سوال (2292)
صلوٰۃ التسبیح چار رکعت نماز ہوتی ہے، یہ نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو بطور تحفہ و عطیہ کے سکھائی تھی، اس کی فضیلت یہ ارشاد فرمائی ہے کہ اس کے پڑھنے سے سارے گناہ(چھوٹےبڑے) معاف ہوجاتے ہیں۔ اس نماز کے پڑھنے کے دو طریقے ہیں:
ایک طریقہ یہ ہے کہ چار رکعات صلوٰۃ التسبیح کی نیت باندھ کر پہلی رکعت میں کھڑے ہوکر ثناء، تعوذ، تسمیہ، سورہ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھنے کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے پندرہ مرتبہ یہ تسبیح پڑھیں
“سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمدُلِلّٰہِ وَلَاإلٰہَ إلَّاإللّٰہ ُوَاللّٰہ ُأکْبَرُ”پھر رکوع میں ” سُبحَان َرَبِّي َالعَظِیْم”کے بعد دس مرتبہ تسبیح پڑھیں ، پھرقومہ میں ” سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ”،”رَبَّنَالَکَ الْحَمدُ” کے بعد دس مرتبہ تسبیح پڑھیں ، پھر پہلے سجدہ میں ” سُبْحَانَ رَبِّیَ الاَعلٰی “کے بعد دس مرتبہ پڑھیں، پھر پہلے سجدہ سے اٹھ کرجلسہ میں دس مرتبہ پھر دوسرےسجدہ میں ” سُبْحَان َرَبِّیَ الاَعْلٰی”کے بعد دس مرتبہ تسبیح پڑھیں،پھر دوسرے سجدے سے اٹھتے ہوئے ” اَللہ ُاَکْبَرْ ” کہہ کر بیٹھ جائیں اور دس مرتبہ تسبیح پڑھیں۔ پھر بغیر” اَللہُ اَکْبَرْ ” کہے دوسری رکعت کے لیےکھڑے ہوجائیں پھر اسی طرح دوسری، تیسری اور چوتھی رکعت مکمل کریں۔ دوسری اور چوتھی رکعت کے قعدہ میں پہلے دس مرتبہ تسبیح پڑھیں اور پھر التحیات پڑھیں۔ اسی ترتیب سے چاروں رکعات میں تسبیح پڑھیں، اس طرح چار رکعات میں کل تسبیحات تین سو مرتبہ ہوجائیں گی۔
دوسراطریقہ یہ ہے کہ پہلی رکعت میں کھڑے ہوکر ثناءکے بعد پندرہ مرتبہ تسبیح پڑھیں، پھر تعوذ، تسمیہ، سورہ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھ کر رکوع میں جانے سے پہلے دس مرتبہ یہ تسبیح پڑھیں، رکوع ، قومہ، پہلے سجدہ، جلسہ اور دوسرے سجدے میں دس دس مرتبہ تسبیح پڑھیں،اس کے بعد “اللہ اَکبَر”کہتے ہوئے سیدھے کھڑے ہوجائیں۔
