مشہور حدیث “لا تشد الرحال إلا إلی ثلاثة مساجد” کے موجب علماء کا ایک طبقہ یہ رائے رکھتا ہے کہ مدینۃ الرسول (صلى الله تعالى على ساكنها وسلم) کی طرف رختِ سفر باندھتے ہوئے مسجدِ نبوی کی زیارت کی نیت ہو اور اس کے بعد قبرِ شریف کی زیارت کی جائے۔
علماء کا دوسرا طبقہ کچھ آثار مثلاً “من زار قبری وجبت له لہ شفاعتي” کو مستند مان کر زیارتِ قبر نبوی (على صاحبه أفضل الصلاة وأتم التسليم) کی نیت کو مقدم رکھنے کی رائے رکھتا ہیں۔ غالباً قبرِ نبوی کی زیارت کی فضیلت کا ذکر پہلی مرتبہ حکیم ترمذی کی کتاب “نوادر الأصول” میں ملتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
“زیارۃ قبرہ صلی اللہ علیہ وسلم هجرۃ المضطرین، هاجروا إلیہ فتوجب شفاعتهم”.
علامہ قاضی عیاض مالکی نے اپنی مشہور کتاب “الشفاء بتعريف حقوق المصطفى” میں علامہ ابو عمران الفاسی المالکی کا قول “وواجب شد الرحال إلى قبره صلى الله عليه وسلم” یعنی «قبر نبوی کی طرف قصد کرنا واجب ہے» نقل کرکے مسئلے کو ایک نئی جہت بخشی۔ اس کے بعد دھیرے دھیرے مسئلہ کتبِ فقہ کے حج کے ابواب میں ذکر ہونے لگا۔ امام محمد کی کتاب الأصل، امام شافعی کی کتاب الأم، مسائل الإمام أحمد وغیرہ جیسی متقدمین ائمہ کی کتب میں اس مسئلہ کا کوئی صراحتاً ذکر نہیں ملتا۔ اس مسئلے کو صوفیاء نے اپنے مزاج و مشرب کے پیش نظر ایک خاص اہمیت دی۔ علامہ مناوی الجامع الصغیر کی شرح “فیص القدیر” میں فرماتے ہیں “زیارة قبرہ الشریف من کمالات الحج، بل زيارته عند الصوفية فرض…” یعنی «زیارتِ قبر شریف حج کو مکمل کرنے والے امور میں سے ہے اور صوفیاء کے ہاں فرض ہے۔۔». اس مسئلے کے مفاہیم کی تصحیح کے لئے امام ابن تیمیہ نے قلم اٹھایا اور تعامل خیر القرون کی روشنی میں حدیث “لا تشد الرحال۔۔۔” کی تشریح کی۔
ان کا موقف یہ تھا کہ قبرِ شریف کی زیارت کی نیت سے مدینہ سفر کرنا صحیح نہیں بلکہ نیت مسجد نبوی کی زیارت کی ہونی چاہیے اور یہ کہ یہ زیارت حج کا حصہ نہیں ہے۔ اس موقف کے سبب امام صاحب کو کئی ایک مصائب کا سامنا کرنا پڑا اور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں۔ قاضی اخنائی مالکی نے ان کا رد لکھا اور جواب میں امام ابن تیمیہ نے مسئلہ کی توضیح اور اپنے موقف کی درست ترجمانی کے لئے “الرد على الأخنائي” يا “الأخنائية” لکھی۔ اس کے بعد امام سبکی نے “شفاء السقام في زيارة قبر خير الأنام” میں امام ابن تیمیہ کے موقف کی خوب تردید کی۔ امام ابن حجر مکی نے بھی “الجوهر المنظم في زيارة قبر النبي المكرم” میں امام ابن تیمیہ کا خوب رد کیا اور ان کو گمراہ تک قرار دیا۔ امام سبکی کی کتاب کا رد علامہ ابن عبد الہادی نے “الصارم المنكي في رد على السبكي” لکھ کر کیا اور امام سبکی کی پیش کردہ روایات و آثار کی استنادی کمزوریوں کو واضح کیا۔ یہ دونوں کتابیں طرفین کے ہاں اپنی اپنی جگہ لگ بھگ “حرفِ آخر” کا درجہ رکھتی ہیں۔
