سوال
میری بیوی کا بھائی حمزہ اکرم میرے پاس آیا اور زبردستی اپنی بہن کی طلاق کا مطالبہ کرنے لگا، اسی طرح میری ساس نے کہا اگر وسیم طلاق نہیں دیتا تو میں خود کشی کرتی ہوں۔ میری بیوی کے ماموں نے کہااگر یہ طلاق نہیں دیتا تو اسے گولی مار دو، یہ پیغام سسر کی طرف سے ملا، مزید مجھے ذہنی طور پر ٹارچر کیا گیااور میرے سسر نے کہا اگر طلاق لکھ کر نہیں دو گے، تو ہم عدالت سے خلع لے لیں گے۔یہ ساری صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے مجبورا میں نے کہاایک دن آپ کی بیٹی میرے پاس آئے گی اور میں نے طلاق لکھ دی، جس کے الفاظ یہ تھے کہ ’ میں محمد وسیم اسلم بن اسلم شاہد اپنے ہوش و حواس میں ایمن اکرم بنت محمد اکرم شاہد کو طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں‘۔
سوال یہ ہے کہ اس مجبوری کی صورتِ حال میں طلاق ہوئی ہے یا نہیں ؟!
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
وہ اکراہ اور جبر جس کی موجودگی میں انسان کا عمل قابلِ مواخذہ نہیں رہتا ، اس کی تین شرائط ہیں:
1: اس شخص کو خود یا اس کے کسی عزیز کو قتل یا کسی عضو کے تلف کرنے کی دھمکی دی جائے، ویسے مار پیٹ اور تشدد کو اکراہ نہیں سمجھا جائے گا۔
2:دھمکی دینے والےکے ہاتھ میں ایسا آلہ ہو جس سے انسان مر سکتا ہو یا اس کا کوئی عضو تلف ہوسکتا ہو، جیسےپستول، بندوق،چاقو یا چھری وغیرہ ۔ لہذا اگر کسی کو نقلی پستول کے ذریعے دھمکی دی جائے تو وہ اکراہ شمار نہیں ہوگا۔
3: دھمکی دینے والے کےبارے میں ظنِ غالب ہو کہ وہ قتل کرنے یا عضو تلف کرنے کی قدرت و طاقت رکھتا ہے اور اگر اس کی دھمکی کے مطابق عمل نہ کیا گیا تو وہ اپنے کہے پر عمل درآمد کر گزرے گا۔
تو اس صورت میں یہ آ دمی قابلِ مواخذہ نہیں ہے، کیونکہ ایسی صورت میں اس کا ارادہ بالکل ختم ہو جاتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ} [النحل:106]
یعنی جس کے دل میں ایمان ہو، لیکن اسے کلمہ کفر کہنے پر مجبور کردیا جائے، تو وہ کافر نہیں ہوگا۔
محلِ استدلال یہ ہے کہ اکراہ کی صورت میں کلمہ کفر معتبر نہیں، تو طلاق کا بالاولی اعتبار نہیں ہوگا۔( فتح الباری لابن حجر:9/390)
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“إنَّ الله تجاوز عن أُمتي الخطأ والنسيان وما استكرهوا عليه”. [سنن ابن ماجة:2045، صحيح ابن حبان:7219، المعجم الکبیر للطبراني: 11274، تخريج المشكاة للألباني:6248]
’ اللہ تعالی نے میری امت سے غلطی، بھول چوک اور جن چیزوں پر انہیں مجبور کردیا جائے، سے در گزر کیا ہے‘۔
لیکن ہمارے علم کے مطابق صورتِ مسئولہ میں شرعاً اکراہ کی شکل نہیں بنتی، کیونکہ اس کی ساس اور اس کی بیوی کے ماموں کی باتیں محض دھمکی محسوس ہوتی ہیں، بظاہر نظر نہیں آتا کہ وہ واقعتا اس پر عمل درآمد بھی کرنے والے تھے۔ سائل کا دوبارہ رجوع کے لیے کوشش کرنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ اوپر والی ساری باتیں محض دھمکی تھی، ورنہ جہاں واقعتا مرنے مارنے کی بات چل رہی ہو، وہاں دوبارہ رجوع کی سوچ بھی کیسے پیدا ہوسکتی ہے؟ کیا سائل دوبارہ پھر مرنے کے لیے رجوع کرنا چاہتا ہے؟
اسی طرح اگر انہوں نے کہا تھا کہ ہم عدالت سے خلع لے لیں گے تو وہ لے لیتے، جب سائل طلاق نہیں دینا چاہتا تھا تو اسے نہیں دینی چاہیے تھی۔
مذکورہ تمام باتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہمیں یہ بات سمجھ آتی ہے کہ اگر سائل نے طلاق لکھ دی ہے، تو یہ معتبر ہوگی۔اگر اس نے پہلے کوئی طلاق نہیں دی تو پہلی طلاق ہو چکی ہے۔ اور اگر عورت عدت میں ہے تو رجوع ہو سکتا ہے، لیکن اگر عدت گزر چکی ہے تو تجدیدِ نکاح ہوگا۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