اکثر و بیشتر ہم مولانا اسماعیل سلفی گوجرانوالہ کا ذکر خیر کرتے رہتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ مولانا ہر اعتبار سے منفرد تھے، ذی علم ہونے کے ساتھ ساتھ ایسے صاحب طرز تھے کہ ان کے ادبی شہ پاروں پر کوئی طالب علم پی ایچ ڈی کر سکتا ہے، ان کی کتابوں کے عربی تراجم بہت بعد میں ہوئے لیکن ان کی شہرت ایسی تھی کہ مدینہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے انہیں پڑھانے کیلئے اپنے یہاں مدعو کیا تھا لیکن یہ سادہ دل پنجابی گوجرانوالہ ہی میں مسند درس سجائے رہا، مولانا سلفی خشک طبیعت کے نہیں تھے خاصے بذلہ سنج تھے، ہم نے مولانا کا نام پہلی بار عبدالحمید رحمانی کی زبانی سنا لیکن تفصیلی تعارف اسحاق بھٹی نے کرایا، تعارف کے بعد تو ہم لہلوٹ ہو گئے کہ ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی۔
سلیقۂ اختلاف کے ضمن میں ہم نے بار بار مولانا کا نام لیا ہے اور طالب علموں سے گزارش کیا ہے کہ وہ مولانا کو پڑھیں اس لئے کہ مولانا کے یہاں علمیت بھی ہے اور ادبیت بھی، سلیقہ بھی ہے اور متانت بھی، مولانا کی زیادہ تر نگارشات ردعمل ہی کے نتیجے میں وجود میں آئی ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے لب و لہجے میں شگفتگی ہے کرختگی نہیں ہے، وہ منہ بنا کر مخاطب نہیں ہوتے بلکہ مسکرا کر چٹکی لیتے ہیں اور جس کی چٹکی لیتے ہیں وہ بھی مسکرانے پر مجبور ہو جاتا ہے، ماہ محرم میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ممتاز اور بزرگ شہریوں سے میٹنگ کی تاکہ شہر میں امن و امان برقرار رہے، مولانا بھی اس میٹنگ میں مدعو تھے انہوں نے کسی بات پر برجستہ کہا کہ ہمیں جلوس سے کوئی دقت نہیں ہے لیکن ہماری مسجد کے سامنے جلوس اتنی دیر تک رک کر سینہ کوبی و ماتم اور طعنہ زنی کرتا ہے جیسے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو ہم نے شہید کیا ہو، ادھیکاری تو ادھیکاری شیعہ حضرات بھی مولانا کی بات سن کر مسکرائے بنا نہیں رہ سکے۔
سادہ لوح ایسے تھے کہ اسحاق بھٹی سے پوچھا کہ کسی مضمون نگار نے تعویذ و گنڈہ پر الاعتصام میں مضمون بھیجا ہے لیکن تم نے ابھی تک شائع نہیں کیا، بھٹی صاحب نے کہا کہ کیا شائع کروں اس بندے نے تعویذ کا املا تک غلط لکھا ہے، مولانا سلفی نے کہا کہ ممکن ہے کہ وہ تعویذ کا کاروبار نہ کرتا ہو، بھٹی صاحب یہ عجیب و غریب توجیہ سن کر مسکرائے اور مضمون کا نوک پلک درست کر کے اسے شائع کر دیا۔
یہ تو ہوئی مولانا کی سادہ لوحی لیکن فراست ایسی تھی کہ مولانا اسماعیل نے اپنے دور کے تمام فتنوں کا بڑی بے جگری سے مقابلہ کیا، بالخصوص منکرین حدیث کا رد انہوں نے جم کر کیا لیکن کسی سے بدتمیزی نہیں کی، کوئی غیر معیاری فقرہ ان کی زبان سے ادا نہیں ہوا، متانت کا دامن انہوں نے اُس وقت بھی نہیں چھوڑا جب ماہر القادری نے فاران میں مولانا کو اپنی سوقیانہ تنقید کی باڑ پر رکھ لیا تھا۔ مولانا سلفی نے بس مسکرا کر اتنا ہی کہا تھا کہ “مریض اگر معالج کے ساتھ بد زبانی کرے تو اس سے مرض کو فائدہ نہیں ہوگا،، بلکہ الٹا مرض ہی میں اضافہ ہوگا، مولانا اسماعیل ماہر القادری کے سطحی انداز، ہلکی زبان اور خفیف لب و لہجے پر اور کیا کہتے؟! مولانا سلفی کی تو “ثقاہت، زبان کی لطافت، بیان کی نزاکت اور سنجیدگی کا سب نے اعتراف کیا (ہے) وہ چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑے نازک فقہی مسائل کو زیر بحث لاتے ہیں، ایک طبیب حاذق کی طرح نشتر بھی چلاتے ہیں مگر کہیں ٹیس محسوس نہیں ہونے دیتے، اپنے مخاطب کا بھر پور تعاقب کرتے ہیں مگر اس کے ادب و احترام کے منافی کوئی چیز نوک قلم پر نہیں لاتے،، (واوین کے فقرے مولانا ارشاد الحق اثری کے ہیں)
ماہر القادری کی زبان درازی کی وجہ یہ تھی کہ مولانا سلفی نے ‘جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث، جیسی ثقہ کتاب مولانا مودودی کے تعاقب میں لکھ دی تھی یہ وہ ‘جرم، ہے جسے جماعت اسلامی والے کبھی معاف نہ کر سکے، بہتوں کو یہ الجھن ہے کہ جس قلم نے ‘سنت کی آئینی حیثیت، جیسی شاندار کتاب لکھی وہ کیونکر سنت کی آئینی حیثیت پر سوال اٹھا دیتا ہے لیکن یہ درست ہے کہ مولانا مودودی “جب بھی علم کی ان متعارف راہوں سے گزرے، انہوں نے ٹھوکر کھائی، متعہ کا مسئلہ، مسلک اعتدال، حیات مسیح، دجال وغیرہ میں ان کی جدت طرازیاں کامیاب نہیں ہوئیں، ان کے رہوار قلم کی جولانیوں کا میدان دوسرا ہے……..جب بھی وہ اپنا میدان چھوڑ کر تفسیر اور فقہ الحدیث کے مرغزاروں کا رخ فرماتے ہیں، ان کا قلم ٹھوکریں کھانا شروع کر دیتا، مولانا سے گزارش ہے کہ ان راہوں سے اگر وہ کترا کر گزر جائیں تو نہ ان کے مقام کی رفعتوں میں فرق آئے اور نہ ان کے ادب و احترام کو نئے پیمانوں سے ناپنا پڑے،، (واوین کا اقتباس مولانا سلفی کا ہے)
اس تنقید میں متانت ہے، وقار ہے، سلیقہ ہے، مخاطب کا احترام ہے لیکن اسے پڑھ کر ماہر القادری تو قادری مولانا مودودی تک آپا کھوپا بیٹھے حالانکہ مولانا مودودی کی نستعلیقیت بہت مشہور ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مولانا مودودی نے اپنے خلاف لکھی تحریروں کا کبھی جواب نہیں دیا یہ بھی خلاف واقعہ ہے اس لئے کہ مولانا جواب تو نہیں دیتے تھے لیکن دلواتے ضرور تھے، اپنی ایک نجی مجلس میں مولانا مودودی نے مولانا اسماعیل کیلئے ان لفظوں کا استعمال کیا جو دونوں کے مقام و مرتبہ کے منافی تھا، مداح تو ظاہر ہے کہ مولانا مودودی کی بات پر تالی بجا کر رہ گئے ہوں گے لیکن مسعود عالم ندوی نے سر بزم ٹوک دیا کہ حضت! یہ کیا کر رہے ہیں آپ، اس طرح کی حرکت آپ کے شایان شان نہیں ہے۔
سعدیہ ارشد مولانا سلفی کی سوانح نگار ہیں انہوں نے مولانا کے اسلوب میں “روانی، سلاست، برجستگی………(اور) زبان و بیان کی رعنائی،، کا بجا طور پر اعتراف کیا ہے اسی طرح سے سعدیہ ارشد جب کہتی ہیں کہ “مولانا اصحاب الرائے اور تقلید جامد کے….بیباک نقاد ہیں مگر تنقید اس انداز سے کرتے ہیں کہ فریق مخالف برا ماننے کے بجائے قائل ہو جاتا ہے،، تو وہ بالکل صحیح کہتی ہیں۔