بر صغیر کے تناظر میں غالباً سب سے پہلے شاہ عبد الحق محدث دہلوی نے “جذب القلوب إلى ديار المحبوب” میں اس مسئلے کا ذکر کیا اور امام سبکی کی آراء کا مغز فارسی زبان میں پیش کیا۔
انیسویں صدی میں اس مسئلے پر برصغیر میں بحث دوبارہ تب شروع ہوئی جب مفتی صدر الدین دہلوی “آزردہ” نے “منتھی المقال فی شرح حدیث لا تشد الرحال” لکھی۔ جواب میں قاضی بشیر الدین قنوجی نے “أحسن المقال فی شرح حدیث لا تشد الرحال” لکھی اور سلسلہ پھر شروع ہوا۔
سید نذیر حسین محدث دہلوی کے ہی فیض یافتہ مولانا محمد بشیر سہسوانی سفر حج کے بعد “وہابیوں” کے دفاع میں لکھی گئی اپنی کتاب “صیانة الإنسان عن وسوسة الشيخ الدحلان” میں اس مسئلہ پر بحث کرتے ہیں اور امام ابن تیمیہ کے موقف کی تائید کرتے ہیں۔ اس مسئلے پر انہوں نے ایک رسالہ بنام “القول المحقق المحكم في زيارة قبر الحبيب الأكرم” لکھی اور اس رائے کی تائید کی کہ قبرِ نبوی کی زیارت صرف مستحب ہے؛ فرض یا واجب نہیں اور حج اس زیارت کے بغیر بھی مکمل ہے۔ اس کے جواب میں مولانا عبد الحی لکھنوی نے “الکلام المبرم في رد القول المحكم” لکھی اور زیارت قبر نبوی کے وجوب کا شد و مد سے دعوی کیا۔ جواب الجواب میں علامہ سہسوانی نے “القول المنصور” لکھی اور علامہ لکھنوی کے پیش کردہ دلائل اور اعتراضات کا جائزہ لیا۔ اس کے رد میں علامہ لکھنوی نے “الكلام المبرور في رد القول المنصور” لکھی۔
علامہ لکھنوی نے اپنے اس رد میں زیادہ تر اعتماد اور استفادہ امام سبکی کی “شفاء السقام” سے کیا تھا۔ جواب میں علامہ سہسوانی نے “اتمام الحُجة على من أوجب الزيارة مثل الحجة” یا “المذهب المأثور في زيارة سيد القبور” لکھی۔ سلسلے کی آخری کڑی علامہ لکھنوی نے “السعي المشكور في رد المذهب المأثور” لکھی لیکن بقول مولانا عزیر شمس صاحب “مولانا سہسوانی نے جو سوالات اٹھائے تھے اور جن اعتراضات کے جواب طلب کئے تھے، مولانا لکھنوی ان کا کوئی معقول جواب نہ دے سکے یا نظر انداز کر گئے”.
حکایت ہے کہ علامہ لکھنوی کہا کرتے تھے کہ اگر مولانا سہسوانی کو “الصارم المنكي” میسر نہ آتی تو ان سے میری کتب کا جواب کبھی نہ بن پڑتا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان کتب میں تیز کلامی اور ایک دوسرے پر رد کے باوجود دونوں کے بیچ تعلقات خوشگوار رہے اور ایک دوسرے کے علمی مقام کا خاص لحاظ کیا کرتے۔ مولانا سہسوانی جب بھی لکھنؤ جاتے تو علامہ لکھنوی ہی کے مہمان بنتے اور وہ ان کی خوب ضیافت کیا کرتے۔ رحمهم الله تعالىٰ أجمعين.
سہیل خالق