اسلامی تعلیمات میں ماحول اور قدرتی دنیا کو بڑا محترم سمجھا جاتا ہے اور ان کے ساتھ احتیاط اور احترام کے ساتھ پیش آنے کا درس دیتا ہے، اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک مومن اور مسلمان ہمیشہ ماحول دوست ہوتا ہے، نبی علیہ السلام نے اس شخص پر لعنت کی ہے جو سایہ دار درخت کو بلاوجہ کاٹتا ہے آقا علیہ السلام کا فرمان ہے:
من قطع سدرة صوب الله راسه في النار” , سئل ابو داود عن معنى هذا الحديث , فقال: هذا الحديث مختصر , يعني: من قطع سدرة في فلاة يستظل بها ابن السبيل والبهائم عبثا وظلما بغير حق يكون له فيها , صوب الله راسه في النار.
ترجمہ: جو شخص (بلا ضرورت) بیری کا درخت کاٹے گا ۱؎ اللہ اسے سر کے بل جہنم میں گرا دے گا“۔ ابوداؤد سے اس حدیث کا معنی و مفہوم پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ: یہ حدیث مختصر ہے، پوری حدیث اس طرح ہے کہ کوئی بیری کا درخت چٹیل میدان میں ہو جس کے نیچے آکر مسافر اور جانور سایہ حاصل کرتے ہوں اور کوئی شخص آ کر بلا سبب بلا ضرورت ناحق کاٹ دے (تو مسافروں اور چوپایوں کو تکلیف پہنچانے کے باعث وہ مستحق عذاب ہے) اللہ ایسے شخص کو سر کے بل جہنم میں جھونک دے گا۔
[تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 5242) صحیح ‏‏‏‏قال الشیخ البانی رحمہ اللّٰہ (صحیح)]
اس وقت کلائمیٹ چینج کے حوالے سے UNO نے اور دیگر عالمی اداروں کا سب سے زیادہ رجحان کاربن کو کم سے کم کرکے آکسیجن کی فراھمی کو زیادہ کرنا ہے جس کیلئے درختوں کی کاشتکاری کو اولین ترجیح دی جارہی ہے اور اسی پر پوری دنیا میں درختوں کی کاشتکاری کی گئی پاکستان میں بھی one billion trees کا پروجیکٹ تشکیل دیا گیا۔
اور اسلامی تعلیمات میں درختوں کی حفاظت پر اوپر نبی علیہ السلام کا واضح فرمان موجور ہے اور اسی طرح نبی علیہ نے کاشتکاری پر بھی ترغیب دی ہے آقا علیہ السلام فرماتے ہیں:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنْ قَامَتِ السَّاعَةُ وَفِي يَدِ أَحَدِكُمْ فَسِيلَةٌ، فَإِنِ اسْتَطَاعَ أَنْ لَا تَقُومَ حَتَّى يَغْرِسَهَا فَلْيَغْرِسْهَا۔

