ویلنٹائن ڈے گزر گیا، مجھے نہیں معلوم اس دفعہ کتنوں کے پھول قبول ہوئے اور کتنوں کے چہرے دھول ہوئے۔ مجھے نہیں معلوم یہ پھول ہمارے جواں پھولوں پہ کتنی دھول چڑھا گئے یا ہٹا گئے، اتنا البتہ مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ ہم کھوکھلے ہو چکے ہیں، یہی نہیں ہم نے اپنے کھوکھلے پن کو قبول بھی کر لیا ہے اور ہم اس پر راضی بھی ہو گئے ہیں۔ ہم نے جینے کا ایک نیا ڈھنگ سیکھ لیا ہے۔ جس کا مشہور سلوگن ہے، جیو اور جینے دو، اگرچہ اپنی ایک جہت میں یہ سلوگن درست ہے، کسی کو کسی کی زندگی اجیرن کر دینے کا کوئی حق نہیں، اس کو مگر ہم نے دوسری طرح لے لیا ہے، یعنی اپنی خرافات اپنے تک رکھنے کے بجائے بیچ چوراہے لا کے رکھیں گے، اپنے کپڑےچوراہے میں دھوئیں گے اور چاہیں گے، لوگ نظریں چرا لیں،جسے نہیں دیکھنا وہ آنکھیں بند کر لے،

یہ میراتھن کراتے وقت مشرف مرحوم نے کہا تھا۔ اس کا لیکن بہت نقصان ہوا، انسان تنہا اور بے بس ہوگیا، باہر سے وہ چمک رہا ہے، مگر اس کے اندر اندھیر مچا ہے، اولاد کے لیے اپنی جوانی کو دیمک لگوا لینے والا باپ بڑھاپے میں اولاد کے ہاں کچرے کا ڈبہ ہو جاتا ہے۔ صرف ایک اضافی بوجھ! اب اولاد کی اپنی زندگی ہے، باپ کون ہوتا ہے، پوچھنے والا؟ جب باپ نہیں پوچھ سکتا تو باقی رشتوں یا سماج کی اوقات ہی کیا ہے۔ چونکہ مسلمانوں کے گھر پیدا ہو گئے، اس لیے اسلام سیکھنے کی ہمیں ضرورت ہی کیا ہے؟ جب سیکھے بغیر ماشاءاللہ مسلمان ہیں تو کون پاگل عمل کی کلفت اٹھائے؟ رہی تہذیب تو وہ اپنی کوئی ہے نہیں، کھوکھلی نمائش کی بے ڈھنگی تقلید سکہ رائج الوقت ہے۔ اس سب کے نتیجے میں حالت یہ ہے کہ بے روح اور بے شعور نسلیں بر آمد ہو رہی ہیں۔

یہ سب ہمارے سماج کے ڈوبنے کو بہت ہے، قرآن میں مذکور بنی اسرائیل کا قصہ یاد آتا ہے، جس میں ناصرف ممنوعہ دن مچھلیاں پکڑنے والے پکڑ میں آئے بلکہ ‘جیو اور جینے دو’ نظریہ کے برائی کو نظر انداز کر دینے والے حاملین بھی تباہ ہوئے، صرف روکنے والے بچے۔ کسی دن غور کیجیے،آپ کے گھر ،خاندان، تعلیمی ادارے اور معاشرے میں اب روکنے والے کتنے بچے ہیں؟ ان کے روکنے میں کتنی بے ساختگی اور قوت ہے؟ جہاں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر رائج نہ رہے، اس سماج کا کیا بنتا ہے، اس سے تاریخ بھری پڑی ہے۔

رسول کریم نے اس کی مثال دو منزلہ بحری جہاز سے دی، جس کے اوپر والے حصے میں پانی ہے، نچلوں نے سوچا، اوپر کیوں جائیں، جہاز میں سوراخ کرکے یہیں سے پانی بھر لیتے ہیں، اب اگر وہ سوراخ کر لیتے ہیں اور جہاز پانی کے اندر آجاتا یے، تو وہ اکیلے نہیں ڈوبیں گے، اوپر والوں کو بھی لے ڈوبیں گے۔ نجات کی صورت صرف انھیں روکنے میں ہے۔
اک ذرا پہلے اس سماج میں روکنے والے بہت تھے، گھر کے بڑوں کی چھوٹوں کی نگاہ میں عزت اور حیا تو تھی ہی، محلے کا ہر بڑا بھی اپنا مقام رکھتا تھا۔ آج استاد اپنے شاگرد اور والدین اپنی اولاد کو روکنے سے ڈرتے ہیں۔ یہ ہے آج ہمارا سماج! اللہ ہم پر رحم فرمائے۔

 تحریر: یوسف سراج