مجھ سے یہ درخواست کی گئی ہے کہ یہاں بہت سے بچّے موجود ہیں توکیا آپ ایک خطبہ دے سکتے ہیں اور انہیں نماز پڑھنے کی تلقین کر سکتے ہیں؟ اس لئے کہ بچّے گھر پہ ہیں اور وہ والدین کی بات نہیں مانتے، اور نماز نہیں پڑھتے۔ کیا آپ کسی بھی طرح انہیں نماز پڑھنے پہ آمادہ کر سکتے ہیں؟ آج میں صرف بچّوں سے باتیں کروں گا۔ اور آپ میں سے وہ بچّے، جو نماز پڑھنے کیلئے مسلسل کوشاں ہیں، لیکن آپ کا نماز پڑھنے کو جی نہیں چاہتا، امّی آپ کو ہر وقت برا بھلا کہتی ہیں، بار بار نماز پڑھنے کیلئے اٹھنے کا کہتی ہیں کہ اٹھّو، اٹھّو، نمازپڑھو، چھٹیاں ہیں، گھر پہ ہو، تمہارے پاس نماز نہ پڑھنے کا کیا بہانہ ہے؟ چلو مسجد چلیں۔۔۔! اور آپ اپنے پیر گھسیٹتے ہیں اور آپ سخت ناراض ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب آپ نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں تو آپ اکتائے ہوئے انداز میں اپنی ڈیلے گھما رہے ہوتے ہیں. ہیں نا۔۔! ایسا ہی کرتے ہیں نا۔۔!

چلیں آپ کے والدین سے ایک لمحے کیلئے بات کرتے ہیں۔ جب آپ اپنے بچّوں کو نماز پڑھنے کیلئے مجبور کرتے ہیں، ان پہ دباؤ ڈالتے ہیں اور نماز نہ پڑھنے پہ برا بھلا کہتے ہیں اور وہ کسی نہ کسی طرح نماز پڑھ لیتے ہیں۔ وہ 13، 14 یا 15 سال کے ہیں۔ آپ کو شاید ان کا نماز پڑھنا اچھّا محسوس ہو رہا ہو لیکن انہیں اچھّا نہیں لگ رہا ہوتا۔ اور ہمارے مذہب کی بنیاد صرف ظاہری اعمال نہیں ہیں بلکہ ہمارے دین کی بنیاد ہماری اندرونی کیفیّات ہیں کہ ہمارے اندر کیا وقوع پذیر ہو رہا ہے۔ وہ زیادہ اہم ہے۔ اس لئے صرف اس بنیاد پر کہ آپ ایک ایسا رویّہ دیکھ رہے ہیں، جو آپ اپنے بچّوں میں دیکھنا چاہتے ہیں، اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہم نے واقعتاً کوئی بہت اچھّا کام اپنے بچّوں کیلئے سرانجام دے دیا ہے۔ ایک لحاظ سے یہ اچھّا بھی ہے لیکن یہ سب مصنوعی ہے، صرف ایک بیرونی کیفیّت ہے۔ یہ ایک ایسے درخت جیسا عمل ہے، جو باہر سے تو بہت خوبصورت ہے لیکن اندر سے بالکل کھوکھلا ہو۔ اللّٰہ پاک نے اس دین کی بنیاد کچھ یوں بیان کی ہے۔ کہ یہ ایک ایسے درخت کی مانند ہے، جس کی جڑیں گہری اور مضبوط ہیں۔ اور اس کی شاخیں آسمان کو چھوتی ہیں۔

جب کوئی بھی انسان نماز کے حوالے سے سستی کا شکار ہو۔ اور میں تین، چار یا چھ سال کے بچّوں کی بات نہیں کر رہا۔ میں ان بچّوں کی بات کر رہا ہوں، جو اب باشعور ہیں، جو ذہانت سے بھرپور سوالات ہوچھ سکتے ہیں، جو اس قابل ہو چکے ہوتے ہیں کہ ان کے ماں باپ اور وہ خود ایک ہی جیسی گیمز کھیل سکتے ہوں، وہ ایک ہی ٹی۔وی شو دیکھ سکتے ہیں، جہاں وہ اس قابل ہو چکے ہیں کہ مختلف مظاہر کو ایک بلند سطح پہ سمجھ سکتے ہیں۔ وہ آپ کے جیسی دلچسپی رکھ سکتے ہیں۔ یعنی ایک حد تک وہ آپ جتنی شعوری سطح پہ پہنچ چکے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ وہ ہھر بھی بچّے ہیں، ان کے اذہان مکمّل طور پہ پروان نہیں چڑھے، ابھی وہ قدرے کم تر سطح پر ہیں۔ تاہم وہ ایک حد تک ذہین اور سمجھدار انسان بن چکے ہیں۔ اور اب وہ اپنی صلاحیّتوں کا اظہار کر رہے ہیں۔ اپنا پسند کرنے کا حق خود استعمال کر رہے ہیں۔ اپنے لئے سوچ رہے ہیں۔

