اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ
بے شک ہم نے اسے (قرآن مجید کو) ایک بہت برکت والی رات میں اتارا، بے شک ہم ڈرانے والے تھے۔ الدخان : 3
اس آیت میں مذکورہ “لیلہ مبارکہ” سے مراد کونسی رات ہے ؟
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ “ليلة مباركة” سے مراد نصف شعبان کی رات ہے حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے۔
روزِ اول سے لیکر آج تک کسی قابل اعتماد مفسر نے اس آیت کا یہ معنی نہیں اور اگر کسی نے یہ معنی ذکر بھی کیا ہے تو اس کا مقصود اس معنی کی تردید کرنا تھا۔
مفسر قرآن سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے بسند صحیح ثابت ہے کہ انہوں نے “ليلة مباركة” سے مراد “ليلة القدر” کو ہی لیا ہے۔(المستدرك على الصحيحين ٣٦٧٨ وقال:صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ و قال الذهبي:صحيح على شرط مسلم)
اہل علم فرماتے ہیں کہ “ليلة مباركة” سے مراد “لیلۃ القدر” ہے ۔
1)امام المفسرین ابن جریر الطبری رحمہ اللہ (م ٣١٠ ھ) فرماتے ہیں:والصواب من القول في ذلك قول من قال: عنى بها ليلة القدر،
اس مسئلہ میں درست بات اسی شخص کی ہے جس نے کہا کہ “ليلة مباركة” سے مراد لیلۃ القدر ہے.(تفسیر الطبری٨/٢٢)
2)امام أبو إسحاق ، إبراهيم بن محمد الزجاج (م ٣١٣ ھ) رحمه الله لکھتے ہیں:وقالَ المُفَسِّرُونَ: ”في لَيْلَةٍ مُبارَكَةٍ“: هي لَيْلَةُ القَدْرِ،
مفسرین نے کہا ہے:لیلہ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہے ۔(معانی القرآن للزجاج ٤٢٣/٤)
إمام العربية علامہ أبو جعفر ، أحمد بن محمد بن إسماعيل ، المصري( م ٣٣٨ ھ) رحمہ اللہ نے بھی یہی معنی بیان کیا ہے۔
3)ماتریدیہ کے امام ابو منصور ماتریدی (ت٣٣٣ھ) اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ قال أهل التأويل: إنا أنزلنا الكتاب -أي: القرآن- في ليلة القدر
مفسرین اس آیت کا معنی یوں بیان کرتے ہیں:ہم نے اس کتاب کو ہم نے قرآن مجید کو “ليلة القدر” میں اتارا۔(تفسير الماتريدي ١٩٦/٩)
4)علامہ سمعانی (م٤٨٩ ھ)فرماتے ہیں:أَنَّهَا لَيْلَة الْقدر، وَهَذَا قَول ابْن عَبَّاس وَالْحسن وَسَعِيد بن جُبَير وَأكْثر الْمُفَسّرين
ابن عباس حسن بصری سعید بن جبیر اور اکثر مفسرین کا قول ہے کہ لیلہ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہے ۔(تفسیر القرآن للسمعانی ١٢١/٥)
5)علامہ ابن العربی المالکی (م٥٤٣ ھ) لکھتے ہیں:وَجُمْهُورُ الْعُلَمَاءِ عَلَى أَنَّهَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ وَمِنْهُمْ مَنْ قَالَ: إنَّهَا لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ
جمھور اہل علم کی رائے یہی ہے کہ لیلہ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہے اور بعض نے کہا کہ اس سے مراد نصف شعبان کی رات ہے۔
وَهُوَ بَاطِلٌ۔۔۔۔۔۔۔فَمَنْ زَعَمَ أَنَّهُ فِي غَيْرِهِ فَقَدْ أَعْظَمَ الْفِرْيَةَ عَلَى اللَّهِ
پس یہ قول باطل ہے ۔۔۔۔۔جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ اس سے مراد لیلۃ القدر کے علاؤہ کوئی رات ہے تو وہ اللہ پر بڑا بھتان باندھنے والا ہے ۔(احکام القرآن لابن العربي ١١٧/٤)
6)علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ (م٥٩٧ھ) فرماتے ہیں:أنَّها لَيْلَةُ القَدْرِ، وهو قَوْلُ الأكْثَرِينَ
اکثر اہل علم کی رائے یہی ہے کہ اس لیلہ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہے۔(زاد المیسر في علم التفسير ٨٧/٤)
7)علامہ فخر الدین رازی (م ٦٠٦ھ) لکھتے ہیں:وأمّا القائِلُونَ بِأنَّ المُرادَ مِنَ اللَّيْلَةِ المُبارَكَةِ المَذْكُورَةِ في هَذِهِ الآيَةِ هي لَيْلَةُ النِّصْفِ مِن شَعْبانَ، فَما رَأيْتُ لَهم فِيهِ دَلِيلًا يُعَوَّلُ عَلَيْهِ، وإنَّما قَنِعُوا فِيهِ بِأنْ نَقَلُوهُ عَنْ بَعْضِ النّاسِ، فَإنْ صَحَّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِيهِ كَلامٌ فَلا مَزِيدَ عَلَيْهِ، وإلّا فالحَقُّ هو الأوَّلُ
جن لوگوں نے کہا کہ اس آیت میں “ليلة مباركة” سے مراد نصف شعبان کی رات ہے میں نے ان کی کوئی قابلِ اعتماد دلیل نہیں دیکھی انھوں نے صرف اسی پر اکتفاء کیا کہ یہ قول بعض لوگوں سے مروی ہے ۔
اگر تو یہ بات رسول اللہ سے صحیح ثابت ہے تو اس پر کوئی حرج نہیں وگرنہ پہلی بات ہی راجح ہے یعنی لیلہ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہے (التفسير الكبير ٦٥١/٢٧)
8)علامہ قرطبی رحمہ اللہ (م٦٧١ ھ) فرماتے ہیں:وَاللَّيْلَةُ الْمُبَارَكَةُ لَيْلَةُ الْقَدْرِ وَيُقَالُ: لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ……وَالْأَوَّلُ أَصَحُّ.