مولانا ثناءاللہ امرتسری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر صبح اسلام کے خلاف کوئی تحریر آئے تو شام تک مولانا اس کا مدلل و مبرہن جواب دے دیتے ہیں یہی معاملہ مولانا سلفی کا بھی تھا، حدیث و سنت اور محدثین کے خلاف جس کسی نے بھی دھیمے انداز میں یا زور سے لکھا مولانا نے اس کا بھرپور تعاقب کیا، ابراہیم علیہ السلام کے کذبات ثلاثہ پر تفہیم القرآن میں مولانا مودودی رحمہ اللہ نے جو گل افشانئ گفتار کی ہے اسے پڑھ کر غلام احمد پرویز بھی مسکرا دیئے ہوں گے کہ یہ بندہ تو ہمارا ہی کام کر رہا ہے لیکن مولانا اسماعیل نے صاحب تفہیم القرآن کے فہم حدیث پر فوراً سوال کھڑا کر دیا اور یہ ضروری بھی تھا۔
آج راشد شاز یورپ کے مستشرقین اور برصغیر کے منکرین حدیث کے چبائے ہوئے لقموں کو پھر سے چبا رہے ہیں اور بھوکے لوگ انہیں مبہوت ہو کر دیکھ رہے ہیں کہ خدایا یہ کون سی بلا ہے ایسوں کیلئے مولانا سلفی کی تحریریں مشعل راہ ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ نشان راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو وہ آج خود کسی مرد راہ داں کی راہ تک رہے ہیں، شمس پیر زادہ اپنی تفسیر دعوت القرآن میں واقعۂ افک کے منکر ہیں لیکن یہ انکار بھی پیر زادہ کا نہیں ہے پیر زادہ سے بہت پہلے تمنا عمادی اس کا انکار کر چکے تھے اور مولانا اسماعیل سلفی اس انکار کا تار و پود بھی بکھیر کر رکھ چکے تھے۔ کوئی اور ہوتا تو اقرار کر لیتا لیکن منکرین حدیث تو مستشرقین سے بھی زیادہ گئے گزرے ہیں، مستشرقین تو دلائل کو تسلیم کر کے اپنے موقف میں تبدیلی کر لیتے ہیں لیکن منکرین حدیث کی ہٹ دھرمی نے انہیں کہیں کا نہ چھوڑا-
تحریر و تقریر اور انشاء پردازی کی صلاحیت بہت کم کسی ایک شخصیت میں جمع ہو پاتی ہیں لیکن مولانا اسماعیل علم کے ان تینوں شعبوں میں بڑی مہارت رکھتے تھے ان کے جمعے کا خطبہ تو مولانا مسعود عالم ندوی بھی سننے کیلئے آتے تھے، مزے کی بات یہ ہے کہ مولانا کا خطبہ پنجابی میں ہوتا تھا لیکن اس کے باوجود مولانا ندوی مولانا اسماعیل کا خطبہ سنتے تھے اور کہتے تھے کہ دو چار پنجابی لفظوں کو اگر نکال دیا جائے تو مولانا کا خطبہ تقریباً اردو ہی میں ہوتا ہے۔
مولانا اسماعیل فرقہ پرستی سے کوسوں دور تھے ان کے یہاں تو اس قدر وسعت تھی کہ فکر و نظر کی جن تعبیروں کو ہم اپنی فرقہ پرستی کے جواز میں پیش کرتے ہیں مولانا اسماعیل کا ذہن رسا انہیں تعبیروں میں اسلام کی انفرادیت دیکھ لیتا تھا، مولانا کا کہنا تھا کہ ”اسلام ایک زندہ و متحرک مذہب یے وہ ہر ایک تعبیر کی اجازت دیتا ہے جو اس کے اصول اور اساسی تعلیمات سے متصادم نہ ہوں، احناف، شوافع، موالک، حنابلہ اور اہل حدیث یہ اسلامی تعلیمات کی مختلف تعبیرات ہیں………فقہی فروع میں جو بھی تعبیرات ان بزرگوں نے کی ہیں اور جس قسم کے قوانین ملت کو دیئے ہیں، اسلام ایسے زندہ اور متحرک مذہب میں ان کیلئے گنجائش موجود ہے، ان مسائل پر ایک دوسرے کی تکفیر یا تفسیق نامناسب مشغلہ ہے اور دماغی توازن کی خرابی کا اثر یا پھر اصول ادلہ سے جہالت کا نتیجہ……-
