اگرچہ میں نے شیخ مسعود عالم حفظہ اللہ کی استقبال رمضان کی بابت درس کی ویڈیو شیئر کی ہے ، لیکن اس درس کے بعض افادات نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بعض احباب ویڈیو کی بنسبت تحریر پڑھنا پسند کرتے ہیں۔(عبدالرحمن مدنی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کل 50 نکات ہیں ۔ کوشش یہ بھی کی ہے کہ الفاظ بھی شیخ مکرم کے بعینہ نقل کروں ۔
(1) زندگی نعمت باری تعالی ہے اس میں صحت و سلامتی اللہ کے انعامات و احسانات ہیں۔
(2) انسان زندگی میں میسر مواقع سے اس طرح فائدہ اٹھائے کہ دنیا جہاں کی فوز و فلاح حاصل ہو۔
(3) ہمیں شعبان کی مہلت ملی ، ہم رمضان کی مہلت اللہ سے طلب کرتے ہیں ،اس کے مواقع ملنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کی دعا کرتے ہیں۔
(4) مسلمان ماہ شعبان میں کمربستہ ہوجاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کا استقبال کرتے ہیں ماہ شعبان میں اپنے معمولات میں تبدیلی لا کر۔
(5) نبی کریم کثرت سے شعبان میں روزے رکھا کرتے تھے ۔ اماں عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جس مہینے میں کثرت سے روزے رکھنا محبوب تھے وہ یہ شعبان کا مہینہ تھا۔ جبکہ اماں ام سلمہ فرماتی ہیں کہ گویا آپ سارا مہینہ ہی روزے رکھتے تھے۔
(6) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مے فرمایا کہ اس مہینے اعمال اللہ کے ہاں پیش کیے جاتے ہیں اور میں یہ چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال پیش ہوں تو میں روزہ کی حالت میں ہوں۔
(7) فقط استقبال رمضان کی نیت سے روزے رکھنا منع ہے۔
( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے۔
(9) شعبان کی بابت ایک صحیح روایت امام نسائی رحمہ اللہ نے بیان کی: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی اپنی مخلوق کو نظر رحمت سے دیکھتے ہیں ، ان پر مہربان ہوتے ہیں(اور اس مہربانی کا مظہر یہ ہوتا ہے کہ) اللہ تعالی ہر صاحب ایمان کو بخش دیتے ہیں سوائے 2 قسم کے لوگوں کو ، پہلا مشرک اور دوسرا مشاحن کہ جو نفرت ، حسد ، کینہ سے بھرا ہو۔
(10) نفل کا فلسفہ ہے کہ یہ بندے کو فرض کے لیے تیار کرتی ہیں ، مثلا سنن انسان کو فرض نماز کے لیے مستعد کرتی ہیں ، یہی معاملہ شعبان کے نفلی روزوں کا ہے کہ یہ انسان کو رمضان کے لیے تیار کرتے ہیں۔
(11) روزہ دار اللہ کو بڑا محبوب ہے۔
(12) جو عمل انسان کرتا ہے اس میں سے کچھ انسان کو بھی ملتا ہے ، مثلا : کسی پر مال خرچ کیا ، وہ خوش ہوتا ہے اس سے محبت کرتا ہے اور اس کے لیے دعا کرتا ہے ۔ نماز پڑھی جسمانی فائدہ بھی ساتھ ہوا (حدیث: کل عمل ابن آدم لہ الا الصیام فانہ لی وانا اجزی بہ والصیام جنة ) ۔۔ جبکہ روزہ ایسا عمل ہے اس میں بندہ جو بھی کرتا ہے فقط اللہ کے لیے کرتا ہے (حدیث: یدع شہوتہ و طعامہ من اجلی)
(13) ہر نیک عمل کا میزان اقر پیمانہ جزا ہے ، ایک نیکی کی ، اجر 10 سے 700 تک ۔۔۔سوائے روزے کے (الصوم لی وانا اجزی بہ)
(14) ایام بیض (13 ،14،15 تاریخ ) کے روزے رکھا کریں ۔ یہ ایسے ہے گویا پورے مہینے کے روزے آپ نے رکھ لیے کہ کم سے کم اجر بھی نیکی کا 10 ملتا ہے تو 3 روزے مطلب 30 روزے ہوئے۔
(15) انسان کو چاہیئے کہ رات کا کچھ حصہ عبادت کے لیے خاص کرے۔ اللہ اسقدر مہربان کہ بندہ اگر عشاء اور فجر کی نماز باقاعدگی سے پڑھے تو اللہ ساری رات کی عبادت لکھ دیتے ہیں۔
(16) مسند احمد کی روایت ہے کہ آسمانی کتب رمضان مین نازل کی گئیں۔
(17) رمضان داخل ہوتا ہے تو اللہ کی رحمت کھول دی جاتی ہے۔ جنت کے تمام دروازے جنت کے متلاشیان کے لیے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور سرکش شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے۔