اگر قیامت قائم ہوجائے اور کسی شخص کے ہاتھ میں اگانے والا پودا ہو تو وہ اگر قیامت کے برپا ہونے سے پہلے وہ پودا لگاسکتا ہو تو ضرور اسکو لگائے،
[ مسند أحمد (12902) ، والبخاري في “الأدب المفرد” (479) ، وعبد بن حميد في “مسنده” (1216) ، والبزار في “مسنده”(7408) و اسنادہ صحیح عند الالبانی رحمہ اللّٰہ]
قارئین ذرا اندازہ کریں کس انداز میں نبی علیہ السلام نے مسلمانوں کو ماحول دوست بننے کیلئے درختوں کی کاشتکاری پر ترغیب دی ہے۔
سبحان اللّٰہ.!!
اسلامی اسکالرز اور اسلامی ماحولیاتی اخلاقیات کے ماہرین نے بھی ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے پر خصوصی توجہ دی ہے اور اسے انسانیت کو درپیش ایک اہم چیلنج کے طور پر تسلیم کیا ہے۔
اگرچہ کلاسیکی اسلامی نصوص جیسے کہ قرآن یا حدیث (پیغمبر اسلام کے اقوال) میں موسمیاتی تبدیلی(climate change) کا کوئی خاص ذکر نہیں ہے، کیونکہ یہ ماحولیاتی تبدیلی کا مسئلہ ابھی ہی کچھ دہائیوں پہلے انڈسٹری ریولوشن اور کاربن پروڈکشن کے نتائج میں زیادہ ابھرا ہے اسی لئیے دنیا میں اس پر خصوصی توجہ دی گئی حالانکہ یہ توجہ بھی بہت کم ہے جتنی فنڈ ریزنگ کلائمیٹ چینج پر ہوتی ہے اسکا دس فیصد بھی اسکی ریسرچز اور انتظامات میں خرچ نہیں ہوتا کئی ریسرچز کو سرمایہء داروں کی طرف سے غلط ریسرچ پیش کرنے پر بھی مجبور کیا جاتا ہے، جو کہ ایک الگ موضوع ہے جس پر میں نے پہلے بھی بہت کچھ لکھا ہوا ہے!

بہرحال اسلامی اصول اور اقدار اس بارے میں رہنمائی فراہم کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو ماحولیاتی ذمہ داری اور تحفظ کیطرف کیسے رجوع کرنا چاہیے۔
یہاں اسلامی علوم کے چند اہم اصول اور تعلیمات ہیں جو موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ہیں۔

1: ریاستی نگہبانی(state control):
مسلمانوں کو زمین اور اس کے وسائل کا نگران یا امانت دار خلیفہ یا موجودہ حکمران سمجھا جاتا ہے۔ اسلام اراضی کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے
زمین کی ایک قسم وہ ہے جس کے مالک کسی جنگ و جدال کے بغیر ایمان لے آئے ہوں. ایسی زمین انہی کی ملکیت شمار ہوگی اور اس کی پیداوار میں سے عشر وصول کیا جائے گا. ایسی زمین کو عشری زمین کہا جاتا ہے. اس قسم کی زمین کی سب سے نمایاں مثال مدینہ منورہ کی زمینیں ہیں. مدینہ کو نبی اکرم ﷺ نے فتح نہیں کیا تھا‘ بلکہ وہاں کے لوگوں نے خود آنحضرت ﷺ کو مدینہ آنے کی دعوت دی تھی.

زمین کی دوسری قسم وہ ہے جسے خراجی کہا جاتا ہے. یہ ان علاقوں اور ملکوں کی زمینیں ہیں جو بزورِ شمشیر فتح ہوئے ہیں. ایسی زمینیں مسلمانوں کی اجتماعی ملکیت ہیں‘گویا یہ اسلامی ریاست کی ملکیت ہیں. اور state controlled ہیں، اس زمین میں ایک انچ کسی کا ملکیتی رقبہ نہیں ہے. جو لوگ پہلے سے ان زمینوں پر قابض تھے ‘وہ عیسائی ہوں‘ مجوسی ہوں‘ قبطی ہوں یا یہودی ہوں‘اب ان کی حیثیت کاشت کار کی ہوگی اور وہ زمین کا خراج براہ راست خود بیتالمال کو ادا کرنے کے ذمہ دار ہوں گے. خراج کی شرح اسلامی حکومت اپنے اجتہاد سے مقرر کرے گی. نظامِ خلافت میں ریونیو کا سب سے بڑا source مسلمانوں کا بیت المال ہوگا.
اراضی کو خود دیکھنا اور انکا جائزہ لینا اسلام کا یہ تصور بھی اراضی کو اور ماحول کو پرائیویٹ سیکٹر پر سرمایہ دارانہ کارروائیوں اور خرابیوں سے بچاتا ہے جو کہ آج اس مسئلہ میں سب سے زیادہ خرابی کا باعث ہے یہاں تو زمینیں درکنار حکومتیں بھی سرمایہ داروں کے تعاون سے چلتی ہیں مروجہ جمھوریت میں مفاد پرستی ہے جس می۔ حکومت کبھی بھی سرمایا دار کو ہاتھ نہیں ڈال سکتی بھلے وہ جتنا مرضی ماحولیاتی تبدیلی کا باعث ہو،
اسکے برعکس اسلام کا یہ تصور ماحولیات کی دیکھ بھال اور تحفظ کی ذمہ داری پر زور دیتا ہے، بشمول موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے.

