سے کسی ایک کو بھی کھینچنے کی کوشش کرے گا ( میرا شریک ہونے کی کوشش کرے گا ) میں اسے جہنم میں جھونک دوں گا ۔
اسی طرح فرمایا کہ جس کے دل میں رائی کے برابر بھی تکبر ہو ا وہ جہنم میں جائے گا۔
عن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:” لا يدخل الجنة من كان في قلبه مثقال حبة من خردل من كبر، ولا يدخل النار من كان في قلبه مثقال حبة من خردل من إيمان (مسلم:4091)”.
جبکہ انسان اور مسلمان ہونےکے ناطے ہمیں توازع اور عاجزی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اسی میں عظمت ہے اور عزت ہے۔ اعلی ظرف اور رضائے الٰہی کے متلاشی ہی اس خوبی کے حامل ہوسکتے ہیں۔ غرور تکبر شیطان اور شیطان صفت لوگوں کی عادت ہے جبکہ رحمان کے بندے عجز و انکساری کے حامل ہوتے ہیں جن وصف اللہ رب الکریم نے یوں بیان فرمایا ہے۔ وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًا ’’اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی اور نرمی کے ساتھ چلتے ہیں(الفرقان:63)
تواضع کے ذریعے مشکل سے مشکل لمحات کا آسانی سے مقابلہ کیاجاسکتا ہے اور بڑے سے بڑے مسائل کو بخوبی سلجھایا جاسکتا ہے۔اسی سے مخالفین کے ہاں مرتبہ و مقام حاصل ہوتا ہے اور لوگوں کو گرویدہ کیا جاسکتا ہے۔
رسول مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ وَمَا زَادَ اللَّهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلَّهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ (مسلم:6592)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “صدقے نے مال میں کبھی کوئی کمی نہیں کی اور معاف کرنے سے اللہ تعالیٰ بندے کو عزت ہی میں بڑھاتا ہے اور کوئی شخص (صرف اور صرف) اللہ کی خاطر تواضع (انکسار) اختیار نہیں کرتا مگر اللہ تعالیٰ اس کا مقام بلند کر دیتا ہے۔
سیدنا عدی بن حاتم قبول اسلام کی خاطر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔آپ صلعم عدی کو اپنے گھر لے گئے راستے میں ایک بوڑھی عورت ملی جو تا دیر اپنی حوائج بیان کرتی رہی اور آپ صلعم اتنی دیر ہی اس کی ضرورت پوری کرتے رہے پل بھر بھی اکتائے نہیں ۔ جب گھر پہنچے تو نبی کریم ﷺ نے اپنا گدا سیدنا عدی بن حاتم کو پیش کر دیا اور خود زمین پر بیٹھ گئے یہ رویہ دیکھ کر عدی کہنے لگے ،واللہ ما ھٰذا بملک یعنی اللہ کی قسم بادشاہ یوں نہیں کیا کرتے،
(ابن کثیر، السیرۃ النبویۃ:4/125سیرت ابن ہشام:2/580)
حضرت انس رضی اللہ عنہ خادم رسول صلی الله علیہ وسلم ہیں، فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی نو سال تک خدمت کی،(عام طور پراس لمبے عرصے میں ضرور کوئی نہ کوئی بات خلاف مزاج ہو ہی جاتی ہے،اس کے باوجود) کبھی آپ صلی الله علیہ وسلم نے کسی کام کے تعلق سے مجھے اف تک نہیں کہا، نہ میرے کام پر نکتہ چینی یا عیب جوئی فرمائی۔ ایک مرتبہ تو یوں ہوا کہ کسی کام سے آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو بھیجا، مگر وہ کھیل کود میں مصروف ہوگئے، حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم خودتلاش کرتے ہوئے نکلے اور ملاقات پر کچھ سرزنش نہ فرمائی اور انداز تخاطب میں بھی کوئی تبدیلی نہیں لائی؛ بلکہ رحیمانہ ومشفقانہ انداز میں اس طرح مخاطب فرمایا: ”اے اُنیس!“(انس کی تصغیر چھوٹے بچوں کو بطور محبت کے اس طرح پکارا جاتا ہے) اور غصہ کرنے کے بجائے ترحمانہ انداز میں صرف استفسار فرمایا کہ وہاں نہیں گئے جہاں میں نے بھیجا تھا ؟(مسلم :2310)
ذرا غور کیجیے کہ مستقل اور عارضی ماتحتوں ، ملازموں اور خدمت گزاروں کے ساتھ محبت و ہم دردی اور ضبط و تحمل کی اس سے بڑی کیا مثال دی جاسکتی ہے۔ غلطی پر سنت سے یہ طرز عمل مل رہا ہے جبکہ نظریاتی اختلاف یا تھوڑے س نزاع اور لاجیکل ڈفرنس سے ہم جس نہج پر پہنچ جاتے ہیں اس کی کیسے اجازت ہوسکتی ہے ۔
