مجھے نہیں معلوم میں نے درس میں کیا کیا کہا مگر اتنا یاد ہے حافظ صاحب نے نہایت توجہ اور انہماک سے اس طالب علم کی گفتگو سماعت بلکہ برداشت کی، گھر واپس آئے آنجناب سے علیک سلیک ہوئی، آپ نہایت خندہ پیشانی سے ملے اور حافظ عثمان یوسف صاحب سے کہنے لگے کہ یہ ناشتہ کیے بغیرنہ جائیں. مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک چوک سے پائے، نان اور میٹھی لسی سے بہترین اور بھاری بھرکم ناشتہ کیا. جزاہ اللہ.
سلام دعا پر مبنی چوتھی ملاقات منڈی واربٹن میں ہوئی. کوئی تقریری مقابلہ تھا جس میں پروفیسر نجيب اللہ طارق صاحب بطورِ منصف مدعو تھے. وہ کسی مصروفیت کی بنا پر نہ جا سکے تو ادارے کی طرف سے مجھے بھیجا گیا…محترم جناب حافظ عبد العظيم صاحب نے اڈے سے مجھے اپنی کار میں بٹھایا اور میں ان کی رفاقت میں ان دیکھی منزل کی جانب چل پڑا.” الرحمۃ انسٹیٹیوٹ ” پہنچا تو حسنِ انتظام دیکھ کر ازحد خوشی ہوئی. پروگرام کے اختتام پر چونکہ ظہرانہ دیا جانا تھا لہٰذا کھانے کے لیے ڈائیننگ ھال میں لے جایا گیا وہاں دیکھا کہ حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ اپنے صاحبزادہ گرامی قدر حافظ عثمان يوسف صاحب کے ہمراہ آخری دستر خوان پر تشریف فرما تھے اور یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے حافظ صاحب رحمہ اللہ کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا جا رہا ہے اور آپ نہایت افسردہ و ملول ہیں. آہ فآہ ثم آہ :

اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا

جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا

میں نے آگے بڑھ کر حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ کو سلام کیا مگر آج جواب میں وہ گرمجوشی نہیں تھی جو گزشتہ ملاقاتوں میں آپ کا خاصہ تھا. اگلے دن پروفیسر نجيب اللہ طارق صاحب نے مجھ سے پروگرام کی تفصیل. پوچھی تو میں نے آنکھوں دیکھا حال بلا کم و کاست گوش گزار کر دیا اور علم کی ناقدری اور مال و منال کی حد سے زیادہ چاپلوسی کا رونا رویا اور کہا کہ دیکھیں حضرت شیخ الحدیث حافظ عبد العزيز علوی صاحب کی کتنی عزت ہے کہ انہیں ہر موقع میں خصوصی پروٹوکول سے نوازا جاتا ہے تو پروفیسر نجيب اللہ طارق صاحب نے مجھے مدرس اور ملازم کا مطلب سمجھایا.

پانچویں ملاقات قدرے تفصیلی اور حافظ صاحب کے حکم پر ہوئی تھی…مدینہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوئے سال بیت چکا تھا اور میرا حال :

