تتبعِ عورات یعنی عیب تلاش کرنا ایک خطرناک گناہ ہے۔ جس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
“لا تتَّبِعوا عوراتِهم؛ فإنَّه من تتبَّع عورة أخيه المسلم تتبَّع الله عورتَه، ومَنْ تتبَّع اللهُ عورتَه يفضحه ولو في جوف بيته”. [سنن ابي داود: 4880، صحيح الجامع:7984]
’ لوگوں کے عیب تلاش نہ کرو، کیونکہ جو اپنے بھائی کے عیب تلاش کرتا ہے، اللہ تعالی اس کے عیب تلاش کرتا ہے، اور اسے ذلیل و رسوا کردیتا ہے، اگرچہ وہ اپنے گھر کے کسی کونے کھدرے میں ہی کیوں نہ چھپ جائے‘۔
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“مَنِ اسْتَمَعَ إِلَى حَدِيثِ قَوْمٍ، وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ، أَوْ يَفِرُّونَ مِنْهُ، صُبَّ فِي أُذُنِهِ الآنُكُ يَوْمَ القِيَامَةِ”. [صحيح البخاري:7042]
’جس نے کسی قوم کی باتوں پر کان لگایا، حالانکہ وہ اس کے سننے کو ناپسند کرتے ہوں، یا اس سے راہِ فرار اختیار کرتے ہوں، تو ایسے شخص کے کانوں میں روزِ قیامت سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا‘۔
عيب تلاش کرنے، اور خیانت و چوری کی کچھ ڈیجیٹل صورتیں ذیل میں بیان کی جاتی ہیں:
1۔ کسی کا موبائل پکڑ کر اس کی تلاشی لینا۔ کال ہسٹری چیک کرنا۔ گیلری دیکھنا۔ میسجز وغیرہ چیک کرنا، trash bin وغیرہ میں جاکر دیکھنا کہ اس میں کیا کیا پڑا ہوا ہے۔
2۔ کسی کام کے لیے کسی کا کمپیوٹر استعمال کرنے کی اجازت ملی ہے، تو اس کی ہسٹری چیک کرنا، ایکٹیوٹی لاگ دیکھنا، recycle bin دیکھنا۔ اسی طرح ہارڈ ڈسک میں موجود ڈیٹا کی جانچ پڑتال کرنا کہ اس نے کمپیوٹر میں کیا کیا رکھا ہے۔
3۔ ایپس، سافٹ وییئرز اور براوزرز وغیرہ کی ہسٹری چیک کرنا کہ اس ڈیوائس کو استعمال کرنے والا، کس قسم کی چیزیں دیکھتا، پڑھتا یا استعمال کرتا ہے۔ مختلف لوگوں کے ساتھ اس کی چیٹس کی تفتیش کرنا کہ یہ لوگوں کے ساتھ کس قسم کی گفتگو کرتا ہے۔
4۔ بعض لوگ موبائل وغیرہ پکڑتے ہی اس سے ڈیٹا چرا لیتے ہیں، مثلا موبائل نمبرز، اکاؤنٹس، لاگ ان، وائی فائی وغیرہ کی تفصیلات۔ اسی طرح بعض لوگوں کے پاس کوئی ڈیوائس صحیح ہونے کے لیے آئے، تو اس کا مکمل ایکسرے کرکے، چيزیں نکال لیتے ہیں، یہ عیب تلاش کرنے سے بڑھ کر، چوری اور خیانت کی بھی بدترین صورت ہے۔
5۔ بعض لوگوں کو دوسرے کے پرانے موبائل/ لیپ ٹاپس/ میموری کارڈز/ ہارڈ ڈسک وغیرہ سے ڈیلیٹ شدہ ڈیٹا ریکور کرنے میں بہت دلچسپی ہوتی ہے۔ بلکہ سننے میں آیا ہے کہ موبائل اور کمپیوٹرز خرید و فروخت کرنے والوں میں ایک بڑا مافیا کا کاروبار ہی یہ ہے کہ یہ فروخت شدہ ڈیوائسز سے لوگوں کا ذاتی ڈیٹا ریکور کرکے آگے مہنگے داموں میں بیچتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو جلد یا بہ دیر برے انجام سے ڈرنا چاہیے۔
