گزشتہ دو برس میں ہم سے بہت سے ایسے نایاب بلکہ کمیاب لوگ چھن گئے :

ع : ڈھونڈا تھا آسماں نے جنہیں خاک چھان کر

فلک برسوں پھرا کرتا ہے پھر خاک کے پردے سے ایسے انسان نمودار ہوتے ہیں جن پر انسانیت فخر کرتی ہے. ایسے ہی ایک قابلِ قدر شخصیت ہمارے ممدوح جناب حافظ صلاح الدین یوسف صاحب کراچوی تھے جنہیں مرحوم کہتے اور لکھتے ہوئے دل پھٹتا اور کلیجہ منہ کو آتا ہے. آپ کی قلمی وسعتوں کا دائرہ قریباً ڈیڑھ صد چھوٹی اور بڑی کتب پر محیط ہے جن میں آپ نے متنوع موضوعات پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے اہلِ اسلام سے داد و تحسین سمیٹی ہے.
شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کے متعلق سید سليمان ندوی رحمہ اللہ نے ” یادِ رفتگاں” میں لکھا ہے کہ اگر رات کو اسلام میں کوئی فتنہ اٹھے تو شیخ الاسلام صبح سے پہلے پہلے اس کا تدارک کر دیں گے. میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ دور میں اگر ایسی کوئی پاکباز ہستی تھی تو وہ حضرت حافظ صاحب کی ذاتِ گرامی تھی.
آہ فآہ ثم آہ :

جو بادہ کش تھے پرانے، وہ اٹھتے جاتے ہيں

کہيں سے آب بقائے دوام لے ساقي!

مدینہ طیبہ میں پہلا سال تھا جب حافظ عثمان یوسف بن صلاح الدین یوسف صاحب سے ” خلافت و ملوکیت کی تاریخی و شرعی حیثیت ” لے کر نہایت توجہ سے بالاستیعاب پڑھی جس سے حضرت حافظ صاحب کی علمی و ادبی عظمت کا نقش دل پرجم گیا پھراس کے بعد کوشش رہی کہ ادبی چاشنی کے لیے آپ کی ہر تحریر پڑھی جائے.
عجز و انکساری اور تواضع کے پیکر حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ سے مجھے زیادہ نیاز مندی کا شرف حاصل نہیں رہا.
جہاں تک میرا حافظہ کام کرتا ہے اس فقیر کو حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ سے مختلف اوقات میں چار بار مختصراً اور ایک بار تفصیلی ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے.
پہلی بار 2003 ء موسمِ گرما کے ایام تھے جب جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں سعودی عرب کے جامعات کے طلبہ نے ” الندوۃ العالمية للشباب الإسلامي” نامی ایک تنظیم کے تحت ایک علمی دورہ کروایا تھا جس میں کئی ایک بزرگ علماء تشریف لائے تھے ، اس پروگرام میں پہلی مرتبہ حافظ صاحب کی زیارت ہوئی واللہ اعلم حافظ صاحب کا موضوع کیا تھا مگر اتنا یاد ہے کہ آنجناب نے طلبہ کو اپنے مالی معاملات درست کرنے کی نصیحت فرماتے ہوئے حاجی صاحبان کے متعلق دو لطیفے سنائے تھے جس سے محفل کشتِ زعفران بن گئی اور ہر طرف قہقہوں کا طوفان ابل پڑا.
یہ تقریر ظہر سے کچھ دیر پہلے ہوئی، ظہر کی نماز جامعہ سلفیہ کی مسجد میں ادا کی تو کلیہ دار القرآن والحديث کے طلبہ کہنے لگے : چل کر حافظ صاحب سے دعا کی درخواست کرتے ہیں. میں نے ازراہِ مذاق کہا کوئی فائدہ نہیں، جب ہم حافظ صاحب سے دعا کی درخواست کریں گے تو آپ کہیں گے ( وَلَا يَنفَعُكُمْ نُصْحِي إِنْ أَرَدتُّ أَنْ أَنصَحَ لَكُمْ إِن كَانَ اللَّهُ يُرِيدُ أَن يُغْوِيَكُمْ ۚ).
لڑکے ہنسنے کی بجائے پیچھے کی طرف اشارے کرنے لگ گئے، میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو میرے پیچھے حافظ صاحب رحمہ اللہ بیٹھے مسکرا رہے تھے…اور میں شرم سے پانی پانی.