دیوانگی سے دوش پہ زنار بھی نہیں

یعنی ہمارے جیب میں اک تار بھی نہیں
والا تھا.
ہوا کچھ یوں کہ حافظ صاحب کی تفسیر کا مطالعہ کرتے ہوئے سورہ کہف پڑھ رہا تھا کہ ایک روایت نظر سے گزری جو کہ” منکر” تھی. میں نے حافظ صاحب کی ایک کتاب سے ان کا پتا تلاش کیا اور جلد بازی میں جان بوجھ کر اپنا اتا پتا لکھے بغیر محض عبد العزيز بٹ لکھ کر خط ارسال کر دیا.
میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ مجھ سے رابطہ کیا جائے گا یا میرے خط کا جواب آئے گا…کچھ دن بعد نماز عشاء پڑھ کر بیٹھا ہوا تھا کہ انجان نمبر موبائل کی سکرین پر جگمگانے لگا. میں نے فون اٹھایا تو دوسری طرف حافظ عثمان یوسف صاحب چہچہاتے ہوئے شرارتی لہجے میں کہنے لگے : اچھا تو آپ ابو کی غلطیاں نکالتے ہیں؟
میں نہایت شرمسار ہوا تو کہا ابو آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں…حافظ صاحب نے انتہائی مہربان لب و لہجے میں شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ سعودی عرب والے ایڈیشن میں یہ غلطی موجود ہے مگر دار السلام سے طبع شدہ جدید ایڈیشن میں اس کی تصحیح کر دی گئی ہے.
پھر مجھے اپنے گھر آنے کی پر خلوص دعوت دی. کچھ دن بعد میں لاہور گیا اور مغرب کے بعد ایک دوست کے ہمراہ گڑھی شاہو حضرت کے پاس حاضری دی جس میں حافظ صاحب کے لیے امام الہند ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ کی زیرِ نگرانی شائع ہونے والے اخبار ” پیام” کی مکمل فائل لے کر گیا جس سے آپ بہت خوش ہوئے. پھر میں نے جب بتایا کہ میرے پاس ” لسان الصدق” بھی موجود ہے تو نہایت حیرت سے گویا ہوئے کہ آپ یہ سب کہاں سے حاصل کر لیتے ہیں.؟؟؟ یاد رہے ” لسان الصدق” کا یہی ایک نسخہ مؤرخِ برِصغیر مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کے کتب خانے میں بھی موجود ہے.
بہرحال یہ بڑی خوشگوار ملاقات رہی. سچ تو یہ ہے :

آج ناگاہ ہم کسی سے ملے

بعد مدت کے زندگی سے ملے

اس ملاقات میں حافظ صاحب نے مجھ سے کئی ایک ذاتی سوالات کیے اور میرے خاندان اور مصروفیات کے متعلق پوچھ گچھ کی. اور ایک بار پھر میرا شکریہ ادا کیا کہ میں نے توجہ سے تفسیر پڑھی…بڑے لوگ بڑی باتیں :

آئے عشاق گئے وعدہء فردا لے کر
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر

ان دنوں میں تین اداروں میں تین مختلف ذمہ داریاں نبھا رہا تھا اور میرا وظیفہ کل ملا کر پچیس سو روپے بنتا تھا. ڈاکٹر زید حارث صاحب کے علاوہ حافظ صاحب رحمہ اللہ دوسرے شخص تھے جنہوں نے مجھے کہا کہ آپ کے لیے لاہور میں کام کا بندوبست ہو سکتا ہے مگر :

شکم کی آگ میں جلنے نہ دیا عزت کو
کسی نے پوچھ بھی لیا تو خلال کرنے لگے
کہ مصداق نہایت ادب و احترام سے گزارش کی کہ سب اچھا ہے.

دوران ملاقات ایک صاحب حافظ صاحب سے ایک تحریری فتویٰ بھی لے کر گئے. اگر حافظ صاحب مستقل فتویٰ نویس تھے تو ان کے قابلِ قدر صاحبزادگان کا یہ فرض بنتا ہے کہ اس کی تبويب و ترتيب کرکے ان کی طباعت کی طرف توجہ فرمائیں.
اسی طرح اس نشست میں حافظ صاحب سے میں نے گزارش کی کہ ” تفسیر احسن البیان ” نہایت مختصر ہے. کیا ہی اچھا ہو اگر تفسیر ابن کثیر کی طرح طویل تفسیر لکھی جائے. جس پر حافظ صاحب نے فرمایا کہ ” دار السلام ” کے کاموں سے ہی فرصت نہیں ملتی نیز بتایا کہ اس پر کام جاری ہے پھر تین جلدیں بھی دکھائیں.
آپ کے انتقال کے بعد میں نے حافظ عثمان یوسف صاحب سے اس کے متعلق بات کی تو انہوں نے بتایا کہ حافظ صاحب کی بڑی تڑپ تھی کہ کسی طرح تفصیلی تفسیر مکمل کر لی جائے، آپ سورۃ اسراء تک پہنچے تھے کہ اچانک بلاوا آ گیا. ہائے :

رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی

تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے اور انہیں انبیاء و صدیقین اور شہداء کا ساتھ نصیب فرمائے.

ڈھونڈا تھا آسماں نے جنہیں خاک چھان کر(1)

عبدالعزیز آزاد