2: توازن اور اعتدال (moderation):
اسلام زندگی کے تمام پہلوؤں میں توازن اور اعتدال کو فروغ دیتا ہے۔ یہ اصول قدرتی وسائل کے استعمال پر لاگو ہوتا ہے، پائیدار طریقوں کی وکالت کرتا ہے جو ماحول کو استحصال یا نقصان کا باعث نہیں بنتے ہیں۔
اسلام میں نہ تو سوشلزم (socialism) کی طرح مکمل طور پر جائیدادوں پر ریاستی قبضہ ہے اور نہ ہی جاگیر دارانہ نظام (capitalism) کی طرح سرمایہ داروں کو کھلی چھوٹ ہے بلکہ اعتدال اور قدامت پسندی ہے جس میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کا کافی سامان ہے، اسلام انفرادی ملکیت کا بھی قائل ہے اور ریاستی استحصال کے خلاف بھی ہے نہ کہ کیمونزم (communism) کی طرح جاگیروں پر قبضے کا حکم دیتا ہے بلکہ انفرادی ملکیت کے تحفظ کیلئے حدود اور سنگین سزائیں بھی مقرر کی ہیں۔
اسلام کا یہ اعتدال والا رویہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ کس طرح ہم ایک ماحول دوست انسان بن سکتے ہیں اور انسانیت کا درس دے سکتے ہیں، جس سے ہماری آنے والی نسلوں کی حفاظت کیساتھ ساتھ دیگر حیوانات کے تحفظ کی بھی ضمانت ملتی ہے،
یوں اسلام اعتدال اور توسط پر ہمیں مکمل درس دیتا ہے بلکہ نبی علیہ السلام کی امت کو لقب ہی[ أُمَّةً وَسَطًا ] کا ملا ہے جسکا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ یہ اعتدال والی امت ہے نہ تو یھودیوں کی طرح سخت اور نہ عیسائیوں کی طرح بالکل نرم بلکہ معتدل اور میانہ روی اختیار کرنے والی ایک جگہ پر نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے سختی کرنے والے اور اعتدال سے ہٹ کر چلنے والوں کیلئے ھلاکت کی وعید سنائی ہے آقا علیہ السلام فرماتے ہیں: هَلَك المُتَنطِّعون [رواه مسلم: 2670]
اللّٰہ تعالیٰ قصد اور میانہ روی اختیار کرنے والوں کی تعریف کرتے ہیں [مِنْهُمْ أُمَّةٌ مُقْتَصِدَةٌ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ سَاءَ مَا يَعْمَلُونَ [المائدة : 66]
ترجمہ: ان میں سے ایک امت میانہ روی اختیار کرنے والی ہے اور زیادہ برے عمل کرنے والے ہیں۔

3: امانة (trust): مسلمانوں کو زمین کے وسائل سونپے گئے ہیں، اور ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ انہیں ذمہ داری کے ساتھ استعمال کریں، اور آئندہ نسلوں کے لیے ان کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔
اور یہ تبھی ممکن ہوگا جب ہم اس مسئلہ پر مکمل توجہ دیں گے اور ان تمام کاموں سے پرہیز کرینگے جو اس ماحول کیلئے نقصان دہ ہیں تاکہ ہماری نسل جاری رہ سکے اور دیگر حیوانات کی بھی جانیں اور نسلیں محفوظ رہ سکیں اور امانت پر اسلام نے بہت زیادہ زور دیا ہے نبی علیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا:

عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَلَّمَا خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا قَالَ: «لَا إِيمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَةَ لَهُ وَلَا دِينَ لِمَنْ لَا عَهْدَ لَهُ»
جس شخص میں ایمانت کی پاسداری نہیں اس شخص کا کوئی ایمان نہیں اور جو اپنا عھد نہیں پورا کرسکتا ایسے شخص کا دین معتبر نہیں.

[ روَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي شُعَبِ الْإِيمَانِ ۴۳۵۲ و السنن الکبریٰ ۶ / ۲۸۸) و احمد (۳/ ۱۳۵ ح ۱۲۴۱۰ ، و ۳/ ۱۵۴ ، ۲۱۰ ، ۲۵۱) و اوردہ الضیاء فی المختارۃ (۵/ ۷۴ ح ۱۶۹۹ ، ۷/ ۲۲۴ ح ۲۶۶۰ ، ۲۶۶۳) و ابن حبان (الاحسان : ۱۹۴) و ابن خزیمہ (۳۳۳۵) و اسنادہ صحیح]

اور ایک جگہ پر تو خیانت اور عھد شکنی کو نفاق کی علامات میں سے شمار کیا ہے(صحیحین) بہرحال اسلام میں امانت اور نسلوں کی حفاظت پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے بلکہ اسلام میں تو ایسی عورت سے نکاح کرنے پر بھی کراھت کا اظہار کیا ہے جو آپکی نسل جاری نہ رکھ سکے اور جو زیادہ بچے جننے والی عورتیں ہیں ان سے نکاح کی ترغیب دی ہے تاکہ ہماری نسلیں محفوظ رہیں اسی بناء پر ماحولیاتی تبدیلیوں پر بھی ہمیں مکمل توجہ دینا ہوگی۔

4: توحید الوہیت (unification):
توحید کا تصور تمام مخلوقات کے باہم مربوط ہونے پر زور دیتا ہے اور فطری دنیا( nature) کے اتحاد اور ہم آہنگی کو تسلیم کرتا ہے۔ اس باہمی ربط کا مطلب یہ ہے کہ ماحول پر اثر انداز ہونے والے انسانی اعمال کے دور رس نتائج ہو سکتے ہیں اور انہیں پورے ماحولیاتی نظام کی بھلائی کا خیال رکھنا چاہیے۔
توحید کا تصور ہمیں بتلاتا ہے کہ پوری کائنات کا خالق اکیلا اللّٰہ وحدہ لاشریک ہے جس طرح ہم اسلی مخلوق ہیں اسی طرح باقی مخلوقات بھی اسی کے رحم و کرم پر زندہ ہیں،
اور انسان کو اللہ تعالیٰ نے زمین میں اپنا جانشین بنایا ہے جسکی ذمہ داری انسانوں کیساتھ ساتھ حیوانوں کیلئے بھی اچھا ماحول فراھم کرنا ہے اور خود کو ماحول دوست انسان ثابت کرنا ہے،
اسی چیز کا تقاضا الله تعالیٰ کی توحید کرتی ہے، نبی علیہ السلام نے واضح الفاظ میں فرمایا ہے:

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ ، قَالَ: الرَّاحِمُونَ يَرْحَمُهُمُ الرَّحْمَنُ ، ارْحَمُوا مَنْ فِي الأَرْضِ يَرْحَمْكُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ»[ أَخْرَجَهُ أَبُو دَاوُدَ ، وَالتِّرْمِذِيُّ 1924، وَ صَحَّحَهُ]
ترجمہ: زمین والوں پر رحم کرو عرش والا تم پر رحم کریگا اور وہی لوگ الله کی رحمت کے مستحق ہیں جو زمین والوں پر رحم کرتے ہیں۔

اور اس سے مراد صرف انسان ہی نہیں ہیں بلکہ تمام ذی روح مراد ہیں اس سے کیسا کہ دوسری جگہ نبی علیہ السلام نے اسکی بھی وضاحت کی ہے:

کتے کو پانی پلانے والے شخص کی مغفرت والا واقعہ ہے اس کے آخر میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پوچھتے ہیں: يا رسولَ اللهِ و إنَّ لنا في البهائمِ أجرًا ؟ قال : في كُلِّ كَبِدٍ رطبَةٍ أجرٌ.