دوسرا اہم مسئلہ عدم برداشت کا ہے ہم دوسرے شخص کو برداشت کرنے کا ذرہ بھر مادہ بھی نہیں رکھتے حتی کہ نقطہ نظر کے اختلاف اور علمی رائے کے الگ ہونے پر بھی دل میں کینہ اور حسد پا ل لیتے ہیں ، سیاسی مذہبی جماعتوں کی وابستگی کے مختلف ہونے پر ہم ایک دوسرے سے اس قدر الجھ پڑتے ہیں کہ قریبی بھائی اور اپنے بھائی سے کئی کئی برس بولتے نہیں ہیں۔ حالانکہ صرف اتنا ہی نہیں بڑے سے بڑے اختلاف اور نزاع پر بھی اخوت اور بھائی چارے کا دامن چھوڑنا نہیں چاہیے ،
جبکہ دوسری طرف قوت برداشت ان اعلیٰ صفات میں سے ایک ہے جو افراد کے لیے انفرادی طور پر اور اقوام کے لیے اجتماعی طور پر فوزو فلاح اور ترقی وسر بلندی کا ذریعہ ہے۔ تحمل وہ دولت ہے جس کی وجہ سے انسان کے نفس میں ایسی غیر معمولی طاقت پیدا ہوتی ہے جو کسی بھی حالت میں انسان پر قوت غضب کو غالب نہیں آنے دیتی۔خودساختہ اور من مانے نظریات پر اصرار کرنا،زبردستی انہیں تسلیم کرنے پر مجبور کرنا،خلاف ورزی پر مشتعل و برانگیختہ ہونا، پرلے درجہ کی حماقت اورجہالت ہے؛جس کے بے شمار نمونے سوشل میڈیا پرمشاہدے میں آتے رہتے ہیں۔یہ لوگ عام لوگ نہیں ہیں بلکہ قوم کو لیڈ کرنے والے اور بزعم خویش قائد ہیں ۔
نفسیاتی طورپرہرانسان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ سننے سے زیادہ سنانے کوپسند کرتاہے،ماننے سے زیادہ منوانے کوترجیح دیتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر لوگ اس نیت سے نہیں سنتے کہ مخاطب کی بات کو سمجھیں؛بلکہ وہ اس لیے سنتے ہیں کہ اُنہیں جواب دینا اور ان کا رد کرنا ہوتا ہے،اس لیے یا تووہ دخل اندازی کرتے ہوئے خود بولنے لگتے ہیں یا پھر بولنے کی تیاری میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
کسی بھی شخص کی کام یابی اور بلندی کا راز یہ ہے کہ انتہائی جذباتی مواقع پر انتہائی عقل و دانش سے فیصلہ کرے۔ انفرادی زندگی میں تحمل اور صبر و ضبط کی ضرورت تو ہے ہی؛ لیکن اس کی اہمیت اجتماعی جگہوں میں مزید بڑھ جاتی ہے۔ اگر تحمل اور صبر و ضبط سے کام نہ لیا جائے توزندگی گزارنامشکل ہوجائے۔ اپنی شخصیت کو نکھارنے، مسائل سے نجات پانے اور خوش گوار زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ جذبات کو قابو میں رکھا جائے۔
رسولِ اکرم صلی الله علیہ وسلم نے جب نبوت کا اعلان کیا تو مکہ کا سارا ماحول آپ صلی الله علیہ وسلم کے لیے اجنبی بن گیا، وہی لوگ جن کے درمیان آپ صلی الله علیہ وسلم کا بچپن اور جوانی گزری، جو آپ صلی الله علیہ وسلم کی امانت و صداقت کے بڑے مداح تھے،وہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے مخالف اور جانی دشمن ہوگئے۔پھر کچھ ہی عرصے کے دوران عرب کی اجڈ قوم کے دل و دماغ میں اسلام اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی بے پناہ محبت رچ بس گئی اور ان جانی دشمنوں نے دل و جان سے آپ صلی الله علیہ وسلم کی امارت واطاعت قبول کرلی، یقیناً اس پر انسانی عقل دَنگ رہ جاتی ہے اور حیرت کی انتہا نہیں رہتی۔
سیرت طیبہ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب کے اس تاریخی انقلاب میں جہاں رسولِ اکرم صلی الله علیہ وسلم کی شیریں زبان، اعلیٰ اخلاق، بہترین لب ولہجہ اور پیہم جدوجہد کا حصہ ہے، وہیں آپ صلی الله علیہ وسلم کا صبر و تحمل، بردباری اور قوتِ برداشت نے بھی بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ بلاشبہ صبرو تحمل کا وصف انتہائی مفید و معنی خیز ہے، اس سے سعادت و بھلائی اورسکون و اطمینان کے مواقع تو ہاتھ آتے ہی ہیں، ساتھ ہی صبر و استقامت کی راہ پر چل کر لوگوں کی قیادت و امامت کا درجہ بھی حاصل کیا جاسکتا ہے،
