سوال (4030)

اس روایت کی تحقیق مطلوب ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللّٰہ عنہما بیان کرتے ہیں:
رسول اکرم ﷺ نے مسجد الفتح میں تین دن (پیر، منگل اور بدھ) تک دعا مانگی. بالآخر بدھ کے روز دو نمازوں ( ظہر اور عصر) کے درمیان آپ ﷺ کی دعا قبول ہو گئی. دعا کی قبولیت پر آپ ﷺ کے چہرہ انور پر خوشی کے آثار دیکھے گئے۔ حضرت جابر رضی اللّٰہ عنہ کہتے ہیں: جب بھی مجھے کوئی اہم معاملہ درپیش ہوتا. تو میں اسی گھڑی کا انتظار کرتا (بدھ کے دن ظہر اور عصر کی درمیانی گھڑی) اور اس وقت میں دعا مانگتا تھا. تو میری دعا قبول ہو جاتی تھی۔

حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، حَدَّثَنَا كَثِيرٌ، يَعْنِي: ابْنَ زَيْدٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، حَدَّثَنِي جَابِرٌ، يَعْنِي: ابْنَ عَبْدِ اللهِ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ دَعَا فِي مَسْجِدِ الْفَتْحِ ثَلَاثًا: يَوْمَ الاِثْنَيْنِ، وَيَوْمَ الثُّلَاثَاءِ، وَيَوْمَ الأَرْبِعَاءِ، فَاسْتُجِيبَ لَهُ يَوْمَ الأَرْبِعَاءِ بَيْنَ الصَّلاتَيْنِ، فَعُرِفَ الْبِشْرُ فِي وَجْهِهِ، قَالَ جَابِرٌ: فَلَمْ يَنْزِلْ بِي أَمْرٌ مُهِمٌّ غَلِيظٌ، إِلَّا تَوَخَّيْتُ تِلْكَ السَّاعَةَ، فَأَدْعُو فِيهَا فَأَعْرِفُ الإِجَابَةَ. (مسند احمد: 22/ 425 (14563)

حدیث کا حکم: علامہ ہیثمی رحمہ اللّٰہ نے اپنی کتاب “مجمع الزوائد” میں اس حدیث کے تمام راویوں کو ثقہ قرار دیا ہے، لہذا مذکورہ بالا حدیث صحیح ہے۔
٣/ ٦٨٤ (٥٩٠١) كتاب الحج/ باب في مسجد الفتح، وقال: رواه أحمد، والبزار، ورجال أحمد ثقات.
کیا یہ روایت صحیح ہے؟

جواب

جی یہ روایت منکر و ضعیف ہے ، اسے عصر حاضر کے بلند پایہ محققین نے ضعیف و منکر کہا ہوا ہے گر کسی کی اتفاقا اس دن میں دعا قبول ہوئی ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ روایت صحیح ہے۔ جیسے شیخ شعیب الأرنووط وغیرہ ، شیخ صالح المنجد کے اشراف میں جو الإسلام سؤال وجواب کا سلسلہ ہے انہوں نے کہا:

حديث استجابة الدعاء يوم الأربعاء بين الظهر والعصر ضعيف سنداً، لا يصح الاحتجاج به، ولو صح فالمراد به تحري هذا الوقت للدعاء فيه، كما يدل على ذلك فعل جابر رضي الله عنه، وليس في الحديث قصد مسجد الفتح لأجل الدعاء فيه،

اور بھی محققین ہیں اور میں طالب علم بھی یہی کہتا ہوں کہ یہ ضعیف ومنکر ہے.
والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