سورۃ سبا، آیت نمبر 49 میں اللہ فرماتا ہے کہ،
“آپ کہئے کہ حق آگیا اور باطل نے تو نہ پہلی بار کچھ پیدا کیا تھا نہ دوبارہ کچھ کرسکے گا”
یعنی باطل کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ نہ پہلے کبھی تھی، نہ آج ہے، نہ آئندہ کبھی ہو گی۔ باطل کے پاس صرف اعتراضات ہیں۔ باطل نے اخلاقیات کے باب میں بھی انسانیت کیلئے کوئی نیا تصور نہیں دیا۔ اسکے ہاں جو بھی اچھی باتیں ہیں وہ کسی نہ کسی صورت میں وحی سے مستعار ہیں اور جو “بظاہر” اچھی باتیں وحی کے خلاف ہیں، وہ درحقیقت مکروہ ترین امور ہیں۔ انہیں اچھا باور کرانے کیلئے باطل کو بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ اسے اس کھیل میں کامیابی کیلئے پورا میدان ہی تبدیل کرنا پڑتا ہے، حتیٰ کہ گیم کے اصول بھی تبدیل کرنا پڑتے ہیں، تب جا کر کہیں وہ اس قابل ہوتا ہے کہ اس کی بات میں کچھ وزن “محسوس” ہو۔۔۔
مثلاً اسے “آبجیکٹو رئیلٹی” کا انکار کر کے یہ شوشہ چھوڑنا پڑتا ہے کہ ہر کسی کی اپنی “حقیقت” ہے اور یہ کہ کسی آفاقی حقیقت کا کوئی وجود نہیں۔ مثلاً یہ جو روحانی تجربات ہیں یہ محض ذاتی “محسوسات” ہوتے ہیں اور بیشمار انسانوں کے محسوسات کو کسی واحد و یکتا مالک کائنات سے جوڑنا درست نہیں۔ یوں وہ معجزات اور کرامات کا انکار کرنے کیلئے سائینس کا سہارا لے کر بالکل ویسا ہی رد کرتا ہے جیسے پرانے لوگ اسے جادو قرار دے کر اس فنامنن کا انکار کرتے کہ یہ تو بس ہمیں محسوس ہو رہا ہے کہ کوئی خرق عادت کام ہو گا، “حقیقتاً” ایسا کچھ نہیں ۔۔۔
پھر باطل کو “آبجیکٹو موریلٹی” کا انکار کرنا پڑتا ہے کہ آفاقی اخلاقیات کچھ نہیں۔ اسکا وحی سے کچھ لینا دینا نہیں۔ یہاں بھی باطل کو ایک خالق و مالک کا انکار کر کے اس مسئلے کو “انسانی آزادی” کے سیکولر پیراڈائم میں لانا پڑتا ہے تاکہ اچھائی اور برائی کا معیار محض یہ ہو کہ کسی پر زبردستی نہ ہو اور کسی کو براہ راست کوئی ذہنی یا جسمانی نقصان نہ پہنچے اور بس۔ مثلاً ہم جنس پرستی اور زنا کو محض اس بنیاد پر غلط نہیں کہا جا سکتا کہ کسی رب العالمین نے اسے غلط کہا ہے۔ جب تک انسان باہمی رضامندی سے یہ کام کرتے رہیں گے یہ اخلاقی لحاظ سے درست ہی قرار پائے گا ۔۔۔۔ یہ بالکل ویسی ہی بات ہے جو ماضی کی باطل پرست قوم، قوم لوط نے کی، کہ یہ لوط بڑا پاکباز بنتا ہے اور چاہتا ہے کہ ہم بھی پاکبازی کے اسی معیار کو قبول کر لیں۔
اور یہی وجہ ہے کہ اہل باطل کے ہاں نکاح کے وقت یہ دیکھنا معیوب سمجھا جاتا ہے کہ آپکا ہونے والا جیون ساتھی کہیں زانی یا مشرک تو نہیں، جبکہ اسلامی اخلاقیات یعنی “آبجیکٹو موریلٹی” میں یہ واجب ہے۔۔۔۔
پھر ایسی ہی بات سود خوروں نے کی کہ ہم اسے اخلاقی برائی ماننے کو تیار نہیں۔ ہمارے نزدیک تو اس میں اور تجارتی منافع میں کوئی فرق نہیں۔ اور یہی بات آج کا کیپٹلسٹ بھی کرتا ہے۔
پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ باطل کو “آبجیکٹو ٹروتھ” کا انکار کرنا پڑتا ہے کہ کوئی آفاقی سچائی نہیں۔ یہاں بھی انہیں خالق و مالک کا انکار کر کے “پلورل ازم” کا فلسفہ تخلیق کرنا پڑتا ہے کہ ہر طبقے کی اپنی سچائی ہے اور اس طبقے کیلئے وہی درست ہے۔ اور یہ کہ کسی کو یہ حق نہیں کہ اپنی سچائی کو برتر ثابت کر کے، اسکی تبلیغ کر کے، دوسرے طبقات کو “کنورٹ” کر کے اپنے طبقے کا حصہ بنائے۔۔۔ یوں آج کا باطل ایک طرف الحاد اور دوسری طرف وحدت ادیان کو فروغ دے کر پچ کی دونوں طرف سے کھیلنا چاہتا ہے۔
یہ بالکل وہی رویہ ہے جیسے ماضی کے باطل پرست انبیاء کو کہتے کہ تو اپنی عبادت سے غرض رکھ، ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دے۔ یہ تیری نماز کیسی ہے جو ہمارے بتوں کو غلط ٹھہراتی ہے۔ اور یہ کہ ہم تو اسے ہی “سچائی” مانیں گے جو ہمیں ہمارے آباؤ اجداد سے ملا۔ یا یوں کر کہ ایک دن ہم تیرے خدائے واحد کی عبادت کر لیتے ہیں اور ایک دن تو ہمارے بتوں کی پوجا کر لیا کر(وحدت ادیان)
الغرض اس قسم کی بہت سی مثالیں ہیں جن میں ماضی اور حال میں باطل کے طریقہ واردات میں آپکو کوئی فرق نہیں ملے گا۔ نہ پہلے اسکے پاس کوئی دلیل تھی، نہ آج ہے۔
بس بات یہ ہے کہ ہمیں حق کو باطل کے سر پر مار کر اسکا بھڑکس نکالنے کا طریقہ آنا چاہیے۔۔۔!!!

(ڈاکٹر رضوان اسد خان)