لیلہ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ اس سے مراد نصف شعبان کی رات ہے ۔۔۔لیکن پہلی بات درست ہے ۔۔۔۔(الجامع لاحکام القرآن ١٢٧/١٦)
9)ابن جزی المالکی (م ٧٤١ھ) لکھتے ہیں:يعني ليلة القدر من رمضان…..وقيل: يعني بالليلة المباركة ليلة النصف من شعبان وذلك باطل،
لیلہ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہے ۔۔۔۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد نصف شعبان کی رات ہے لیکن یہ قول باطل ہے۔۔۔۔۔(التسهيل لعلوم التنزيل ٢٦٦/٢)
10)علامہ ابن کثیر (م ٧٧٤ ھ) رحمہ اللہ لکھتے ہیں:وَمَنْ قَالَ:وَهِيَ لَيْلَةُ الْقَدْرِ وَمَنْ قَالَ إِنَّهَا لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ -كَمَا رُوِيَ عَنْ عِكْرِمَةَ-فَقَدْ أَبْعَدَ النَّجْعَة فَإِنَّ نَصَّ الْقُرْآنِ أَنَّهَا فِي رَمَضَانَ
اس سے مراد لیلۃ القدر ہے اور جس نے کہا کہ اس سے مراد نصف شعبان کی رات ہے تو اس نے بلا دلیل بات کی ہے ۔۔۔۔(تفسیر القرآن الکریم ٢٤٦/٧)
تلك عشرة كاملة
قارئین کرام تیسری صدی ھجری سے لیکر آٹھویں صدی ھجری تک کہ آئمہ مفسرین کا کلام آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ تمام کے تمام نے لیلہ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر کا ہونا تسلیم کیا ہے۔
یہ تو صرف چند اہل علم مفسرین کے اقوال نقل کیے ہیں وگرنہ ان کے علاؤہ بیسیوں اہل علم فقھاء محدثین اور مفسرین کی یہی رائے ہے ۔
عظیم مفسر و فقیہ امین الشنقیطی رحمہ اللہ (م 1394ھ) فرماتے ہیں:فَدَعْوى أنَّها لَيْلَةُ النِّصْفِ مِن شَعْبانَ كَما رُوِيَ عَنْ عِكْرِمَةَ وغَيْرِهِ، لا شَكَّ في أنَّها دَعْوى باطِلَةٌ لِمُخالَفَتِها لِنَصِّ القُرْآنِ الصَّرِيحِ.
اس بات کا دعویٰ کرنا کہ لیلہ مبارکہ سے مراد نصف شعبان کی رات ہے جیسا کہ عکرمہ و غیرہ سے مروی ہے یہ دعویٰ باطل اور قرآن مجید کی آیات کے صریح خلاف ہے ۔۔۔
والأحادِيثُ – الَّتِي يُورِدُها بَعْضُهم في أنَّها مِن شَعْبانَ – المُخالِفَةُ لِصَرِيحِ القُرْآنِ – لا أساسَ لَها، ولا يَصِحُّ سَنَدُ شَيْءٍ مِنها، كَما جَزَمَ بِهِ ابْنُ العَرَبِيِّ وغَيْرُ واحِدٍ مِنَ المُحَقِّقِينَ.
اس متعلق جو بعض احادیث مروی ہیں_جو صراحتًا قرآن مجید کے خلاف ہیں_ وہ ناقابل اعتماد ہیں جیسا کہ ابن العربی اور کئی ایک محققین نے کہا ہے ۔
فالعَجَبُ كُلُّ العَجَبِ مِن مُسْلِمٍ يُخالِفُ نَصَّ القُرْآنِ الصَّرِيحَ بِلا مُسْتَنَدِ كِتابٍ، ولا سُنَّةٍ صَحِيحَةٍ
پس انتہائی تعجب ہے ایک مسلمان پر کہ بغیر کسی دلیل کے واضح قرآن مجید کی آیات کی مخالفت کرتا ہے ۔(اضواء البیان ١٧٢/٧)
✍️حافظ عبدالرحمن المعلمی