اسی ترتیب سے دوسری، تیسری اور چوتھی رکعت میں تسبیح پڑھیں۔ دوسری رکعت میں کھڑےہوتے ہی پندرہ مرتبہ تسبیح پڑھیں گے۔(سنن الترمذی،ابواب الوتر،باب ماجاء فی صلاۃالتسبیح،1/117،قدیمی) اسی ترتیب سے باقی رکعات اداکریں۔ یہ دونوں طریقے صحیح اور قابلِ عمل ہیں، جو طریقہ آسان معلوم ہو اس کو اختیار کیا جائے۔ اس نماز کا کوئی خاص وقت نہیں، اسے مکروہ اوقات کے علاوہ جب بھی ہو سکے پڑھ سکتے ہیں۔ فقط واللہ اعلم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔
مہربانی فرما کر رہنمائی فرما دیں کہ کیا یہ طریقہ صلوة تسبیح کا درست ہے؟
جواب
راجح یہی ہے کہ ائمہ متقدین وعلل کے نزدیک نماز تسبیح ثابت نہیں ہے بلکہ منکر ومعلول ہے اور جن ائمہ نے اس روایت کو منکر وضعیف کہا ہے وہ نقد وعلل حدیث کے شہسوار ہیں ان بعض اہل علم کی نسبت جنہوں نے اسے صحیح یا حسن کہا ہے۔
یعنی وہ ائمہ أعلم وأجل وأحفظ ہیں
اس باب کی سب سے بہتر نظر آنے والی سند ﻣﻮﺳﻰ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻌﺰﻳﺰ کی سند سے ہے اور اسے امام العلل علی بن المدینی نے منکر قرار دیا ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی نے کہا:
ﻗﻠﺖ: ﺫﻛﺮﻩ اﺑﻦ اﻟﻤﺪﻳﻨﻲ ﻓﻲ اﻟﻌﻠﻞ ﻓﻘﺎﻝ: ﻫﻮ ﺣﺪﻳﺚ ﻣﻨﻜﺮ، ﻭﻗﺎﻝ: ﺭﺃﻳﺘﻪ ﻓﻲ ﺃﺻﻞ ﻛﺘﺎﺏ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ اﻟﺤﻜﻢ ﺑﻦ ﺃﺑﺎﻥ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ﻣﻮﻗﻮﻓﺎ ﻋﻠﻰ ﻋﻜﺮﻣﺔ، ﻭﻣﻮﺳﻰ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻌﺰﻳﺰ ﺭاﻭﻳﻪ ﻣﻨﻜﺮ اﻟﺤﺪﻳﺚ، ﻭﺿﻌﻪ
[إتحاف المهرة لابن حجر: 7/ 484، 8281]
اور کہا:
ﻭ ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺟﻌﻔﺮ اﻟﻌﻘﻴﻠﻲ ﻟﻴﺲ ﻓﻲ ﺻﻼﺓ اﻟﺘﺴﺒﻴﺢ ﺣﺪﻳﺚ ﻳﺜﺒﺖ، ﻭﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ ﺑﻦ اﻟﻌﺮﺑﻲ ﻟﻴﺲ ﻓﻴﻬﺎ ﺣﺪﻳﺚ ﺻﺤﻴﺢ ﻭﻻ ﺣﺴﻦ ﻭﺑﺎﻟﻎ اﺑﻦ اﻟﺠﻮﺯﻱ ﻓﺬﻛﺮﻩ ﻓﻲ اﻟﻤﻮﺿﻮﻋﺎﺕ ﻭﺻﻨﻒ ﺃﺑﻮ ﻣﻮﺳﻰ اﻟﻤﺪﻳﻨﻲ ﺟﺰءا ﻓﻲ ﺗﺼﺤﻴﺤﻪ ﻓﺘﺒﺎﻳﻨﺎ. ﻭاﻟﺤﻖ ﺃﻥ ﻃﺮﻗﻪ ﻛﻠﻬﺎ ﺿﻌﻴﻔﺔ ﻭﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﺣﺪﻳﺚ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﻳﻘﺮﺏ ﻣﻦ ﺷﺮﻁ اﻟﺤﺴﻦ ﺇﻻ ﺃﻧﻪ ﺷﺎﺫ،ﻟﺸﺪﺓ اﻟﻔﺮﺩﻳﺔ ﻓﻴﻪ ﻭﻋﺪﻡ اﻟﻤﺘﺎﺑﻊ ﻭاﻟﺸﺎﻫﺪ ﻣﻦ ﻭﺟﻪ ﻣﻌﺘﺒﺮ ﻭﻣﺨﺎﻟﻔﺔ ﻫﻴﺌﺘﻬﺎ ﻟﻬﻴﺌﺔ ﺑﺎﻗﻲ اﻟﺼﻠﻮاﺕ ﻭﻣﻮﺳﻰ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻌﺰﻳﺰ ﻭﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﺻﺎﺩﻗﺎ ﺻﺎﻟﺤﺎ ﻓﻼ ﻳﺤﺘﻤﻞ ﻣﻨﻪ ﻫﺬا اﻟﺘﻔﺮﺩ ﻭﻗﺪ ﺿﻌﻔﻬﺎ اﺑﻦ ﺗﻴﻤﻴﺔ ﻭاﻟﻤﺰﻱ ﻭﺗﻮﻗﻒ اﻟﺬﻫﺒﻲ ﺣﻜﺎﻩ اﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻬﺎﺩﻱ ﻋﻨﻬﻢ ﻓﻲ ﺃﺣﻜﺎﻣﻪ ﻭﻗﺪ اﺧﺘﻠﻒ ﻛﻼﻡ
اﻟﺸﻴﺦ ﻣﺤﻴﻲ اﻟﺪﻳﻦ ﻓﻮﻫﺎﻫﺎ ﻓﻲ ﺷﺮﺡ اﻟﻤﻬﺬﺏ ﻓﻘﺎﻝ ﺣﺪﻳﺜﻬﺎ ﺿﻌﻴﻒ ﻭﻓﻲ اﺳﺘﺤﺒﺎﺑﻬﺎ ﻋﻨﺪﻱ ﻧﻈﺮ ﻷﻥ ﻓﻴﻬﺎ ﺗﻐﻴﻴﺮا ﻟﻬﻴﺌﺔ اﻝﺻﻼﺓ اﻟﻤﻌﺮﻭﻓﺔ ﻓﻴﻨﺒﻐﻲ ﺃﻥ ﻻ ﺗﻔﻌﻞ ﻭﻟﻴﺲ ﺣﺪﻳﺜﻬﺎ ﺑﺜﺎﺑﺖ۔۔۔۔۔۔
[التلخیص الحبیر: 2/ 16 تا 22]
حافظ نووی کا یہ ضعیف وغیر ثابت والا موقف راجح ہے بنسبت تحسین کے۔
امام أحمد نے کہا:
ﻟﻢ ﺗﺜﺒﺖ ﻋﻨﺪﻱ ﺻﻼﺓ اﻟﺘﺴﺒﻴﺢ ﻭﻗﺪ اﺧﺘﻠﻔﻮا ﻓﻲ ﺇﺳﻨﺎﺩﻩ ﻟﻢ ﻳﺜﺒﺖ ﻋﻨﺪﻱ
[مسائل الإمام أحمد رواية ابنه عبد الله : 315 ص:89]
ﻗﻠﺖ: ﺻﻼﺓ اﻟﺘﺴﺒﻴﺢ ﻣﺎ ﺗﺮﻯ ﻓﻴﻬﺎ؟
ﻗﺎﻝ ﺃﺣﻤﺪ: ﻣﺎ ﺃﺩﺭﻱ. ﻟﻴﺲ ﻓﻴﻬﺎ ﺣﺪﻳﺚ ﻳﺜﺒﺖ
[مسائل الإمام أحمد وإسحاق بن راهويه: 9/ 4695]
امام ابن راھویہ نے مجموعی طور پر تقویت ملنے کے سبب میلان رکھا ہے : ﻻ ﺃﺭﻯ ﺑﺄﺳﺎب کہہ کر جو مرجوح ہے اور ان سے بڑے نقاد وعلل کے ماہر ائمہ کی بات صائب ہے
ﻭﻗﺎﻝ اﺑﻦ ﻫﺎﻧﻰء: ﺳﺌﻞ (ﻳﻌﻨﻲ ﺃﺑﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ) ﻋﻦ ﺻﻼﺓ اﻟﺘﺴﺒﻴﺢ؟ ﻗﺎﻝ: ﺇﺳﻨﺎﺩﻩ ﺿﻌﻴﻒ
[سؤالات ابن هاني: 520]
المغنی لابن قدامة میں ہے
ﻓﺄﻣﺎ ﺻﻼﺓ اﻟﺘﺴﺒﻴﺢ، ﻓﺈﻥ ﺃﺣﻤﺪ ﻗﺎﻝ: ﻣﺎ ﻳﻌﺠﺒﻨﻲ. ﻗﻴﻞ ﻟﻪ: ﻟﻢ؟ ﻗﺎﻝ: ﻟﻴﺲ ﻓﻴﻬﺎ ﺷﻲء ﻳﺼﺢ. ﻭﻧﻔﺾ ﻳﺪﻩ ﻛﺎﻟﻤﻨﻜﺮ
[المغني لابن قدامة:2/ 98]
آخر میں حافظ المغنی کا
ﻭﻟﻢ ﻳﺜﺒﺖ ﺃﺣﻤﺪ اﻟﺤﺪﻳﺚ اﻟﻤﺮﻭﻱ ﻓﻴﻬﺎ، ﻭﻟﻢ ﻳﺮﻫﺎ ﻣﺴﺘﺤﺒﺔ، ﻭﺇﻥ ﻓﻌﻠﻬﺎ ﺇﻧﺴﺎﻥ ﻓﻼ ﺑﺄﺱ؛ ﻓﺈﻥ اﻟﻨﻮاﻓﻞ ﻭاﻟﻔﻀﺎﺋﻞ ﻻ ﻳﺸﺘﺮﻁ ﺻﺤﺔاﻟﺤﺪﻳﺚ ﻓﻴﻬﺎ
کہنا مردود ہے کیونکہ اس کے متن پر غور کریں تو متن میں نکارت موجود ہے اور متن کا نکارت وخطاء سے محفوظ ہونا بھی ضروری ہے
متن کی علت ونکارت نیچے شیخ ابن باز رحمه الله تعالى کے الفاظ میں نقل کرتے ہیں ۔
امام عقیلی نے کہا:
ﻭﻟﻴﺲ ﻓﻲ ﺻﻼﺓ اﻟﺘﺴﺎﺑﻴﺢ ﺣﺪﻳﺚ ﻳﺜﺒﺖ