تو آپ سب نوجوان مرد اور خواتین، جو حاضرین میں موجود ہیں (میں آپ کو بچّے کہہ کے مخاطب نہیں کروں گا، میں آپ کو نوجوان مرد اور خواتین کہہ کے پکاروں گا)۔ چلیں ہم یہ ظاہر کرتے ہیں جیسے آپ کے والد آپ سے مخاطب ہیں، یا آپ کی امّی۔ یا میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ میں اپنے بچّوں سے مخاطب ہوں۔ اور میں اس وقت ممبر پہ خطبہ نہیں دے رہا بلکہ اپنے گھر میں اپنے بچّوں کے ساتھ مخاطب ہوں۔ تو میں انہیں کیسے بتاؤں گا کہ نماز پڑھو؟

تو میں یوں آغاز کروں گا۔۔

“ایک وقت ایسا تھا میری جان۔۔! جب میں تمہیں نہیں جانتا تھا۔ تم موجود ہی نہیں تھے، تم میرے لئے کچھ نہیں تھے، میں تمہارے بارے میں سوچتا بھی نہیں تھا۔ قرآنِ کریم میں ہے کہ انسان پہ ایک وقت بھی تھا، جب اسے بالکل یاد نہیں کیا جاتا تھا۔ اور مجھ سمیت کسی کو بھی تم یاد نہیں تھے، میں نہیں جانتا تھا کہ ایک ہستی ایسی ہے جس کے ساتھ تمہارا تعلّق ہمیشہ سے ہے اگرچہ تمہارا اور میرا تعلّق نوعیّت کے اعتبار سے مسلسل بدلتا رہے گا۔ مجھے بطورِ اولاد اچھّی طرح یاد ہے کہ میرا اپنے والدین کے ساتھ بطورِ شیرخوار تعلّق بالکل الگ نوعیّت کا تھا اور جب میں جوان ہوا تب بالکل مختلف تھا اور اب عمر کے اس حصّے میں ہمارا تعلّق بالکل مختلف نوعیّت کا ہے۔ اگرچہ ہمارے درمیان رشتے کی نوعیّت بالکل وہی ہے لیکن ہمارا آپس کا تعلّق بدلتا رہا۔ لیکن ایک ہستی ایسی ہے، جو ہمیشہ سے تمہاراخیال رکھ رہی ہے، تم سے محبّت کر رہی ہے، تمہارے لئے منصوبہ بندی کر رہی ہے اور ہمیشہ کرتی رہے گی اور وہ میں ہرگز نہیں ہوں۔

میں صرف تمہاری زندگی کا ایک حصّہ ہوں، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ اگرچہ یہ ہماری زندگی کا ایک خوبصورت ترین حصّہ ہے، جو اللّٰہ ربُّ العزّت نے ہمیں اکٹھّے گزارنے کا موقع عطا کیا ہے لیکن یہ ایک مستقل حصّہ نہیں ہے۔ یہ تو تھی پہلی بات جو میں تم سے کرنا چاہ رہا تھا۔
دوسری بات کہ جب میں تمہیں نماز پڑھنے کا کہتا ہوں تو تمہیں یوں لگتا ہے کہ میں تمہیں پابند کر رہا ہوں اور تم پہ زبردستی کر رہا ہوں۔ لیکن میں تمہیں بتاؤں کہ میں تمہیں کنٹرول نہیں کر سکتا۔ میں تمہیں نصیحت کر سکتا ہوں، بعض اوقات تم پہ سختی بھی کر سکتا ہوں لیکن میں تمہیں کنٹرول نہیں کر سکتا۔ کچھ ہی عرصے بعد تم اتنے بڑے ہو جاؤ گے کہ میں جتنا بھی غصّہ کر لوں، جتنا بھی چلّاؤں، تمہیں فرق نہیں پڑے گا کیونکہ تم خود مختار ہو چکے ہو گے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس وقت بھی جب تم سکول ہوتے ہو، دوستوں کے ساتھ تم کیا کچھ کرتے ہو، میں اس سب کو وہاں کنٹرول نہیں کر سکتا۔

