ہمارے عزیز دوست شیخ سرفراز فیضی صاحب کی ایک تازہ تحریر نظر سے گزری جس میں انہوں نے اس بات کا شکوہ کیا ہے کہ بہت سارے جدید مسائل کے تعلق سے جماعت اہل حدیث کے افراد پریشان رہتے ہیں اور ان کے علماء کے پاس ان چیزوں کے سلسلے میں کوئی واضح موقف نہیں ہوتا. بالفاظ دیگر ہمارے پاس کوئی ایسی فقہ اکیڈمی یا علماء کا بورڈ نہیں ہے جو شرعی اصولوں کی روشنی میں اجتہاد کرتے ہوئے ان مسائل کے سلسلے میں عوام کی رہنمائی کر سکے. احناف جو کہ مقلد ہیں اور بظاہر جن کے یہاں اجتہاد کا دروازہ بند ہے ان کے یہاں تو اس قسم کی بہتیری کاوشیں منظر عام پر آتی رہتی ہیں مگر جماعت اہل حدیث کا خانہ اس سلسلے میں یکسر خالی ہے.
میں فیضی صاحب کی اس بات سے مکمل طور پر اتفاق کرتا ہوں. ایک داعی اور عوام کے درمیان مربوط ہونے کے سبب میں محسوس کرتا ہوں کہ بہت سارے جدید مسائل پر ہمارے پاس سوائے سکوت کے کچھ نہیں ہے. یہ جدید دور ہے.. روزانہ نت نئی چیزیں وجود میں آ رہی ہیں. پیسے کمانے کے بیشمار جدید طریقے ایجاد ہو چکے ہیں. فاریکس ٹریڈنگ، انڈین شیر مارکیٹ، آپشن ٹریڈنگ، کرپٹو ٹریڈنگ یہ ساری چیزیں ہمارے نوجوانوں کو متاثر کر رہی ہیں. چونکہ یہ چیزیں روزی روٹی سے جڑی ہیں اس لیے ایک بڑی تعداد میں مسلم نوجوان بھی ان سے وابستہ ہیں.. لوگ ان کے بارے میں جب سوال کرتے ہیں تو ہمارے پاس کوئی واضح موقف ہی نہیں ہوتا.
فقہ و فتاوی کا باب بڑا وسیع ہے. اس میں ملکی اور جغرافیائی حالات کا بھی اعتبار کیا جاتا ہے.. بر صغیر کے ماحول میں ہر جگہ سعودی فتوے نہیں چپکائے جا سکتے نا ہی جماعت کے قدیم علماء کے فتوے آج تمام جدید مسائل پر منطبق کیے جا سکتے ہیں. اس بات کی شدید ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ جماعت اہل حدیث میں فقہ فتاوی کے ماہرین اور متخصصین علماء کا ایک بورڈ ہو جو کم از کم سال میں ایک بار جمع ہو کر اس قسم کے جدید مسائل میں غور و خوض کر کے کسی فیصلہ کن نتیجے تک پہنچے.
الحمد للہ نہ ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے نہ افراد کی. کتنی بہترین صلاحیتیں ہیں جو غلط جگہوں پر ضائع ہو رہی ہیں. جو اکیڈمک کام کر سکتے ہیں انہیں تدریس میں پھنسا کر رکھا گیا ہے، جو بہترین مدرس ہیں ان کی صلاحیتوں کو انتظامی امور کے نام پر تباہ کیا جا رہا ہے، جو بہترین منتظم ہو سکتے ہیں انہیں دوسروں کا نوکر بنا کر ذلیل کیا جا رہا ہے. تنظیمی اعتبار سے دیکھیں تو ہماری جماعت کے پاس لے دے کر بس یہی کام رہ گیا ہے کہ وہ مدارس کو توصیہ فراہم کرے اور سال میں ایک آدھ بھاری بھرکم کانفرنسیں منعقد کر دے .
کاش ہم وقت کے ساتھ چلنا سیکھتے. ہمیں دعوت و تبلیغ کے ساتھ تزکیہ و تربیت کی بھی ضرورت ہے. جس طرح آج ہر چیز کو کمرشلائز کیا جا رہا ہے اب اخلاص وللہیت جیسے الفاظ بے معنی سے لگتے ہیں. کاش ہم اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے.. ہمارے اسلاف نے جو خوبصورت خواب دیکھے تھے کاش ہم ان کی تعبیر کی کوئی صورت نکالتے.
عبدالغفار سلفی، بنارس