[الضعفاء الكبير للعقيلى: 1/ 124]
وانظر ما قاله شيخ الإسلام ابن تيمية في منهاج السنة النبوية (7/ 434)
(( نور على الدرب ما مدى صح حديث صلاة التسبيح؟ ما مدى صح حديث صلاة التسبيح؟))
سے شیخ ابن باز رحمه الله تعالى کا کافی و شافی جواب ملاحظہ فرمائیں
الجواب:
صلاة التسبيح مشهورة عند أهل العلم، وقد تنازع العلماء في صحتها، فمن أهل العلم من عمل بها وصححها؛ لما في ذلك من الأجر العظيم الذي ذكره النبي ﷺ وغفران السيئات، ومن أهل العلم من ضعف الرواية، ولم يصححها، وذكر أنها رواية شاذة، وحديث شاذ مخالف للأحاديث الصحيحة، وهذا القول الثاني هو أصح، أن صلاة التسبيح حديثها شاذ غير صحيح، وأن المعتمد قول من قال: إنها غير صحيحة، وأنها موضوعة لا أساس لها من الصحة، وأسانيدها كلها معلولة، ومتنها شاذ منكر مخالف للأدلة الشرعية الثابتة عن رسول الله -عليه الصلاة والسلام-.
فإن صلاته في الليل والنهار محفوظة -عليه الصلاة والسلام- وقد رواها الثقات والأثبات في الصحيحين وغيرهما، ولم يحفظ عنه -عليه الصلاة والسلام- أن صلى هذه الصلاة؛ فوجب على أهل الإيمان أن يردوا ما خالف الأدلة المعروفة إلى الأدلة المعروفة، فالأدلة المعروفة الثابتة دالة على صفة صلاته -عليه الصلاة والسلام- وأن ليس فيها هذه التسبيحات المذكورة، بل هذه انفردت بها هذه الرواية، فالصواب أنها شاذة المتن ضعيفة الأسانيد؛ فلا ينبغي التعويل عليها، ولا العمل بها، وإن صححها بعض المتقدمين، وبعض المتأخرين، لكن العمدة في هذا أن كل متن يخالف الأحاديث الصحيحة -وإن صح سنده- فإنه يعتبر شاذًا، فكيف إذا كان الإسناد معلولًا.
قد قال الأئمة في مصطلح الحديث: إن الأحاديث المختلفة يرجع فيها أولًا إلى الجمع -إذا تيسر الجمع- فإذا أمكن الجمع جمع بينها، وقبلت كلها، فإن لم يتيسر الجمع ولم تتوافر شروطه؛ رجع إلى النسخ إذا علم النسخ، إذا علم الناسخ، إذا علم الأخير من المتقدم؛ صار الأخير ناسخًا للمتقدم عند تعذر الجمع، فإذا لم يعلم المتأخر من المتقدم، ولم تتوافر شروط النسخ، ولا شروط الجمع؛ انتقل إلى أمر ثالث، وهو الترجيح.