اگر میں تمہیں آئی فون یا آئی پیڈ دلا دوں تو کیا میں اس کے استعمال پہ قدغن لگا سکتا ہوں۔ اگر میں Parenting control apps بھی ڈاونلوڈ کرلوں، تب بھی میں صرف ایک حد تک تمہاری سرگرمیوں کو کنٹرول کر سکتا ہوں۔ لیکن ایک ہستی ایسی ہے جو تمہارے جسم کے ایک ایک خلئے کو کنٹرول کرتی ہے۔ تم جب اپنی ماں کے رحم میں ایک خون کے لوتھڑے کی حیثیّت سےپروان چڑھ رہے تھے، اس وقت بھی تمہیں کنٹرول کر رہی تھی۔ تم کس جینیاتی ترتیب سے دنیا میں آؤ گے، تمہارا قد، آنکھیں، بالوں کا رنگ ہر ہر چیز کو وہی کنٹرول کرتی ہے. اصل میں کنٹرول صرف اسی کی ذات کا ہے، میرا ہرگز نہیں ہے۔

میں تمہیں حضور نبئ اکرمﷺ کی ایک بات یاد دلاتا ہوں۔ آپؐ نے جنابِ فاطمة الزّہراء سلام اللّٰہ علیہا سے فرمایا، اے محمّد کی بیٹی فاطمہ۔۔! اللّٰہ سے ڈرتی رہو، میں تمہارے معاملے میں اللّٰہ کے سامنے کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ اور یہیں سے میرا اگلا استدلال سامنے آئے گا۔ میں تمہارے تحفّظ کے حوالے سے جتنا فکر مند ہوتا ہوں، ہمیشہ تمہارا بھلا چاہتا ہوں حقیقتاً میرا اس سب پہ بالکل کوئی اختیار نہیں۔ اور نہ ہی میں اس سب کا ذمّہ دار ہوں۔ کیونکہ اللّٰہ ربُّ العزّت نے ہم میں سے ہر انسان کو اپنے معاملات کا خود مکلّف بنایا ہے۔ دیکھو۔۔ اگر کل کو جب تمہارا ڈرائیونگ لائسنس بن جائے گا اور فرض کرو تم کسی جگہ اشارہ توڑتے ہو اور پولیس کا سپاہی تمہیں پکڑتا ہے تو تم یہ کہہ کے جان نہیں چھڑا سکتے کہ آپ میرے والد سے بات کریں۔۔ !! تمہیں اس صورتحال سے ازخود نمٹنا ہو گا۔

تمہارا یونیورسٹی کا پروفیسر تمہیں فیل کرنے لگے گا تو تم یہ نہیں کہہ سکو گے کہ رک جائیں، مجھے میری امّی سے بات کرنے دیں۔ تم اپنے نتائج کے خود ذمّہ دار ہو۔ تم جو کچھ کھاتے ہو، اس کی بنا پر اپنی صحت کے معاملات کے ازخود ذمّہ دار ہو۔۔ جس قدر تم بڑے ہوتے جاؤ گے، جتنی زیادہ آزادی تمہیں ملتی جائے گی، اسی قدر تم اپنے معاملات کے از خود ذمّہ دار بنتے جاؤ گے۔ کوئی بھی دوسرا تمہیں کنٹرول نہیں کر سکتا نہ ہی کوئی اور تمہارے معاملات کا ذمّہ دار ہے۔ ربِّ کائنات نے قرآنِ کریم میں فرمایا ہے کہ کوئی بھی ایک شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ میں اللّٰہ کے سامنے تمہارے معاملات کے حوالے سے ذمّہ دار ہرگز نہیں ہوں۔ یومِ حشر کو ہم سب اپنی ذاتی حیثیّت میں اللّٰہ پاک کے سامنے پیش ہوں گے۔ یہ درست ہے کہ ہم اکٹھّے رہ رہے ہیں۔ ایک دوسرے سے محبّت کرتے ہیں، ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں لیکن یہ سب صرف اسی دنیا تک محدود ہے۔

