مریدکے جامع مسجد ام القری میں میں سندھ کے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ان بھائیوں میں سے ایک بھائی پہلی مرتبہ مرکز طیبہ تشریف لائے تھے فرمانے لگے کسی بڑے عالم سے ملوائیں میں کچھ سوالات کرنا چاہتا ہوں میں نے کہا ان شاءاللہ کرواتے ہیں تھوڑی دیر بعد چہل قدمی کا ارادہ کیا اور مسجد سے نکلُ کر مرکز طیبہ کے خارجی راستے کی طرف چل پڑے کسی بڑے عالم سے ملنے کی خواہش رکھنے والے بھائی بھی ساتھ تھے۔
اسی اثناء میں میں نے دیکھا کہ سامنے سے ایک بڑے صاحب ہاتھ میں کپڑے کی تھیلی تھامے بالکل سادہ لباس میں ملبوس چلے آرہے ہیں ان صاحب کے پاؤں میں پلاسٹک کی چپل تھی اور دونوں پاؤں کی چپلوں کا رنگ بھی الگ الگ تھا میں نے انہیں آتے دیکھا تو لپک کر انہیں سلام کیا اور درخواست کی کہ سندھ سے یہ کچھ بھائی آئے ہوئے ہیں آپ سے بعض معاملات میں شرعی راہنمائی چاہتے ہیں۔ ان بڑے صاحب نے آو دیکھا نہ تاؤ سڑک کے کنارے جو فٹ پاتھ سا تھا اس پر بیٹھ گئے اور فرمانے لگے: تشریف رکھئے۔ چار و ناچار ہمیں بھی اسی جگہ پر بیٹھنا پڑا۔ سوال وجواب کا سلسلہ شروع ہوا.
بڑے صاحب نے ہمارے ساتھی کے ہر سوال کا شافی جواب دیا اور جب ہمارے بھائی کے سوالات کی پٹاری خالی ہو گئی اور اس نے کہہ دیا کہ مزید کوئی سوال باقی نہیں ہے تو بڑے صاحب اٹھے ہمیں سلام کیا اور اپنے کپڑوں کو جھاڑ کر اپنی راہ ہو لیے۔ ان کے جانے کے فوری بعد ہمارے ساتھی نے شکوہ کرتے ہوئے مجھے مخاطب کیا اور فرمانے لگے کہ بھائی جان میں نے آپ سے کہا تھا کہ کسی بڑے عالم سے ملوائیں۔ میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا کہ بڑے عالم کے سر پر سینگ ہوتے ہیں! جن سے آپ کی ملاقات ہوئی ہے کیا انہوں نے آپ کے تمام سولات کے شافی جوابات نہیں دیے؟!
وہ فرمانے لگے: جواب تو انہوں نے سارے دیے ہیں لیکن ان کے کپڑے دیکھیں ہاتھ میں پکڑی تھیلی دیکھیں پاؤں میں دو رنگ کی پلاسٹک کی چپل دیکھیں، یہ کہیں سے بھی بڑے عالم نہیں لگتے! میں نے جواب دیا: بھیا عالم علم سے ہوتا ہے کپڑوں اور جوتوں سے نہیں اور جن سے آپ مخاطب تھے ان کی سادگی پر نہ جائیں یہ شاید ہماری جماعت کے سب سے بڑے عالم دین ہیں۔ ان کا نام حافظ عبدالسلام بن محمد (بھٹوی صاحب) ہے اور یہ ساری جماعت کے استاد ہیں۔ میری بات سن کر ہمارے ساتھی کی حیرت دیکھنے والی تھی۔
مریدکے میں محترم حافظ عبدالسلام بھٹوی صاحب رحمة اللہ علیہ کے جنازے میں شریک تھا اور اتفاق تھا کہ عین اس جگہ بیٹھا جہاں سامنے وہ جگہ موجود تھی جہاں فٹ پاتھ پر بیٹھ کر یہ سارا مکالمہ ہوا تھا اور پھر سارا منظر گویا نگاہوں کے سامنے بالکل تازہ ہوگیا اور محترم بھٹوی صاحب کیلئے زبان سے دعائیں خود بخود جاری ہورہی تھیں۔ اللہ ہمارے بزرگوں کی تمام محنتوں کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت عطا فرمائے اور اللہ کے دین کیلئے ان کی وسیع تر خدمات کا صلہ انہیں اپنی اعلیٰ ترین جنتوں کی صورت عطا فرمائے۔
آمین یارب العالمین
فیصل ندیم