سوال
اونٹ کی قربانی میں کتنے لوگ شامل ہو سکتے ہیں؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
تقرب اِلی اللہ کے لیے جو جانور ذبح کیے جاتے ہیں عموماً ان کی دو اقسام ہیں:
1۔ ہدی: یہ وہ جانور ہے جو حرم کی طرف لے جایا جائے، اور حرم میں ہی ذبح کیا جائے، یہ مناسک حج میں سے ہے۔
2۔ اضحیہ: اس جانور کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے تقرب کے لیے عید اور ایام تشریق میں ذبح کیا جائے۔
اگر اونٹ کو ہدی کے طور پر ذبح کرنا ہے تو اس میں سات حصے ہو سکتے ہیں جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:
“حَجَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَحَرْنَا الْبَعِيرَ عَنْ سَبْعَةٍ، وَالْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ”.[مسلم:3187]
’ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیا ہم نے سات آدمیوں کی طرف سے ایک اونٹ نحر کیا‘۔
واضح رہے کہ مذکورہ حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے موقع پر دیا تھا جیسا کہ حدیث کے آغاز سے معلوم ہوتا ہے۔
اگر اونٹ کو بطور اضحیہ ذبح کرنا ہے، تو اس میں دس حصوں کی گنجائش ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں :
“كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَحَضَرَ الْأَضْحَى، فَاشْتَرَكْنَا فِي الْجَزُورِ عَنْ عَشَرَةٍ، وَالْبَقَرَةِ عَنْ سَبْعَةٍ”.[سنن ابن ماجہ:3131]
’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ اتنے میں عید الاضحی آ گئی، تو ہم اونٹ میں دس آدمی، اور گائے میں سات آدمی شریک ہو گئے‘۔
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی روایت ہے:
“عَدَلَ عَشْرًا مِنَ الْغَنَمِ بِجَزُورٍ”.[صحیح البخاری:2507]
’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر قرار دیا ‘۔
البتہ کچھ علماء کا یہ موقف ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے ایک اونٹ میں سات یا دس آدمیوں کی شرکت ایک عمومی رخصت ہے، یعنی حج ہو یا عید اونٹ میں سات یا دس افرادشریک ہوسکتے ہیں، ویسے اگر استطاعت ہو تو اکیلا آدمی بھی ایک اونٹ یا گائے کی قربانی کر سکتا ہے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