روزِ حشر ہم سب اپنی اپنی جگہ بالکل یکا و تنہا ہوں گے۔ یہاں تک کہ اگر تم مدد کیلئے میری طرف بھاگتے ہوئے آؤ گے تو میں تم سے دور بھاگ جاؤں گا کہ مجھے اس وقت صرف اپنی نجات کی فکر ہو گی۔ کیونکہ تمہارا اور میرا ایک دوسرے کے ساتھ تعلّق صرف ان چند گھڑیوں کا ہی لکھّا گیا ہے، جو میرے یا تمہارے اللّٰہ سبحانہ وتعالٰی کے ساتھ تعلّق کے مقابلے میں صرف چند مائیکرو سیکنڈز پہ محیط ہو گا۔ اور مجھے بروزِ حشر اس صدیوں پہ محیط تعلّق کی فکر ہو گی۔ قرآن میں ہے کہ روزِ محشر ہر کوئی اپنے ماں باپ، اپنی اولاد اور اپنے شوہر/بیوی سے دور دور بھاگے گا۔

اگلی بات جو میں تم سے کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ محسوس کروں کہ تم مجھ سے محبّت کرتے ہو اور میری عزّت کرتے ہو۔ بالکل ویسے ہی جیسے تمہیں اس احساس کی ضرورت ہے کہ میں تمہارا خیال رکھتا ہوں، تم سے محبّت کرتا ہوں۔ تمہیں یہ محسوس ہونا چاہیے کہ میں تمہارے حوالے سے اپنی ساری ذمّہ داریاں پوری کر رہا ہوں۔ اور مجھے، جواباً تم سے عزّت، محبّت اور فرمانبرداری کی توقع ہوتی ہے۔
لیکن اللّٰہ کے ساتھ تمہارا تعلّق بالکل جدا ہے۔ تمہیں اس کی ذات سے بےشمار حاجات ہیں جبکہ اسے تمہاری طرف سے کسی شے کی ضرورت نہیں۔ اسے درحقیقت تمہاری بالکل بھی ضرورت نہیں بلکہ اسے تو کسی بھی شخص یا کسی بھی چیز کی کسی صورت کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لہذٰا جب تم کہتے ہو کہ مجھے نماز کیوں پڑھنی ہے؟؟ اللّٰہ کو میری نماز کی کیا ضرورت ہے؟ تو دراصل اللّٰہ کو تمہاری ذات سے کسی شے کی ضرورت نہیں ہے۔
کیوں؟

کیونکہ اسکا تعلق اللّٰہ کی کبریائی کے عنصر سے ہے۔

ایک مثال لو: ابھی حال ہی میں میں قطر تھا، فٹبال ورلڈ کپ کیلئے۔ ارجنٹینا یہ ٹورنامنٹ جیت گئی۔ یہ ایک شاندار ایونٹ تھا۔ اس جیت کی خوشی منانے کیلئے بہترین تقریبات منعقد کی گئیں۔ لیکن جیت اور برتری کا یہ احساس سامعین و حاضرین کا محتاج تھا، جو اس احساس کی تصدیق کرتے۔
کیا ایسا ممکن ہے کہ وہاں نہ عوام کا ہجوم ہوتا، نہ کھلاڑی ہوتے، نہ تقریبات ہوتیں۔ صرف ایک شخص ایک جزیرے پہ اکیلا ہوتا اور وہ فٹبال پہ کِک لگاتا اور خووووب خوشیاں مناتا کہ واہ واہ۔۔ میں نے کیا شاندار فتح پائی ہے۔؟؟ یہ ناممکن ہے۔ سننے میں ہی مضحکہ خیز لگ رہا ہے۔
گویا ہماری عظمت کیلئے ہمارے ارد گرد اس عظمت کو قبول کرنے والوں کا ہجوم ہونا ضروری ہے۔ ہماری صلاحیّتوں کے اعتراف کیلئے لوگوں کا ہمارے پاس ہونا ضروری ہے. تم اپنے آپ کو ازخود شاباش کی تھپکی نہیں دے سکتے۔ کسی اور کو تمہارے کاندھے پہ تھپکی دینا ہو گی۔ لیکن اللّٰہ سبحانہُ وتعالٰی فرماتا ہے۔ ” کائنات کی ہر شے فنا ہو جائے گی اور صرف تمہارے رب کی عظمت اور بزرگی والی ذات باقی رہے گی۔” وہ فرماتا ہے کہ کائنات کی ہر شے جب فنا ہو جائے گی، تب بھی اس کی عظمت، بزرگی اور کبریائی باقی رہے گی۔ وہ واحد ذات ہے جس کی کبریائی کسی کے بھی بیان کرنے کی محتاج نہیں۔ وہ اپنی ذات میں ہی “اکبر” ہے، صرف اس کی واحد ذات ہے۔ ہم میں سےہر ایک کو اس سلسلے میں دوسرے انسان کی حاجت ہوتی ہے۔ ربِّ کائنات کو نہ میری نمازوں کی ضرورت ہے، نہ اس چیز کی حاجت کہ میں حلال گوشت کھاؤں، نہ ہی میرے برائی سے بچنے کی ضرورت ہے۔ اسے ان میں سے کسی شے کی ضرورت نہیں ہے۔