(18) حدیث: وللہ عتقاء من النار وذلک فی کل لیلة . اللہ رمضان کی ہر رات بندوں کو جہنم سے آزاد کررہے ہوتے ہیں۔
(19) روزے فرض کیے گئے تاکہ لعلکم تتقون ، اللہ تقوی سے متصف کرنا چاہتے ہیں کہ یہ یہ دنیا و آخرت کی فوز و فلاح ہے۔
(20) نماز ، زکوة ، روزہ اور حج یہ عبادات کے ارکان ہیں عبادات کا مجموعہ ہیں۔ یعنی مالی عبادات میں زکوةسب سے افضل ، بدنی عبادات میں نماز اور روزہ ، جبکہ حج تو تمام عبادات کا نقطہ عروج ہے کہ اس میں مال بھی خرچ ہوتا ہے اور بدن بھی محنت کرتا ہے۔
(21) ابو امامہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی اے اللہ کے رسول مجھے ایسا عمل بتائیں جو میرے لیے نفع مند ہو ،دوسری روایت کے الفاظ جو مجھے جنت میں لے جائے، فرمایا : عليك بالصوم فانه لا مثل له.
(22) صحابہ کرام قول نبی کو پلے باندھ لیتے تھے۔ ہمارے جیسے نہ تھے کہ بس سنا اور وہیں چھوڑ کر آگئے۔ ابو امامہ نے (علیک بالصوم ) کو اس رح پلے باندھا کہ ان کے گھر کوئ مہمان آتا تو دن میں کھانا پکتا تھا ورنہ کثرت صیام کی وجہ سے بس سحری اور افطاری ہی ہوتی تھی۔
(23) روزہ کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو نکھارے اور اپنے عمل کی فکر کرے۔
(24) روزہ صبر سکھاتا ہے کہ بندہ بھوک پیاس کو برداشت کرتا ہے۔
(25) روزہ یہ تربیت کرتا ہے کہ جیسے اللہ کی حلال کردہ چیزوں سے بھی روزہ میں اپنے آپ کو بچا رہے ہو ویسے اللہ کی منہیات اور حرام کردہ چیزوں سے بھی اپنے آپ کو بچا لو۔
(26) روزہ ضبط نفس کی تربیت کرتا ہے ۔ حدیث : اذا کان یوم صوم احدکم فلا یرفث ولا یصخب ۔
(27) روزہ تحمل کرنا سکھاتا ہے ۔آج ہم میں اس کی بہت کمی ہے۔ حدیث : فان سابه احد او قاتله فليقل اني صائم.
(28) رمضان میں قرآن سے خوب دل لگائیں۔ رسول اللہ کا معمول رمضان میں قرآن سے بدل جاتا تھا یعنی عام ایام کی نسبت کثرت تلاوت کریں ۔ رسول اللہ بھی سیدنا جبریل سے رمضان میں ہی قرآن کا دور کیا کرتے تھے۔
(29) امام مالک رمضان مین درس حدیث و درس فقہ کو موقوف کردیتے کہ اب بس قرآن کی تلاوت ہی ہے۔
(30) قرآن میں اتریئے اور قرآن کو اپنے اندر اتاریئے۔ (شعر: تیرے ضمیر پر جب تک نہ ہس نزول کتاب ۔ گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف)۔
(31) کتابوں سے نکات حل نہیں ہوتے(تفسیر قرآن کے) اس کے لیے کتاب کو اپنے اوپر اتارنا پڑتا ہے( خوب تدبر کریں قرآن مجید میں۔ سمجھیں کہ یہ آپ سے کیا کہنا چاہتا ہے)۔
(32) رمضان میں سحر و افطار میں ہم اعتدال سے ہٹ جاتے ہیں ۔ سحری اتنی کرتے ہیں کہ آدھے دن تک سوئے رہتے ہیں جبکہ افطاری اتنی کرتے ہیں کہ نماز کے لیے جسم بوجھل ہوجاتا ہے اور قیام اللیل کے لیے سکت ہی نہیں بچتی۔ یہ معمول صحیح نہیں۔
(33) حدیث: ما ملاء ابن آدم وعاء شرا من بطن . بحسب امرى اكلات يقمن صلبه . فان كان لا محالة فثلث لطعام و ثلث لشراب و ثلث لنفسه. کھانے سے اپنا پیٹ بوجھل نہ کریں بلکہ ایک حصہ سانس کی آمد و رفت کے لیے خالی رکھیں۔
(34) سحری میں اگر ممکن ہو تو کھجور کا استعمال بھی کریں۔ حدیث: نعم سحور المومن التمر۔
(35) کھانے پینے میں ذیادہ وقت نہ لگائیں نہ ہی سونے میں ذیادہ وقت لگائیں۔
(36) رمضان میں اللہ سے مانگیں۔ رحمت کے دروازے کھلے ہیں اللہ کی رحمت متوجہ ہے۔ اللہ روزہ دار کی دعا قبول فرماتے ہیں۔ صوم کے تذکرہ کے متصل بعد فرمایا: واذا سالک عبادی عنی فانی قریب اجیب دعوة الداع اذا دعان./ ونحن اقرب اليه من حبل الوريد/ وهو معكم اين ما كنتم.
