مولوی ومسٹر اور سوشل میڈیا
سرپر سفید ٹوپی، کندھے پر لال رومال رکھے مولانا رمضان صاحب مسجد سے نکلے، اور قدرے تیز لیکن متانت وسنجیدگی سے نظریں جھکائے ایک طرف کو چل دیے، تھوڑی دیر بعد وہ حمدان کمپیوٹرز اینڈ موبائلز نامی قدرے وسیع وعریض دکان میں موجود تھے۔ یہاں کمپیوٹرز، موبائلز کی ریپیئرنگ کے علاوہ ڈیزائننگ، ایڈیٹنگ ، ڈویلپنگ جیسی سروسز ’مناسب داموں‘ میں مہیا کی جاتی ہیں ۔اس سروس سنٹر کے ایک جانب شیشے کی پلائی سے پارٹیشن کرکے ایک چھوٹا سا دفتر بنا ہوا ہے، جس میں شرٹ پتلون میں ملبوس ایک نوجوان بیٹھا ہوا ہے۔ چہرے پر ہلکی ہلکی داڑھی، اور دیوار کے ایک جانب لٹکتی ہوئی حروف مقطعات کی تختی اس نوجوان کی مذہب سے دلچسپی کا پتہ دے رہی تھی۔
مولانا صاحب ان صاحب کے پاس گئے، علیک سلیک کے بعد عرض کی کہ حمدان بھائی ! آپ جانتے ہیں لاک ڈاؤن کی وجہ سے مسجد میں ہونے والی ترجمہ کلاس کو آن لائن کلاس میں تبدیل کردیا گیا تھا، اور اس کے لیے فیس بک پیج بھی آپ نے ہی بنا کردیا تھا، لیکن ہوا یوں ہے کہ چند دن قبل فإن أمنوا بمثل ما آمنتم بہ فقد اھتدوا کی تفسیر میں صحابہ کی عظمت کا ذکر کرتے ہوئے ، ساتھ ساتھ دشمنان صحابہ کی مذمت کی گئی، حالات کی مناسبت سے حرمت رسول کا تذکرہ ہوا، اور ساتھ دفاع علماء وشعائر کی بات بھی آگئی ۔آخر میں عصر حاضر کے چند جید علماء واسکالرز کے نام اور ان کے لیکچرز کی طرف رہنمائی بھی تھی ۔اگلے دن جمعہ کو ویسے ہی کلاس کی چھٹی ہوتی ہے، ہفتہ والے دن مغرب کے بعد جب ہم نے کلاس لائیو کرنے کی کوشش کی تو نوٹیفکیشن آگیا کہ ’’ آپ کے اس پیج سے شیئر ہونے والا مواد ہمارے ’کمیونٹی سٹینڈرڈز‘ کے خلاف تھا، لہذا تین ماہ کے لیے آپ پر لائیو آنے کی پابندی ہے‘‘۔ اور بطور حوالہ جمعرات کے دن کی ترجمہ کلاس کوٹ کی ہوئی تھی۔مولانا یہ بات بیان کرتے ہوئے رکے اور ایک لمبی آہ بھر کر تعجب وحیرانی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ پھر گویا ہوئے:
حمدان بھائی! حالانکہ دوسری طرف اس سوشل میڈیا کے سٹینڈرڈز اس قدر گھٹیا ہیں کہ ہر بزدل شخص جو کسی مسلمان کا سامنا کرنے سے کتراتا ہے، وہ اسلام ومسلمان اور ان کے شعائر ومقدسات کی تضحیک کے لیے اسی سوشل میڈیا کو استعمال کرتا ہے؟
مولانا صاحب شاید آگے مزید بھی بہت بولتے، لیکن حمدان صاحب مخصوص انداز میں گویا ہوئے کہ
دیکھیے مولانا صاحب! یہ سوشل میڈیا ہے، اس کو بنانے والوں نے بڑی محنت سے بنایا ہے، اور آپ جب اس پر لاگ ان ہوتے ہیں، تو اقرار کرتے ہیں، کہ میں ان کے مقرر کردہ تمام اصول وضوابط کی پابندی کروں گا. آپ اس سوشل میڈیا پر دعوتی کام کرنا چاہتے ہیں، تو پہلے یہاں کے ماحول کو سمجھیں، یہاں کیا لب ولہجہ اور اسلوب چلتا ہے، کیونکہ آپ کو بہرصورت ان سوشل میڈیائی اخلاقیات کا پابند ہونا ہی پڑے گا۔مولانا صاحب محسوس نہ کیجیے گا، آج علماء کو دو رکعت کی امامت کے علاوہ کیا آتا ہے؟
بات سیدھی اور مختصر ہے کہ ہر عالم اور مولانا صاحب کو تصویر اور ویڈیو لگانے کا شوق تو ہے، لیکن فیس بک، ٹویٹر، یوٹیوب، انسٹاگرام.جیسا کوئی بھی پلیٹ فارم ’علماء‘ نے مہیا کیا ہے؟ بلکہ کیا ’علماء‘ نے کبھی اس پر سوچا بھی ہے؟