اللہ کریم فرماتا ہے کہ “یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اسلام قبول کر کے تم پہ احسان کر رہے ہیں۔ مجھے مت بتاؤ کہ تم اسلام قبول کر کے مجھ پہ احسان کر رہے ہو، بلکہ یہ اللہ ہے جو تم پہ احسان کرتا ہے.”
چلو یہ بتاؤ کہ کسی کے نماز نہ پڑھنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
پیارے بیٹے/بیٹی۔۔!!
میں تمہاری بات نہیں کر رہا۔ بس ایک عمومی سوال پوچھ رہا ہوں۔اس کے بہت سے جواب ہو سکتے ہیں۔ لیکن اللہ کریم کے پاس اس سوال کا ایک اپنا جواب ہے۔ جو خاصا خوفزدہ کر دینے والا ہے۔ اللہ ربّ العزّت فرماتا ہے۔۔ “اور اس نے سچّائی کو تسلیم نہیں کیا، نہ ہی اس نے نماز پڑھی۔” اللہ کریم کفّار کے بارے میں بتا رہا ہے کہ نہ انہوں نے حق کو تسلیم کیا اور نہ ہی انہوں نے نماز پڑھی۔”

اس کا مطلب ہے کہ تمہارے اللہ پہ لائے گئے ایمان میں کہیں کچھ کمی ہے۔ بچّہ کہے گا، نہیں نہیں۔۔ میں تو اللہ پہ ایمان رکھتا ہوں۔ میں تو مسلمان ہوں۔ ہاں۔۔ تم مسلمان ہو، تم صرف اپنے دماغ سے مسلمان ہو جبکہ ایمان دماغ سے زیادہ دل میں بسانے والا مظہر ہے۔ تم ابھی تک قلبی طور پر اسلام کی حقانیت کو محسوس نہیں کر سکے۔ تمہیں احساس نہیں ہے کہ یہ کس قدر سنجیدہ معاملہ ہے۔ بعض اوقات آپ کسی چیز کو جانتے تو ہیں لیکن آپ اس کے بارے میں سوچتے نہیں ہیں۔ اور چونکہ یہاں کچھ نہ کچھ missing ہے، اس لئے بعض اوقات آپ بھی نماز چھوڑنے کو آسان سمجھتے ہو اور کبھی کبھار میں بھی۔

یہ تب ہوتا ہے جب ہمارا دل کسی حد تک راہ سے بھٹک جاتا ہے۔ اور ہمارا ایمان جو کہیں ہمارے دماغ کے کسی گوشے میں موجود تو ہے لیکن ہم اس کے بارے میں جانتے بوجھتے بھی سوچتے نہیں ہیں، غور نہیں کرتے۔ یہ ہے اس سوال کا وہ جواب، جو اللہ پاک کے پاس ہے۔ اور جب تم نماز پڑھتے ہو، اس لئے کہ تمہارے ابّو نے تمہیں کہا ہے تو تمہاری نیّت اللہ کی بجائے اپنے ابّو کیلئے نماز پڑھنے کی ہوتی ہے۔ جبکہ اللہ کے پاس اجر ظاہری اعمال کا نہیں بلکہ نیّت کا ہوا کرتا ہے۔ انّما الاعمال بالنّیّات۔۔ “اعمال کا دارومدار نیّتوں پر ہے”