دوسری ملاقات بھی محض سلام دعا تک ہی محدود رہی…یہ سن دو ہزار پانچ کے اواخر یا سن دو ہزار چھ کے اوائل کی بات ہے جب یہ فقیر لاہور میں افتاء کا تخصص کر رہا تھا یہاں ایک عجیب وغریب شخصیت مولانا اختر حسین صاحب سے شناسائی ہوئی جو اپنی وضع قطع میں نہایت سادہ اور باتوں میں ابو زيد سروجی کے مشابہ تھے، ہر بات کو کسی نہ کسی طرح طنز و مزاح کا روپ دینا کوئی آپ سے سیکھے. عمروں کے تفاوت کے باوجود میری ان سے خاصی یاد اللہ ہو گئی جس کی بدولت صبح کی سیر اور شام کی دشت پیمائی کے لیے اکثر اوقات مجھے ان کی رفاقت میسر آنے لگی. ایک روز مجھے چوبرجی چوک سے پیدل ہی ایک انجانی سمت میں یہ کہہ کر لے گئے کہ جہاں ہم جائیں گے وہاں کھانا بہت اچھا ہوگا. مقررہ مقام پر پہنچے تو دیکھا کہ علماء کرام کا ٹھٹھ کا ٹھٹھ لگا ہوا ہے اور پاکستان بھر سے علماء تشریف فرما ہیں. میں بھی جہاں جگہ ملی پاؤں پسار کے بیٹھ گیا. کچھ حواس بحال ہوئے تو پتا چلا کہ یہ تقریبِ سعید مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کی یاد میں منعقد کی گئی ہے اور اسی تقریب میں ” بیاد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی” کی رونمائی ہوگی. اس پروگرام میں جہاں دیگر اسلاف کی زیارت نصیب ہوئی، علیم ناصری کی زبانی ان کا کلام سننے کا شرف حاصل ہوا۔ وہیں صلاح الدین یوسف صاحب رحمہ اللہ کا دیدار بھی ہوا. حافظ صاحب اور دیگر حضرات نے قریباً وہی مقالہ جات پڑھے جو اس کتاب کا حصّہ ہیں. جو بات بتانے لائق ہے وہ حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ کا ایک واقعہ ہے . یہ آمر پرویز مشرف کا دور تھا اور میاں عامر روزنامہ دنیا والے لاہور کے ناظم تھے. اہل حدیث ہونے کی نسبت سے وہ بھی مدعو تھے مگر تھے تو دنیا دار جاتی دفعہ تصاویر کی حلت پر غور و فکر کرنے کی پھلجھڑی چھوڑ گئے. ان کے جاتے ہی محفل میں بھانت بھانت کی بولیاں بولی جانے لگیں اور کئی احباب احمد شاکر حفظہ اللہ پر برس پڑے کہ اس کو بلایا ہی کیوں؟ مجلس میں شوروغل بڑھتا دیکھ کر حافظ صاحب اونچی آواز میں کہنے لگے : آپ لوگ تو یوں بحث کر رہے ہیں جیسے کسی بہت بڑے عالم دین نے یہ بات کی ہے…وہ دنیا دار ہے ہم لوگ خوامخواہ اس کی وجہ سے اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں. آپ کا یہ کہنا تھا کہ شور تھم گیا اور مجلس کی رونق لوٹ آئی.
حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ کے متعلق سنا ہے کہ وہ حق گو اور بیباک انسان تھے اور جو بات درست ہوتی تھی لگی لپٹی بغیر کہہ دیتے تھے. میرے خیال میں آپ کی کتب اس بات پر زندہ شاہد ہیں. آپ نے ایسے موضوعات پر بھی زورِ قلم صرف کیا ہے جن پر لکھتے وقت احبابِ قبہ و جبہ کبھی مصلحتوں کا شکار ہوتے ہیں تو کبھی عوام کا جاہلانہ رویہ ان کی راہ میں سدِ سکندری کا کام دیتا ہے. بس :
اک شخص کیا گیا بھرا شہر دفعتاً
بے حو صلہ و بدل و کم کوش ہو گیا

اِک شخص ٹوکتا تھا بہت اہلِ شہر کو
مثردہ کہ آج رات وہ خاموش ہو گیا

تیسری سرسری ملاقات لاہور میں ان کے گھر ہوئی. یہ سن دو ہزار چھ کی بات ہے. مدینہ یونیورسٹی میں چھٹیاں تھیں اور لاہور میں ایک دوست کی شادی، ميں وہاں پہنچا تو حافظ صاحب کے بڑے صاحبزادے حافظ عثمان یوسف صاحب اور مولانا ابراهيم کیلانی صاحب موجود تھے، تقریبِ نکاح کے بعد حافظ عثمان یوسف مجھے زبردستی اپنے گھر لے گئے.
صبح فجر کی نماز کے لیے بیدار ہوئے تو حافظ عثمان یوسف مجھے کہنے لگے آپ نے نماز کے بعد مختصر درس دینا ہے میں نے حافظ صاحب رحمہ اللہ کی موجودگی کا عذر کیا تو کہنے لگے ابو یہاں نماز نہیں پڑھتے، میں نے حدیث ابن عباس سے مختصر درس ذہن میں تیار کیا، چونکہ رات بھر گپیں ہانکتے رہے تھے اس لیے نیند کے غلبے کے باعث آنکھیں نہیں کھل رہیں تھیں، نماز کے فوری بعد میں نے قاری صاحب سے مائیک پکڑا اور نیند کے عالم میں ہی یہ کلمات دہرا دیے :((يا غلام، إني أعلمك كلماتٍ: احفظ الله يحفظك، احفظ الله تجده تجاهك، إذا سألتَ فاسأل الله، وإذا استعنت فاستعن بالله، واعلم أن الأمة لو اجتمعت على أن ينفعـوك بشيءٍ لم ينفعوك إلا بشيءٍ قد كتبه الله لك، وإن اجتمعوا على أن يضروك بشيءٍ لم يضروك إلا بشيءٍ قد كتبه الله عليك، رُفعت الأقلام، وجفَّت الصحف)).
اچانک نگاہ اٹھا کر دیکھا تو حضرت حافظ صاحب
رحمہ اللہ میرے سامنے تشریف فرما تھے بس پھر :

وہ آئے بزم میں اتنا تو فکرؔ نے دیکھا

پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

عبدالعزیز آزاد