(37) ایسا تو ہر رات بھی ہوتا ہے (دعا کی قبولیت) کہ جب اللہ آسمان دنیا پر اپنے شایان شان نزول فرماتے ہیں۔ اور اس وقت ندائیں دی جارہی ہوتی ہے۔
(38) دینے والا آواز لگا رہا ہے لیکن لینے والے سورہے ہیں۔ یا اگر جاگ رہے ہیں تو اس کی معصیت والا کام کررہے ہیں۔
ہماری راتوں کے کیا مشاغل ہیں؟؟؟ ہمیں سوچنا چاہیئے۔
(39)جمعہ کے روز بھی دعائیں قبول ہوتی ہیں ، عصر کے بعد وہ گھڑی آتی ہے۔
(40) لیلة القدر کو پہچانیئے۔ جب آخری عشرہ داخل ہوتا تو نبی کریم مزید ہمت باندھتے مزید تیار ہوتے ۔
(41) اماں عائشہ صدیقہ نے پوچھا اللہ کے نبی اگر اس رات کو پالوں تو کیا سوال کروں فرمایا اللہ سے دعا مانگو کہ اللہم انک عفو کریم تحب العفو فاعف عنا۔
(42) اعتکاف نبی کریم کی سنت ہے۔ لیکن اعتکاف کا مطلب ہے سب سے کٹ کر اللہ سے جڑ جاو(وتبتل الیہ تبتیلا)لیکن ہم شاید اعتکاف اس لیے کرتے ہیں کہ سوئے رہیں یا کھائیں پیئیں۔۔۔۔۔۔۔۔
(43) خواتین اپنے شوہر کی اجازت سے اعتکاف بیٹھ سکتی ہیں اس مسجد میں جہاں خواتین کے لیے انتظام ہو۔
(44) عورت کا اعتکاف گھر میں نہیں ہوتا۔
(45) خاوند کی اجازت ضروری ہے ۔ کیونکہ گھر سنبھالنا اور خاوند کی خدمت کرنا فرض ہے جبکہ یہ اعتکاف نفل ہے۔
(46) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت فیاض و سخی تھے ۔ آپ کی داد و دہش کا کوئ مقابلہ نہیں ۔ کبھی کسی کو نہ نہیں بولا۔ پہنا کپڑا بھی کسی نے مانگا تو وہ بھی اتار کر دے دیا۔
(47) عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ رمضان میں نبی کریم کا عطا کرنا ، آپ کا خرچ کرنا ، آپ کی داد و دہش آپ کی دین کا یہ عالم ہوتا کہ گویا آندھی چل رہی ہے۔
(48) اللہ سے مہلت بھی مانگیں کہ اللہ رمضان کی مہلت بھئ عطا کر اور رمضان سے مستفید ہونے کی مہلت بھی عطا کر۔
(49) اللہ سے نیکی کرنے کی اور معصیت سے بچنے کی دعا کیا کریں۔ لا حول ولا قوہ الا باللہ۔
(50) روزہ دار کو 2 خوشیاں ملتی ہیں۔ ایک افطار کی اور ایک آخرت میں دیدار الہی کی۔ لیکن سوچیں جس کی ساری زندگی روزہ کی طرح گزرے کہ وہ اپنا دامن معاصی سے بچا لے تو روز قیامت اس کی عید ہوگی اور اس کی خوشی بھی اسی روزہ دار جیسی ہوگی جو افطار اور عید سے خوش ہے۔

 عبدالرحمٰن مدنی