تو اگر تم کوئی کام اس نیّت سے کرتے ہو کہ کہیں میں ناراض نہ ہو جاؤں تو یہ کام نہ تو تمہارے لئے کسی بھی طرح فائدہ مند ہو سکتا ہے اور نہ ہی میرے لئے۔ تمہاری حقیقی مخلصانہ نماز سے جس ایک شخص کو واقعتاً فائدہ ہو سکتا ہے، وہ صرف تم ہو۔

اچھّا۔۔ اب اس سوال کے جواب کے حوالے سے کہ کوئی شخص کیوں نماز نہیں پڑھتا، دو مزید چیزوں پہ گفتگو کرتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ نماز کا مقصد کیا ہے؟ تمہارا خیال ہو گا کہ نماز کا مقصد یہ ہے کہ تم جہنّم میں جلنے سے بچ جاؤ۔ یا یہ کہ اگر تم نماز نہیں پڑھو گے تو اللہ سبحانہ وتعالٰی تم سے نفرت کرنے لگیں گے۔ یا پھر یہ کہ نماز کا مقصد یہ ہے کہ اگر تم نماز نہیں پڑھو گے تو تمہیں سزا دی جائے گی۔ یا تم نماز نہ پڑھنے سے مسلمان ہی نہیں رہو گے۔ یا یہ کہ فرشتے تم پہ لعنت بھیجیں گے۔ ساری منفی باتوں کا خیال نماز کے ساتھ ہی تمہارے ذہن میں آ جاتا ہے۔

اللہ رب العزّت نے نماز کا ان میں سے ایک بھی مقصد بیان نہیں کیا۔ نماز کا مقصد کسی منفی شے سے پرے بھاگنا نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد کسی مثبت شے کی جانب بھاگ کے جانا ہے۔ کیا تم ایک ایسے طالبعلم کے درمیان، جو اس لئے پڑھتا ہے کہ کہیں وہ فیل نہ ہو جائے اور وہ جو اس لئے پڑھ رہا ہے کہ اسے اس مضمون سے محبّت ہے، فرق معلوم ہے؟؟ ان میں سے ایک طالبعلم ایک منفی شے سے پرے بھاگنے کی کوشش کر رہا ہے اور دوسرا ایک مثبت شے کے حصول کیلئے محنت کر رہا ہے۔ ایک وہ ملازم، جو اپنے کام سے محبّت کرتا ہے اور ایک وہ جو اس لئے محنت کرتا ہے کہ اسے کہیں ملازمت سے فارغ نہ کر دیا جائے، دونوں بالکل ایک ہی جیسا کام کر رہے ہیں۔ لیکن ان میں سے ایک بےحد خوش ہو گا اور ایک شدّید مایوس اور ابتر حالات کا شکار ہو گا۔ کیوں؟؟

کیونکہ عمل تو ایک ہی ہے، یعنی بھاگنا۔ لیکن کسی مثبت شے کی طرف بھاگنے اور کسی منفی شے سے دور بھاگنے میں بہت بڑا نفسیاتی فرق ہے۔

اللہ تبارک و تعالٰی جب قرآنِ کریم میں ہمیں بتاتے ہیں کہ ہمیں نماز کیوں پڑھنی چاہیئے، نماز پڑھنے کا مقصد کیا ہے تو وہ جنابِ موسٰیؑ سے ملاقات کا حوالہ دیتے ہیں جب انہیں تلقین فرمائی کہ،
“نماز قائم کرو تاکہ تم مجھے یاد کر سکو”۔۔

میں تمہیں پہلے ہی یہ بتا چکا ہوں کہ میرا تمہارے ساتھ تعلّق بےحد محدود ہے۔ جبکہ تمہارا اللہ تبارک وتعالٰی کے ساتھ تعلّق اس وقت سے بھی بہت پہلے سے ہے، جب تم ابھی اس دنیا میں بھی نہیں آئے تھے۔ اور اس کے ساتھ تمہارا تعلّق اس وقت بھی قائم رہے گا، جب تم یہ دنیا چھوڑ جاؤ گے۔ اور یہ تعلّق ہی دراصل…

(ترجمہ: ربیعہ فاطمہ بخاری)