چیٹس میں حذف شدہ میسیجز ریکور کرنا بھی اسی ضمن میں آتا ہے، جس پر الگ سے لکھ چکا ہوں۔
6۔ کچھ ماہرین اپنی ہیکنگ مہارتوں کو الٹے سیدھے کاموں میں صرف کرتے ہیں، مثلا ایسی ویب سائٹس، ایپس، سافٹ ویئرز تیار کرتے ہیں، کہ جو شخص بھی انہیں کھول لیتا ہے، اس کی ڈیوائس کا ڈیٹا یا کنٹرول اس ہیکرز کے پاس چلا جاتا ہے۔ یہ بھی اعلی درجے کی خیانت ہے۔
7۔ تتبع عورات کی ہی ایک صورت یہ ہے کہ آپ کسی کو اپنے پاس بلائیں، اور وہاں پر خفیہ کیمرے نصب کردیں، اور اس کی نشست و برخاست کو سب ریکارڈ کرلیں۔ اسی طرح ایسی ایپس اور سافٹ ویئرز بھی ہیں، جو کسی موبائل یا کمپیوٹر میں کردیے جائیں، تو وہ اس ڈیوائس میں ہونے والی تمام چیزوں کو ریکارڈ کرلیتے ہیں۔ یہ بھی تتبعِ عورات کی ایک قبیح صورت ہے۔
8۔ وائی فائی لوگوں کی عام ضرورت ہے، اور کسی بھی وائی فائی کے ساتھ جتنی ڈیوائسز کنیکٹ ہوتی ہیں، اور وہ اس کے ذریعے جتنا بھی انٹرنیٹ استعمال کرتی ہیں، وہ سارا کچھ ہسٹری کی صورت میں انٹرنیٹ دینے والے کے پاس ریکارڈ کی صورت محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ لوگوں کو وائی فائی دے کر، ان کی ہسٹری کو چیک کرنا کہ یہ کیا کیا دیکھتے اور استعمال کرتے ہیں، یہ بھی اسی تتبعِ عورات یعنی عیب تلاش کرنے میں آتا ہے۔
9۔ بعض لوگوں کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے اپنے پاس وائس ریکارڈ کرنے والی خفیہ ڈیوائسز رکھی ہوتی ہیں، لہذا جس کسی سے بھی بات کرتے ہیں، وہ سارا کچھ اس میں محفوظ ہوجاتا ہے، حالانکہ بات کرنے والا سمجھ رہا ہوتا ہے کہ یہ بات میرے اور ان کے درمیان ہی ہے۔ اس حوالے سے ایک دلچسپ اور حیران کن بات بھی بعض لوگوں سے متعلق پتہ چلی کہ وہ اپنی جیب میں دو دو موبائل رکھتے ہیں، لہذا جب مجلس ہوتی ہے، تو سب کو کہہ دیا جاتا ہے کہ موبائل سائیڈ پر رکھ دیں یا جمع کروادیں، اور سب سے پہلے اپنا موبائل نکال کر رکھ دیتے ہیں، دیکھا دیکھی سب ایسے کرلیتے ہیں، جبکہ خود انہوں نے ایک دوسرا موبائل/ ڈیوائس جیب میں رکھ کر اس کی ریکارڈنگ چلائی ہوئی ہوتی ہے….!
10۔ کسی کو ویڈیو یا آڈيو کال کرتے ہوئے، یا چیٹ کرتے ہوئے اس کے علم میں لائےبغیر ریکارڈنگ یا اسکرین شارٹ لے لینا، اس کو بھی اہلِ علم نے خیانت میں شمار کیا ہے۔
اللہ تعالی ہمیں ان سب اخلاقِ رذیلہ اور منفی سرگرمیوں سے محفوظ رکھے۔
کیونکہ یہ ایک تو گناہ کا ذریعہ ہیں، دوسرا یہ آپس میں نفرت، بغض اور فتنہ فساد کا ذریعہ بنتی ہیں۔ اسی طرح ایسی چیزوں میں دلچسپی رکھنے والے لوگ نفسیاتی طور پر الجھنوں کا شکار ہو کر، مثبت اور مفید کاموں سے دور ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالی سب کی عزتوں کی حفاظت کرے، اور غلطیوں کی پردہ پوشی فرمائے۔
#خیال_خاطر