مولانا صاحب یوں سرہلانے لگے جیسے، انہیں بات سمجھ آگئی ہے، اور ان کا مسئلہ حل ہوگیا ہے. حمدان کی بات مکمل ہوتے ہی فورا بولے:
حمدان بھائی! ہم دو رکعت کے اماموں کے لیے آپ جیسے ذہین وفطین اور زمانے کی دوڑ دوڑنے والے انجینئر وڈویلپر حضرات نے جو ایپ اور پلیٹ فارم بنایا ہے، ہماری مسجد کا اکاؤنٹ بھی اسی میں بنادیں، آئندہ سے ہم اسی پر لائیو آئیں گے، ہمارے مسلمان بھائی جب ہمیں ہر چیز مہیا کر رہے ہیں، تو ہمیں کافروں کی طرف جانے کی کیا ضرورت ہے؟
حمدان ہکا بکا ہو کر رہ گیا، پھٹی پھٹی آنکھوں، اور شرمندہ چہرے کے ساتھ کبھی مولانا کی طرف دیکھ رہا تھا، کبھی اپنے سامنے رکھے لیپ ٹاپ کی سکرین پر اور کبھی اپنے لڑکوں کی طرف کچھ ہی دیر بعد اس نے ایک واٹس ایپ گروپ میں میسیج کیا۔
’’السلام علیکم، ہیلو فرینڈز کیسے ہیں؟ یار ہم مسلم انجینئرز کو مل جل کر اپنی سوشل میڈیا ایپس اور پلیٹ فارمز پر کوشش کرنی چاہیے، یہ نیلے پیلے لال منہ والی کافر ایپس تو ہمارے ساتھ کھلی ناانصافی وزیادتی کررہی ہیں۔ ہم ساری عمر مولوی کو طعنہ دیتے رہے کہ تم نے کیا کیا ہے؟ لیکن یارو! غور کرو یہ چیزیں مہیا کرنا تو ہماری ذمہ داری تھی، بھائیو! آؤ مل جل کر ہم بھی اپنی اہلیت وقابلیت کو مسلمانوں کی فلاح وبہتری کے لیے استعمال کریں. سب فری لانسنگ ویب سائٹس کو دفعہ کردیں، آئیں مل کر اپنے پراجیکٹس تیار کرتے ہیں، عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں، کروڑوں اربوں روپے عوام جلسے جلوس کے لیے دے رہی ہے، امید ہے اگر ہم قوم کو سمجھانے میں کامیاب ہوگئے، تو سوشل میڈیا کے میدان کے لیے بھی وہ خرچ کرنے میں دریغ نہیں کریں گے، اور اس حوالے سے کئی ایک معتبر علماء ہمارے ساتھ ہیں. ان شاءاللہ‘‘
حمدان کے دل کی آواز سب کے دل پر جا کر لگی، اور ان سب نے پرجوش حمایت وتائید کی، بات مولانا رمضان صاحب کے سامنے بھی آگئی، انہوں نے بھرپور تعاون کی یقین دہائی کرواتے ہوئے کہا، ان شاءاللہ میں مسجد ومدرسہ اور جلسہ وکانفرنس سے بھی اس طرف لوگوں کو توجہ دلاؤں گا. کیونکہ مولانا رمضان اور مسٹر حمدان دونوں کو ہی یہ بات سمجھ میں آچکی تھی کہ
کافر سوشل میڈیا پر کافرانہ اخلاقیات کی پابندی ضروری ہے، اگر اسوہ حسنہ، اور مسلم سوچ وفکر اور کلچر فرینڈلی میڈیا وسوشل میڈیا چاہیے، تو غیروں کے اگلے لقمے چبانے کی بجائے، سب کچھ اپنا بنانا ہوگا. اور اس کے لیے مولوی ومسٹر ہر دو طبقات کو میدان میں آنا ہوگا.
نوٹ: یہ ایک فرضی خاکہ ہے، جو ’العلماء‘ کی طرف سے پیش کیا گیا ہے، امید ہے یہ علماء ومعاشرہ ہر دو طرف موجود درد دل رکھنے والے احباب کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہوگا. ان شاءاللہ، جن احباب کو اس میں دیا گیا، پیغام سمجھ آیا ہے، اور وہ اس نکتے پر کام کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں، ’العلماء‘ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور ویب سائٹ کے ذریعے رابطہ کرسکتے ہیں۔