سیرت نبوی کو دیکھیں تو اس بڑھ کر برداشت اور تحمل کی اور کیا مثال ہو سکتی ہے کہ ایک نو مسلم بدو نے مسجد میں لا علمی کی وجہ سے پیشاب کر دیا تو صحابہ کرام نے اسے زجرو توبیخ کرنے کی کوشش کی ، رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو روک دیا ، جب وہ شخص اپنے فعل سے فارغ ہوا تو آپ صلعم نے پانی کا ڈول منگوایا اور اسے پیشاب والی جگہ پر بہا دیا ۔ اس کے بعد اس بدو کو پیار اور نرمی سے سمجھایا کہ دیکھو بھائی مساجد اللہ کے گھر ہیں ادھر اللہ کی عبادت کی جاتی ہے ۔ یہاں بول و براز نہیں کیا جا تا ان کو پاک صاف رکھا جاتا ہے، حدیث کے دوسرے حصے میں آتا ہے کہ اس شخص نے نماز میں اپنی دانست کے مطابق بلند آواز میں کہا :
اللَّهُمَّ ارْحَمْنِي وَمُحَمَّدًا وَلَا تَرْحَمْ مَعَنَا أَحَدًا، فَلَمَّا سَلَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِلْأَعْرَابِيِّ:” لَقَدْ حَجَّرْتَ وَاسِعًا، يُرِيدُ رَحْمَةَ اللَّهِ
اے اللہ مجھے پر رحم کر اور محمد ﷺ پر رحم کر ہمارے علاوہ کسی اور پر رحم نہ کرنا ، رسول ﷺ نے نماز سے فارغ ہو کر فرمایا کہ: تونے اللہ کی وسیع چیز ؎یعنی رحمت کو محدود کر دیا ۔(بخاری :6010)
امام قرطبی رحمہ اللہ نے ایک بہت متاثر کن واقعہ ذکر کیا جسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس دور کے بڑے بڑے حکمرانوں کے سامنے جب اللہ اور اس کے رسول کی بات آجاتی تو وہ اپنے انتہائی غضب پر بھی کس قدر پوزیٹو رد عمل پیش کرتے جبکہ ایسے مواقع پر درگرز اور صبر کرنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔
اسی طرح ایک بندے کو نصیحت کی جو آپ سے نصیحت طلب کر رہا تھا کہ غصہ مت کرنا
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ مجھے کوئی وصیت فرمادیجئے؟
عن أبي هريرة رضي الله عنه : أن رجلًا قال للنبي -صلى الله عليه وآله وسلم-: أوصني، قال لا تَغْضَبْ فردَّدَ مِرارًا، قال لا تَغْضَبْ
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا غصہ نہ کیا کرو۔ اس شخص نے اپنی (وہی) درخواست کئی بار دہرائی۔آپ ﷺ نے ہر مرتبہ یہی ارشاد فرمایا غصہ نہ کیا کرو۔ (بخاری 2020)
امام ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی لکھتے ہیں:میمون بن مہران روایت کرتے ہیں کہ ایک دن ان کی باندی کنیز ایک پیالہ لے کر آئی، جس میں گرم گرم سالن تھا، ان کے پاس اس وقت مہمان بیٹھے ہوئے تھے۔اچانک وہ باندی لڑکھڑائی اور ان پر سارا شوربا گرگیا۔ میمون نے اس باندی کو مارنے کا ارادہ کیا تو باندی نے کہا اے میرے آقا! اللہ تعالیٰ کے اس قول پر عمل کیجیے (آیت) ﴿والکاظمین الغیظ﴾۔ میمون نے کہا میں نے اس پر عمل کرلیا (غصہ ضبط کرلیا) اس نے کہا اس کے بعد کی آیت پر عمل کیجیے (آیت) ﴿والعافین عن الناس﴾ میمون نے کہا میں نے تمہیں معاف کردیا، باندی نے اس کے بعد اس حصہ کی تلاوت کی: (آیت) ﴿واللہ یحب المحسنین﴾ میمون نے کہا میں تمہارے ساتھ نیک سلوک کرتا ہوں اور تم کو آزاد کردیتا ہوں
(الجامع الاحکام القرآن ج 4 ص 207 مطبوعہ انتشارات ناصر خسرو ایران ٗ 1387 ھ)
پولیٹیکل پولرائزیشن ، عدم برداشت اور تقسیم در تقسیم نے وطن عزیز پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا ہے ، وقت کا تقاضا ہے کہ شریعت کی تعلیمات سے سیکھتے ہوئے ہم اپنے اندر مثبت اور مبنی بر صبر نظریات کو پنپنے کا موقع دیں ۔
اللہ ہمیں توفیق سے نوازے اور ہم سے اپنی رضا اور خیر کے کام لے ، واللہ الولی التوفیق

الیاس حامد