کیا سمجھے آپ؟ یہی نا کہ تنقید، رد، اختلاف اور تعاقب کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے، ایک صحت مند سماج کی نشو نما اور ترقی کیلئے یہ ضروری بھی ہے لیکن ایسا نہ لگے کہ نقاد تکفیر و تفسیق پر تلا ہوا ہے یا دماغی خلجان کا شکار ہے، مولانا اسماعیل کا علم کلام زیادہ تر رد ہی پر مبنی ہے لیکن کہیں بھی انہوں نے سلیقۂ اختلاف کا دامن نہیں چھوڑا ہے ان کے یہاں ‘حضرات علماء دیوبند کا اضطراب، اور ‘ برادران احناف، جیسی دلچسپ تراکیب بھی کثرت سے ملتی ہیں وہ مولانا سید انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کو ‘حضرت استاذ الاساتذہ، کہہ کر مخاطب کرتے ہیں، تھانوی صاحب کو ‘حضرت مولانا، کہتے ہیں، شبلی نعمانی کی گنتی ‘مشاہیر، میں کرتے ہیں اور ان کے ‘تاریخی مطالعہ، کے قائل ہیں، حضرت مولانا امین احسن صاحب اصلاحی کی ‘وسیع النظری، وسعت مطالعہ اور اصابت فکر کا بڑی ایمانداری سے اعتراف بھی کرتے ہیں اور تمنا عمادی جیسے چھپے منکر حدیث کو ‘ہمارے محترم، کہتے ہیں، اپنے فکری مخالفین کیلئے اس وسیع النظری اور کشادہ ذہنی کا مظاہرہ بہت کم لوگ کر پاتے ہیں لیکن ہمارے ممدوح مولانا اسماعیل تو سلیقۂ اختلاف برتنا اور نباہنا دونوں خوب جانتے تھے۔
مولانا اسماعیل کی رائے تھی کہ “….مذہبی مباحثات میں……..تلخی اور تیزی سے بالکلیہ پرہیز کرنا چاہیے،، اور اگر تلخی کا مظاہرہ کوئی کرتا ہے تو چاہے وہ اپنا ہی کیوں نہ ہو مولانا اس کا شکوہ بھی کرتے ہیں، حکیم محمد اشرف سندھو کی کتاب ‘نتائج التقلید، کا لب و لہجہ تلخ تھا مولانا نے اس تلخی کا بجا طور پر اعتراف کیا، رئیس احمد جعفری کے نام خط میں بھی مولانا نے لکھا کہ “…..فروع میں تحقیق کے دامن سے وابستگی کے بعد کوئی شخص جو راہ چاہے اختیار کرے لیکن تلخ نوائی نہیں ہونی چاہئے…..، اسی خط میں مولانا مناظرانہ انداز اور قیل و قال سے بچتے ہوئے کہتے ہیں کہ “یہ (تلخ) انداز جہاں ہو، جس نے اختیار کیا ہو، میں چاہتا ہوں کہ تشدد کے جواز کیلئے (اسے) دلیل نہ قرار دیا جائے بلکہ اس عادت کو روکنے کی کوشش کی جائے۔
ہمارا بھی تو یہی مطالبہ ہے کہ ہم اس کے برعکس کچھ آپ سے چاہتے ہیں؟ ہم بھی تو یہی کہتے ہیں کہ تلخی، تیزی، بدزبانی اور تشدد سے پرہیز کیا جائے اسی طرح سے جب ہم توسع اور روشن خیالی کی بات کرتے ہیں تو ہمارا مقصود یہی ہوتا ہے کہ فقہی فروع کو ہم اسی پس منظر میں لیں اور بلاوجہ کی تکفیر و تفسیق سے اپنا دامن بچائیں، ہمارا مطالبہ یہ نہیں ہے کہ آپ اپنا دین دھرم اور منہج گروی رکھ دیں اور اپنی شناخت بھول جایئں، ہم تو صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ ”مسلک اہل حدیث ان تمام مسلم اور سنی المسلک جماعتوں میں سب زیادہ وسیع ہے جس میں مصالح دینیہ کی سب سے زیادہ مراعات رکھی گئی ہیں،، (واوین میں مولانا اسماعیل کے خیالات ہیں) اسی طرح سے “تحریک اہل حدیث محض فروعی مسائل اور فقہی مسائل تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ صفات باری تعالٰی، جبر و قدر خروج و تشیع ایسے تنازعات میں اس نے اپنے نظریات کو پورے اعتدال کے ساتھ پیش کیا” جی ہاں صحیح سنا آپ نے، مولانا اسماعیل اسی ” اعتدال،، کو جماعت اہل حدیث کی خصوصیت بتلا رہے ہیں جسے اب ہم اباحیت پسندی سمجھتے ہیں!
ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ اعتدال کے نام پر بے اعتدالی نہیں ہو رہی ہے، بے اعتدالی ہو رہی ہے اور جم کر ہو رہی ہے لیکن اس کا کیا مطلب ہے کہ چراغ شب کو بھی اندھیرے کا حصہ سمجھ لیا جائے اور اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے؟ مولانا اسماعیل تو یہاں تک کہتے ہیں کہ “تحریک اہل حدیث کے داعیوں نے صرف فقہی گروہ بندیوں ہی میں اعتدال نہیں پیدا کیا اور نہ صرف اعتزال و تجہم اور جبر و قدر کی پرپیچ زلفوں کو درست کیا بلکہ اپنے وقت کی سیاسات پر کڑی نگرانی کی، سیاسیین سے اگر لڑنے کا موقع آیا تو پوری جرآت اور بے جگری سے لڑے اور جب وہ سیدھے ہو گئے تو پوری دیانت داری سے ان کے ساتھ تعاون کیا،، تو اہل حدیث ایسے ہی ہوتے ہیں وہ اعتدال کا دامن کبھی نہیں چھوڑتے!
مولانا تحریک اہل حدیث کے داعیوں سے یہ کہتے ہیں کہ دیکھو “حزبی پابندیوں سے دنیا تنگ آ چکی ہے، اسلامی وسعتیں آپ کی منتظر ہیں، جمود و تقلید کی ظلمتیں آپ سے روشنی کی آرزو مند ہیں یعنی آج آپ کی اس سے کہیں زیادہ ضرورت ہے جتنی کہ چند سال پہلے آپ کی ضرورت تھی، اسی سنت کی شمع کو ہاتھ میں لے کر ایک اجتماعی تحریک کی حیثیت سے کام کیجئے، نئی اور پرانی تحریکات میں اصول کے تقاضوں کے مطابق تعاون کیجئے مگر خدا کیلئے گداگری چھوڑ دیجئے، احساس کمتری اس ماحول میں پھٹکنے نہ پائے، پہلے اپنے مسلک کو سمجھیے، اپنے ماضی اور اسلاف کے مساعی اور کارناموں پر غور کیجئے اور مخلص رفقاء کو ہمراہ لے کر پابہ رکاب ہو جایئں، اللہ تعالیٰ آپ کا حامی اور ناصر ہے”۔
حزبی پابندیوں سے دنیا تنگ آ چکی ہے اور آپ ہمیں اسی حزبی پابندیوں میں جکڑنا چاہ رہے ہیں، مولانا ہمیں “اسلامی وسعتوں” کی طرف بلا رہے ہیں اور آپ ہیں کہ ہمیں تنگ نظری کی طرف بلا رہے ہیں، تقلید کی ظلمتیں آپ سے روشنی چاہ رہی ہیں اور آپ ہیں کہ تاریک راہوں کے مسافر بنے پھر رہے ہیں، آپ کا کام یہ ہے کہ آپ سنت کی شمع کو جلائے رکھیں، بجھنے نہ دیں اور اسی کی روشنی میں مل جل کر کام کریں، ہم سب کو اصول کے تقاضوں کے مطابق تعاون کرنا ہے لیکن آپ سمجھتے ہیں کہ تمہیں اصل تو کیا فرع کا بھی علم نہیں ہے، تم ڈھل مل یقین ہو اس لئے بہک جاؤ گے۔
اہل بدعت سے تعامل کو آپ ناجائز اس لئے سمجھتے ہیں کہ آپ عدم تحفظ کا شکار ہیں اور اسی لئے آپ احساس کمتری کا مظاہرہ بھی کر رہے ہیں، احساس کمتری و برتری دونوں کا نتیجہ برا ہوتا ہے، اچھی بات یہ ہے کہ انسان حقیقت پسند ہو، زود حس نہ ہو، حساس انسان جذباتی ہوتا ہے اور جب وہ جذبات کے ریلے میں بہتا ہے تو پھر چاہتا ہے کہ پوری جماعت بھی اسی کے ساتھ ڈوب جائے، اپنے مسلک کو سمجھنے کی کوشش کریں، بنا سمجھے آپ آگے نہیں بڑھ سکتے، اس کی تاریخ پڑھیں تاکہ اپنے ماضی سے آپ کا رشتہ بنا رہے، یہ نہ ہو کہ چمکتے حال اور سنہرے مستقبل کی چکاچوند میں آپ کی آنکھیں خیرہ ہو کر رہ جائیں۔
