آپ میں سے اکثر نے یہ جملہ سنا ہو گا کہ ہم بحیثیت ملک وقوم ترقی کر رہے ہیں اور اکثریت یہ بھی کہتی ہے کہ دیکھیں جی مولوی پتا نہیں کس دور کی باتیں کرتے ہیں ان کو بس نماز روزہ اور طہارت کی ہی باتیں آتی ہیں جبکہ دنیا چاند پر پہنچ چکی ہے ۔
میں نے اس پر بہت ریسرچ کی اور بسیار کوشش کے بعد جس نتیجہ پر پہنچا ہوں، اس ترقی کی بس ایک جھلک آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں تاکہ آپ سب بھی مستفید ہو سکیں۔

حالیہ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں یومیہ بنیادوں پر 1200 نوجوان لڑکے لڑکیاں سگریٹ نوشی کرتے ہیں، اگر اس فگر کو سال کے دنوں سے ضرب دیں تو تقریباً 423000 لڑکے لڑکیاں سگریٹ نوشی کر رہے ہیں
اب آپ کہیں گے جی اس میں حیرانی کی بات کیا ہے
تو میں بس بتانا یہ چاہتا ہوں کہ اب تو سگریٹ کی ڈبی پر لکھا ہوتا ہے “منہ کا کینسر ” یعنی اس جملہ کو دیکھنے اور پڑھنے کے باوجود یہ 1200 کے قریب ترقی یافتہ قوم یومیہ بنیادوں پر سگریٹ نوشی کرتی ہے،

پھر سائنس سائنس کی رٹ لگانے والوں کے ہی بڑوں نے یہ تحقیق جاری کی ہے کہ انسان کو لگنے والی جدید قسم کی بیماریاں اور اس بیماریوں کے سبب سرعت سے ہونے والی اموات کے اسباب میں سے بنیادی سبب یہ نشہ آوار اشیاء ہیں جس میں سگریٹ نوشی بھی ہے جسے آج کل بطور فیشن استعمال کیا جاتا ہے ۔

پوچھنا یہ ہے کہ اتنا پڑھ لکھ کر اور چاند  پر پہنچ جانے کے بعد بھی یومیہ بنیادوں پر ایسی ہی ترقی ہونی چاہیے تھی ؟
اگر آپ اسے ترقی اور ایسے افراد پر متحمل سوسائٹی کو ماڈرنزم سمجھتے ہیں تو پھر یہ ترقی اور چاند پر پہنچنا آپکو ہی مبارک ہو۔۔۔
جس ترقی میں حفظ صحت ہے نہ حفظ عقل نہ ہی حفظ عزت۔۔۔۔

جبکہ ہمارے دین اور آخری نبی جناب محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال قبل حفظ صحت وعقل کے متعلق ایک انمول فرمان جاری کیا تھا کہ
نشہ آور اشیاء حرام ہیں چاہے اس میں نشہ کی مقدار کم ہو یا زیادہ ۔

ہمیں بحیثیت علماء و مسلمان ایسی ترقی اور خوشحالی ہی چاہیے جو دینی اقدار کے عین مطابق ہو۔

 کامران الہیٰ ظہیر