شعبان کو استقبالِ رمضان کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے۔ سلف صالحین کے بارے میں آتا ہے کہ وہ جو کچھ رمضان میں کرنا چاہتے تھے، اس کی تیاری اور مشق شعبان میں ہی شروع کردیتے تھے۔
ایک بزرگ ہیں ابو بکر البلخی رحمہ اللہ، فرماتے ہیں:
“شهر رجب شهر الزرع، وشهر شعبان شهر سقي الزرع، وشهر رمضان شهر حصاد الزرع”. [لطائف المعارف لابن رجب، ص:121]
یعنی جو کھیتی آپ نے رمضان میں کاٹنی ہے، اسے رجب میں کاشت کریں، شعبان میں پانی دیں، تاکہ رمضان میں کاٹ سکیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ سے متعلق عائشہ رضی اللہ عنہا کی جو مشہور حدیث ہے کہ
“مَا رَأَيْتُهُ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ”(بخاری: 1969)
آپ شعبان میں بہت زیادہ روزے رکھتے تھے۔ اس میں ایک توجیہ تو شعبان میں روزے کی فضیلت ہے، دوسری حکمت بعض اہل علم نے یہ بیان کی ہے کہ جس طرح فرض نماز سے نوافل اور سنتیں ادا کی جاتی ہیں، اسی طرح رمضان کے روزوں سے پہلے شعبان کے روزے ایک سنت کی طرح ہیں۔
لہذا شعبان میں رمضان کی اس قدر تیار کی جائے، تاکہ رمضان کی رحمتوں اور برکتوں سے بھرپور انداز سے لطف اندوز ہوا جاسکے۔ ذیل میں کچھ نکات (پوائنٹس) درج کیے جاتے ہیں، جن پر شعبان میں ہمیں توجہ دینی چاہیے:
1. سچی توبہ:
ارشادِ نبوی ہے:
“إِنَّهُ لَيُغَانُ عَلَى قَلْبِي وَإِنِّي لَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ فِي الْيَوْمِ مِائَةَ مَرَّةٍ”. [صحيح مسلم:2702]
“میرے دل پر غبار سا چھا جاتا ہے تو میں اس کیفیت کے ازالے کے لیے ایک دن میں سو بار اللہ سے استغفار کرتا ہوں”۔
لہذا دل و دماغ کو گناہوں کی آلودگی سے پاک کریں، کندھوں کو خطاؤں کے بوجھ سے ہلکا کریں، جو غلطیاں، کمیاں کوتاہیاں ہوئی ہیں، ان سے صدقِ دل کے ساتھ توبہ کرلیں، تاکہ جب ہم رمضان میں داخل ہوں، تو ہماری کتابِ زندگی کا ایک نیا باب شروع ہو، جس کے اوراق بالکل سفید اور صاف ستھرے ہوں۔
2. حقوق العباد پر توجہ دیں:
دوسروں کے ساتھ ظلم و زیادتی اور ان کی حق تلفی ان امور میں سے ہے، جس سے انسان سے نیکی اور بھلائی کی توفیق چھن جاتی ہے۔ لہذا رمضان سے پہلے پہلے اس قسم کے سارے معاملات نپٹالیں، سوچیں، غور و فکر کریں، ذہن کو صاف کریں، تاکہ رمضان میں داخل ہوں، تو قلب و ذہن ہر قسم کی آلائشوں سے پاک ہو کر، راحت و اطمینان کے ساتھ عبادت کے لیے مستعد اور چاک و چوبند ہو۔
3. نیکیوں میں رکاوٹیں دور کریں:
غور کریں، کون سی چیزیں ہیں، جو نیکی اور عبادت کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہیں، مثلا: فضول مجالس، موبائل، ٹی وی وغیرہ، سونے جاگنے کا غیر منظم شیڈول، جس قسم کی سستی اور غفلت کی وجہ سے سارا سال نیکیوں میں کوتاہیاں ہوتی ہیں، ان سب عادات کو ابھی سے چھوڑیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ رمضان آئے، اور گزر جائے، اور ہم خوابِ غفلت سے بیدار ہی نہ ہوسکیں۔
4. علمی اعتبار سے خود کو پختہ کریں:
رمضان کے احکام و مسائل سے متعلق ابھی سے تیاری کریں۔ اہلِ علم سے مسائل پوچھیں، کتابیں پڑھیں، دیگر ذرائع سے مستند معلومات حاصل کریں۔
5. ارد گرد کے ماحول کو رمضان کے لیے تیار کریں:
ہمارے ہاں رمضان کی تیاری کا مطلب بھی دنیاوی تیاری ہی سمجھ لیا گیا ہے۔ دنیا کے لیے تگ و دو کرنا بری چیز نہیں، لیکن رمضان جیسے نیکیوں کے موسم کو بھی کھانے پینے اور چسکے کا مہینہ اور محض کمائی کا ذریعہ بنالینا، یہ اس کی ناقدری کے مترادف ہے۔ گھر، دفتر، مارکیٹ ، اسکول، کالج، مدرسہ، ٹریننگ سنٹر وغیرہ سب مقامات کی روٹین اس طرح کی بنائی جائے، تاکہ د ن کے وقت روزہ میں خلل نہ آئے، اور را ت کو قیام وغیرہ عبادات متاثر نہ ہوں۔
سلف صالحین کے بارے میں تو یہاں تک آتا ہے کہ وہ علمی دروس اور مجالسِ حدیث روک دیا کرتے تھے، تاکہ مکمل صیام و قیام اور قرآن کریم کی طرف متوجہ ہوسکیں۔ گھر کے تمام افراد، ملازمین، دوست احباب سب کو توجہ دلائیں، اور رمضان کی اہمیت و فضیلت سے آگاہ کریں، تاکہ سب مل جل کر اس ماہِ مبارک سے مستفید ہوسکیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جو رمضان میں کرنا چاہتے ہیں، وہ ابھی کریں…! تلاوت قرآن، قیام، ذکر، توبہ و استغفار، صدقہ و خیرات، حسنِ سلوک اور صلہ رحمی وغیرہ۔

حافظ خضر حیات