مولانا اسماعیل سلفی کے سلیقۂ اختلاف کی دہائی ہم اکثر و بیشتر دیتے رہے ہیں لیکن اب تک مولانا کی نگارشات کی روشنی میں ہم اس کا جائزہ نہ لے سکے تھے اور نہ ہی اس سلیقۂ اختلاف کا اب تک ہم نے کوئی نمونہ پیش کیا تھا، خوش قسمتی سے مرشد کی لائبریری میں ہمیں ‘مقالاتِ حدیث، دستیاب ہو گئی، یہ مولانا کے مضامین کا مجموعہ ہے جسے حافظ شاہد محمود نے مرتب کیا ہے، اپنے اس کج مج جائزے میں ہم نے مولانا کے جو اقتباسات پیش کئے ہیں وہ اسی کتاب سے ماخوذ ہیں، جس کیلئے ہم مرتب، مرشد اور ناشر کے شکر گزار ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ اعتراض کیا جائے کہ ہم نے مولانا کی عبارتوں میں کتر بیونت کر کے اپنے مطلب کے نتائج پیش کئے ہیں، ہم اپنی طرف سے کچھ نہ کہہ کر کے عبداللہ ناصر رحمانی کی گواہی پیش کر رہے ہیں:
“کتاب ہذا (مقالاتِ حدیث) علمی ردود اور جدال بطریق احسن کی بھی انتہائی خوبصورت مثال ہے……….کتاب ہذا کا مطالعہ کرنے والا یقیناً اس حقیقت کا معترف ہوگا کہ حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ نے حدیث پر وارد ہونے والے شبہات اور مطاعن کے ازالہ کیلئے کیسا نفیس انداز اختیار کیا ہے، آپ کا تعاقب دلائل کی قوت سے مالامال ہوتا ہے لیکن جن شخصیات کی طرف سے وہ اوہام و شبہات آتے ہیں ان کے ذکر میں اکرام و احترام کا پہلو کس قدر غالب ہوتا ہے، کتاب ہذا میں کچھ اہل قلم مثلاً اصلاحی صاحب، مودودی صاحب اور تمنا عمادی صاحب کے بعض مقالات کا علمی رد موجود ہے اور وہ تمام کا تمام مذکورہ منہج کی روشنی میں ہے یعنی دلائل ساطعہ اور براہین قاطعہ کی بھرمار لیکن لہجہ انتہائی پروقار اور مٹھاس سے بھرپور گویا
وَجَٰدِلْهُم بِٱلَّتِى هِىَ أَحْسَن اور ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَن
کی عملی تصویر ہے اور یہی وہ منہج مستقیم ہے جو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کا انتہائی لائق توجہ اور قابل اتباع پہلو ہے۔
“فَبِمَا رَحْمَةٍۢ مِّنَ ٱللَّهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ ٱلْقَلْبِ لَٱنفَضُّواْ مِنْ حَوْلِك”، “إِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٖ”.
یہ گواہی عبداللہ ناصر رحمانی کی ہے اور اس گواہی سے معلوم ہوتا ہے کہ علم والوں میں حلم کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔ خود مولانا اسماعیل نے اپنے ایک شاگرد کو نصیحت کیا تھا کہ “تبلیغ میں الفاظ کی شدت اور فتوی بازی سے پرہیز کریں اس سے نفرت بڑھتی ہے وَجَٰدِلْهُم بِٱلَّتِى هِىَ أَحْسَن پر عمل کریں، لوگوں سے ذاتی تعلقات بڑھائیں، غم و خوشی میں ان سے مناسب ربط قائم رکھیں یہ بے حد مؤثر چیز ہے۔
مولانا کے ان نصائح کو حرز جان بنا لیں اور اختلاف کے وقت شائستگی کا دامن بالکل بھی نہ چھوڑیں، اس لئے کہ زبان کی تیزی سے دوریاں بڑھتی ہیں، غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں اور اگر داعی کی زبان میٹھی ہے تو مدعو خود بخود کھنچا چلا آتا ہے۔
(رشید ودود)