قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْاؕ-هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ
عن عبداللہ بن عمرؓ عن النبی ﷺ قال : إن اللّٰه لا یعذب بدمع العین ولا بحزن القلب ولکن یعذب بهذا وأشار إلی لسانه۔
’’بے شک اللہ تعالیٰ آنکھ کے رونے اور دل کی پریشانی پر عذاب نہیں دے گا لیکن عذاب تو اس کی وجہ سے دیا جائے گا، اور آپ نے اپنی زبان کی طرف اشارہ فرمایا۔(بخاری: 104مسلم:924)
01) دین مکمل ہو چکا ہے کسی کمی و بیشی کی گنجائش نہیں ہے۔ اسلام کسی بھی جائز ضرورت کی تکمیل میں کوئی قدغن نہیں لگاتا لیکن انسان کی حاجات اور ضروریات کو کچھ اصول و ضوابط سے مشروط کر دیا۔ مال کی طلب ایک فطری طلب ہے لیکن حلال اور مشکوک نہ ہونے کی شرط لگا دیا۔ جسم کی طلب ایک فطری طلب ہے لیکن نکاح کی شرط لگا دی۔۔۔۔۔۔۔
اسی طرح خوشی اور غمی بھی دو فطری رویے ہیں جن کا سامنا ہر انسان کو اپنی زندگی میں بار بار کرنا پڑتا ہے۔
02) خوشی: جائز خوشی کو جائز طریقے سے منانے کی اجازت دی گئی ہے۔ اگر خوشی کا تعلق عبادت سے ہے تو مسلمان کیسے کیوں کہاں کب کتنی ہر بات میں اسلام کا پابند ہے وہ اپنی مرضی سے کسی خوشی کو بطور عبادت نہیں منا سکتا۔ عید الفطر اور عید الأضحى کے بعد ہم اپنی مرضی سے کسی تیسری عید کا اضافہ نہیں کر سکتے۔ اگر خوشی کا تعلق معاملات اور عادات سے ہو اس میں بھی شتر بے مہار آزادی نہیں دی گئی بلکہ یہاں بھی کچھ اصول و ضوابط کا پابند کر دیا گیا جیسا کہ خوشی منانے کے طریقوں کو شریعت پر پرکھ لیا جائے۔
خوشی منانے کے حوالے سے چراغاں کرنا، گانے بجانے، موسیقی، ڈانس، ویڈیوز بنوانا وغیرہ سب حرام ہیں۔یعنی خوشی کو منانے کی اجازت ہے لیکن کچھ شرطوں کے ساتھ جس میں کچھ شرطیں عام اور کچھ خاص ہوں گی۔ مثال کے طور پر خوشی منانے میں کفار کی مشابہت نہیں ہونا چاہیے یہ شرط عام ہے۔ اور شادی کے موقع پر چراغاں نہ کرنا شادی کے ساتھ یا اس جیسی کسی بھی خوشی کے ساتھ خاص ہے۔
03) غمی: غم منانے کی قطعا اجازت نہیں ہے بلکہ غم پر صبر و تحمل کا حکم دیا گیا ہے۔ لیکن چونکہ غم ایک فطری رویہ ہے لہذا ایک مخصوص حد تک اجازت ہے جیسا کہ کسی کی وفات پر آنسو بہانا یا بغیر آواز رونا جیسا کہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین سے ثابت ہے۔
غم منانے سے روکا گیا جیسا کہ
ولا تحزن، ولا تحزنوا، فلا خوف علہیم ولا ھم یحزنون، وغیرھا من النصوص۔
بلکہ غم سے تو اللہ کی پناہ طلب کی گئی ہے
اللھم انی اعوذ بک من الھم والحزن
بلکہ غم سے نجات ملنے پر اللہ کا شکر ادا کیا گیا ہے.
الحمد للہ الذی اذھب عنا الحزن
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی تین بیٹیوں اور چار بیٹوں کی وفات پر رد عمل اسوہ حسنہ ہے۔ سیدہ ام سلیم بنت ملحان رضی اللہ عنہا اور سیدہ خنساء رضی اللہ عنہا کا رد عمل اسوہ صحابیات ہے۔
معلوم ہوا فوتگی، مصیبت یا بیماری پر رونا جائز ہے۔ایسے میں دل کا افسردہ، پریشان اور غمگین ہو جانا ایک فطری امر ہے جس سے شریعت منع نہیں کرتی بلکہ یہ رحمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے دلوں میں پیدا فرمائی ہے۔البتہ نوحہ کرنا، بین ڈالنا، آہ وزاری کرنا، اپنے آپ کو مارنا، کپڑے پھاڑنا، اللہ تعالیٰ یا فرشتوں سے شکوے شکایت اور نامناسب باتیں کہناممنوع اور مذموم ہیں۔اسی لئے آپ ﷺ نے فرمایا:
(ولا نقول إلا ما یرضی ربنا)
’’ہم صرف وہی بات کہیں گے جس سے ہمارا رب راضی ہے۔‘‘ امام نووی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں۔ شیطان کے طریقوں سے بچو۔ آنکھ اور دل کا عمل اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور رحمت ہے۔جبکہ ہاتھ اور زبان کے افعال شیطان کی طرف سے ہیں۔
اہل سنت و جماعت شہادتوں پر ماتم نہیں کیا کرتے بلکہ صبر کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں۔
انا للہ وانا الیہ راجعون اللھم اجرنا فی مصیبتنا و اخلف لینا خیرا منھا۔
04) اھل ایمان کی خوشی کا تعلق اللہ تعالی کے فضل و کرم سے ہوتا ہے جیسا کہ مذکورہ بالا آیت میں ہے اور اسی طرح
یومئذ یفرح المومنون بنصر اللہ۔۔۔۔۔ وغیرھا من الایات
توحید کی نعمت کا ملنا، خیر کی توفیق ملنا، اور بے شمار نعمتوں کے حصول پر مومن شکر ادا کرتا ہے اور اس نعمت کا حق ادا کرتا ہے۔
جبکہ اس کے برخلاف دنیا دار کی خوشی کا تعلق دنیاوی مفادات کے حصول سے ہوتا ہے مال و دولت کا حصول، اقتدار کا حصول، وغیرھا۔
خوشی و غمی کے موقع پر اپنے آپ کو شریعت کے دائرے میں رکھنے کے لیے استغفار ، رب اشرح لی صدری، معوذتین مسنون طریقے سے اختیار کریں۔
نصوص اور واقعات سیرت کا اضافہ آپ خود اپنی مرضی سے کر لیں.
فیض الابرار صدیقی