ترجمہ: کیا ہمیں حیوانات میں بھی اجر ملے گا تو نبی علیہ السلام نے فرمایا کیوں نہیں؟! بلکہ ہر تر جگر والی جان میں اجر ہے۔
[صحيح الأدب المفرد | الصفحة أو الرقم : 291 | صحيح | التخريج : أخرجه البخاري (2363) وفي (الأدب المفرد (378) واللفظ له، ومسلم (2244)]

5: اسراف (extravagance) سے روکنا:
اسلام فضول خرچی اور اسراف سے منع کرتا ہے۔ یہ اصول مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ اپنے استعمال کے انداز کو ذہن میں رکھیں، فضلہ(exhaust) کو کم کریں، اور توانائی سمیت وسائل کو محفوظ رکھیں۔
اللّٰہ تعالیٰ قرآن میں واضح طور پر اسراف پر حوصلہ شکنی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ كَانُـوٓا اِخْوَانَ الشَّيَاطِيْنِ ۖ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا [ اسراء ٢٧]

ترجمہ: بے شک بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا ہمیشہ سے ناشکر گزار ہے۔
مطلب اسراف کرنا ناشکری بھی ہے الله تعالیٰ کی نعمتوں کو اور وسائل کو بے جا استعمال کرنا یہ ابلیسیت اور شیطانیت ہے نہ کہ اسلام اور انسانیت ہے۔ اگر ہم ان اسلامی اصولوں کو مد نظر رکھیں گے تو کلائمیٹ چینج جیسے مسئلہ سے نبرد آزما ہوسکتے ہیں وگرنہ منافع خور اور سرمایہ دار درندگی اور ابلیسیت کرتے رہیں گے۔
ہم خود ہی اپنے بل بوتے کچھ احتیاطی تدابیر اور اسلامی اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ماحول دوست بن کر اس مسئلہ سے نمٹ سکتے ہیں۔ انہی اصولوں کی بنیاد پر اسلامی اسکالرز اور ماہرین ماحولیات کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے اقدام کرنے پر زور دینا چاہیے۔ اور پائیدار ترقی، قابل تجدید توانائی، تحفظ، اور ذمہ دار وسائل کے انتظام کی ضرورت پر زور دینا چاہیے۔
مزید برآں، تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اور مسلمانوں میں ماحولیاتی چیلنجوں کے بارے میں بیداری پیدا کرنی چاہیے۔ کیونکہ اس ماحولیاتی تبدیلی کی خطرات بہت زیادہ ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اگر جونہی کلائمیٹ چینج ہوتا رہا اور اس کیلئے کوئی احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی گئیں تو 2050 تک کلائمیٹ چینج کی وجہ سے پچاس فیصد گلیشیئرز پگھل جائیں گے جس سے ہماری زراعت بہت متاثر ہوگی اور ہمیں پینے کیلئے صاف پانی کی قلت(droughts) کا بھی سامنا کرنا پڑیگا جیسے اس دفعہ یورپ میں 500 سال کی تاریخ کے سب سے بڑے ڈراؤٹس ہوئے جس سے جھیلوں میں پانی ختم ہوگیا زمینی پانی نیچے چلا گیا اور اس سے ہمارے شھر اور دیہات بھی متاثر ہونگے کیونکہ دریا اور نہروں میں پانی کی بڑی مقدار بارش کی بعد انہیں گلیشئیرز کی وجہ سے آتی ہے۔

عمیر رمضان