وهذه الصلاة ليس فيها ما يدل على التأريخ، وأنها متأخرة عن غيرها، وليس فيها ما يدل على أنها سنة استعملها النبي ﷺ سابقًا ولاحقًا، وليس فيها ما يقتضي الجمع بينها وبين غيرها؛ فتعين الأمر الثالث وهو: أنها غير صحيحة، وأنها شاذة مخالفة للأحاديث الصحيحة الثابتة عن رسول الله ﷺ، ومخالفة لسنته المعروفة عنه -عليه الصلاة والسلام- في ليله ونهاره مدة حياته -عليه الصلاة والسلام-، فلم يحفظ عنه أنه فعلها مرة واحدة -عليه الصلاة والسلام- ولم يعرف عنه -عليه الصلاة والسلام- ما يدل على أنها سنة متبعة في أحاديث صحيحة؛ فعلم بذلك أنها شاذة، وأنها مختلقة، وأنه لا أساس لها في الأحاديث الصحيحة الثابتة عن رسول الله -عليه الصلاة والسلام-، نعم
اس روایت کو معروف ثقات حفاظ کرام نے بیان کیوں نہیں کیا ہے۔۔۔۔
یہ نماز خیر القرون میں معروف نہیں تھی جنہوں نے اس کی طرف میلان رکھا ہے وہ علل الحدیث کے میدان میں کوئی کام وعمل نہیں رکھتے ہیں، امام مسلم کا اسناد احسن کہنا اصطلاحی معنی میں ہرگز نہیں ہے بلکہ جب کوئی ناقد امام اس جیسے الفاظ بولے تو مراد یہ ہوتی ہے کہ یہ طریق وسند باقی کی نسبت کم ضعف والی ہے ، یہی توضیح ابن القطان الفاسی نے بیان الوھم والایھام میں ایک اور روایت کے تحت بیان کر رکھی ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
تسبیح نماز ثابت نہیں، نہ جماعت کے ساتھ نہ انفرادی طور پر ، امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں تسبیح نماز کے بارے میں کوئی حدیث ثابت نہیں.
ولَيْسَ فِي صَلاةِ التَّسابِيحِ حَدِيثٌ يَثْبُتُ
[الضعفاء الكبير,جلد : 1,صفحہ: 124]
علل کے امام علی بن مدینی رحمہ اللہ نے منکر قرار دیا ہے.
ذَكَرَهُ ابْنُ المَدِينِيِّ فِي «العِلَلِ» فَقالَ: هُوَ حَدِيثٌ مُنْكَرٌ
[اتحاف المهرة لابن حجر,جلد : 7,صفحہ : 484]
لہذا تسبیح نماز ثابت نہیں.
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ الباحث احمد بن احتشام حفظہ اللہ
سائل:
فقہ السنہ کتاب الصلاۃ از سید سابق رحمہ اللہ کی کتاب کی تخریج جو امام البانی رحمہ اللہ نے تمام المنۃ سے کی ہے اس میں امام البانی رحمہ اللہ نے سنن ابی داؤد کی روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
جواب:
ہمارے نزدیک ہر محقق و صاحب علم و فضل کا اجتہاد و فیصلہ قابل احترام ہے، مگر قبول اسے کریں گے جو دلائل واصول کی روشنی میں راجح ہو گا، اس روایت کے بارے میں ائمہ علل و نقاد کا فیصلہ ہی معتبر اور راجح ہے کیونکہ وہ علل حدیث کو ایسے جانتے تھے جیسے جوہری جواہر کے بارے جانتا ہے اور کرنسی کا ماہر کرنسی کے بارے میں جانتا ہے۔
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
نماز تسبیح کے بارے میں ہمارے علماء کے درمیان اختلاف ہے ، عرب علماء کے نزدیک یہ نماز سرے سے نہیں ہے، کیونکہ اس کے بارے میں جتنی بھی روایات ہیں، تمام صحت کے درجے سے گری ہوئی ہیں، یہی بات راجح ہے، یہی وجہ ہے کہ جب فضیلۃ الشیخ عبد المحسن العباد حفظہ اللہ سے سوال کیا گیا ہے، تو انہوں نے جواب دیا ہے کہ یہ نماز ثابت نہیں ہے، لیکن ہمارے برصغیر کے علماء اس کو جائز قرار دیتے ہیں، لیکن وہ بھی باجماعت اس کے قائل نہیں ہیں، جہاں تک روایات کا تعلق ہے تو صحیح سند کے ساتھ ایک بھی روایت نہیں ملتی ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبدالرزاق زاہد حفظہ اللہ